حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری خارجہ پالیسی کی سمت کیا ہے کوئی سمت ہے بھی یا اس کی ” مہار ” کسی اور کے ہاتھ میں ہے یہ سوال ہمیشہ زیر بحث رہا
ترقی پسندوں نے ہمیشہ خارجہ پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا آڑے ہاتھوں بظاہر ہمارے اسلام پسندوں نے بھی لیا لیکن بغور دیکھا جائے تو اسلام پسند ہمیشہ عملی طور پر اس خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کیلئے پالیسی سازوں کے معاون رہے ، دوبرس قبل ہمیں بتایا گیا کہ چالیس سال پہ پھیلی افغان پالیسی خسارے کا سودا تھا اب ریویو کا وقت آگیا ہے صاف مطلب یہی تھا کہ یہ کہا جارہا ہے خارجہ پالیسی کی بُنت میں اب امریکی خوشنودی کی بجائے ملکی مفادات کو مدنظر رکھا جائے گا۔
لیکن اب گزشتہ روز قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ "ہماری خارجہ پالیسی امریکی اثر سے آزاد نہیں ہے اور یہ کہ” ہم معاشی طور پر بھی ہم آزاد نہیں ہیں” نیز یہ کہ جب تک قرضے لیتے رہیں گے خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہوسکتی۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ "چینی کیمپ میں جانے کی بات کی نہ ہوئی یہ قیاس آرائیاں ہیں”۔
ہماری دانست میں بظاہر مشیر قومی سلامتی کی آراء سے اختلاف ممکن نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے آزاد روی کے لئے ہمارے یہاں سنجیدہ اقدامات ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اٹھائے گئے۔ انہوں نے ترقی یافتہ دنیا کے مقابلہ میں تیسری دنیا (ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک) کو منظم کرنے کی کوشش کی۔
پہلے مرحلہ میں مسلم دنیا کو یکجا کرنے کے لئے ابتدائی کام ہوا بھی۔ لیکن اس آزاد روی کے سارے کردار جس طرح راستے سے ہٹائے گئے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی نئی مملکت (پاکستان) کا ابتدا ہی سے امریکہ کی طرف جھکائو تھا۔ اس ضمن میں قائداعظم کے چند بیانات اور بعدازاں لیاقت علی خان کا سوویت یونین کا دورہ منسوخ کرکے امریکہ کے دورہ پر چلے جانا بھی تاریخی شواہد کے طور پر موجود ہیں۔
متحدہ پاکستان کے ایک وزیراعظم حسین شہید سہروردی امریکی کیمپ سے نکلنے کی خواہش پر جس طرح اقتدار سے محروم ہوئے یا اولین مارشل لاء کے سرخیل جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کے فوراً بعد مملکت کو امریکی اتحادی کا درجہ دلایا اور سوویت یونین کے خلاف امریکی سرد جنگ میں شراکت داری کرتے ہوئے امریکہ کو جاسوسی کا اڈا فراہم کیا۔ ان حقیقتوں سے انکار ممکن نہیں۔
آزادی کے بعد ابتدائی عشروں میں صنعتی عمل کی ترویج مقامی ضرورت تو تھی مگر اس میں ضرورت سے زیادہ مرعوبیت کا عمل دخل تھا جس کی وجہ سے زرعی معیشت کی تاریخ کے حامل علاقے میں صنعت کاری اولین ترجیح بنتی چلی گئی اور زراعت مسلسل نظرانداز ہونے لگی۔
نوبت یہاں تک آگئی کہ زراعت کے حوالے سے زرخیز ملک کو امریکہ سے امدادی گندم کا تحفہ لینے میں عار محسوس نہیں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی خارجہ و معاشی پالیسیوں کی آزاد روی کے باعث ہی تین اہم کام ہوپائے اولاً ایٹمی پروگرام، ثانیاً ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس اور ثالثاً پاکستان سٹیل مل۔ یہ آخرالذکر دونوں ادارے چین اور روس کے تعاون سے لگائے گئے تھے۔
آزاد خارجہ پالیسی کے اس دور میں جہاں لاکھوں لوگوں کو خلیجی ریاستوں اور یورپی ممالک وغیرہ میں روزگار کے مواقع حاصل ہوئے و ہیں مقامی طور پر زرعی اصلاحات کے ذریعے زراعت کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیوں کا عمل شروع ہوا۔
یہ عمل اور خارجہ پالیسی میں آزاد خیالی (پاکستان ان برسوں میں غیرجانبدار ممالک کے عالمی فورم کا بھی رکن تھا) کا یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوگیا جب 5جولائی 1977ء کو منتخب حکومت کی جگہ تیسرے مارشل لاء نے لے لی۔
تیسرے مارشل لاء کے نفاذ کی بظاہر مقامی وجوہات بتائی گئیں لیکن حقیقت میں جولائی تا ستمبر 1976ء کے درمیان امریکی سفیر اور دیگر حکام کی اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہونے والی ملاقاتوں میں ہوئی امریکیوں کو ناکامی نے اس کا راستہ ہموار کیا۔
امریکی ملاقاتیوں نے بھٹو کے سامنے افغانستان میں ہونے والی نئی صف بندی کے حوالے سے دستیاب معلومات رکھیں اور دو خواہشوں کا اظہار کیا اولاً یہ کہ پاک افغان سیاسی پراکسی کی حکمت عملی کے تحت حکومت پاکستان نے جن افغان رہنماوں کو پناہ دی ہے ان تک امریکی حکام کو رسائی دی جائے تاکہ ان کی مدد کی جاسکے ثانیاً یہ کے اگر سویت یونین کے حامی افغان افغانستان میں سوویت یونین کی مدد سے انقلاب لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پاکستان اس کے خلاف اپنائی جانے والی امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں تعاون کرے ، اس تعاون کیلئے ایوب خان دور میں ہوئے امریکہ سے تعاون کو بطور مثال پیش کیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اس پر آماد نہ ہوئے آگے چل کر جو ہوا وہ مارشل لاء کی صورت میں سب کے سامنے آگیا یہ بات بہر طور درست ہے کہ مارشل لاء کے نفاذ کے لئے مقامی حالات تو محض بہانہ ہی بنے اصل میں تو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے امریکہ سوویت یونین سرد جنگ میں پرجوش امریکی اتحادی بننے سے معذرت کرلی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ منتخب حکومت کی جگہ لینے والی مارشل لاء حکومت نے خارجہ پالیسی میں امریکی رہنمائی کو کھلے دل سے قبول کرکے اپنے اقتدار کا جواز حاصل کرلیا۔
قیام پاکستان کے بعد سے آج تک کی خارجہ پالیسی کا عمومی تجزیہ اس امر کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ تین مختلف ادوار میں امریکی اتحادی کے طور پر اپنائی گئی پالیسیوں نے مملکت اور نظام کو امریکہ کا محتاج بنادیا۔
امریکہ و دیگر غیرملکی امدادوں، افغان جنگ اور 9/11 کے بعد کے تعاون کے صلے میں ملی امداد اور دیگر فنڈز کی ریل پیل نے معاشی خودانحصاری کی ضرورتوں کو پس پشت ڈالوا دیا۔ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کے انٹرویو کو اگر وزیر خزانہ شوکت ترین کے ایک حالیہ بیان سے ملاکر دیکھا جائے تو صورتحال کو سمجھنے میں کوئی امر مانع نہیں رہتا۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو امریکی دبائو کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تحریک انصاف پچھلے ادوار میں اپوزیشن کا حصہ تھی تو اس کی قیادت امریکی اثر پر تشکیل پانے والی خارجہ پالیسی کی ناقد رہی مگر اقتدار میں آنے کے ساڑھے تین سال بعد اس کی قیادت اس ضمن میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی۔
اس طور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ خارجہ پالیسی میں توازن بہرصورت لازم ہے اور معاشی پالیسیوں میں خودانحصاری کو اولیت دینا بھی۔ ہر دو کام کئے بغیر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں۔
اس کے لئے لازم ہے کہ خارجہ پالیسی عام بحث کے بعد پارلیمینٹ میں تشکیل دی جائے ۔ آزاد خارجہ اور معاشی پالیسیوں کی تشکیل چیلنج ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پالیسی ساز ڈنگ ٹپائو پالیسیوں سے آگے سوچنے کی زحمت نہیں کرتے اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں ان پر پھر کسی دن بات کریں گے ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب ایسا بھی بالکل نہیں کہ امریکی کیمپ کے باہر کی دنیا، دنیا ہی نہیں ہے۔
دوطرفہ تعلقات میں برابری کا اصول پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ فدویانہ پن نے اس ملک کو مسائل کے سوا کچھ نہیں دیا اب بھی وقت ہے کہ ہمارے ہاں اپنے قومی مفادات کی روشنی میں پالیسیاں وضع کی جائیں تاکہ ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا ہوسکے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ محض ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ہی ادا نہیں کرنا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ خارجہ پالیسی ہو یا معاشی پالیسی ہردو پارلیمینٹ میں تشکیل پائیں اور پارلیمینٹ ہی ان کی محافظ ہو۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ