ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر، مطالعے، تجربے، مشاہدے، وسیع تر میل ملاپ اور باہمی تبادلہ خیالات انسان کی سوچ کو جامد نہیں ہونے دیتے۔ ضروری نہیں کہ اگر انسان دس پندرہ بیس سال پہلے کسی معاملے سے متعلق ایک خیال رکھتا تھا اس کا آج اس کے بارے میں دوسرا خیال نہیں ہو سکتا۔ ایسی تبدیلی خیال پر لوگ کیوں سیخ پا ہوتے ہیں، مجھے اس کی سمجھ نہیں آتی۔
کوئی مذہب سے پھر گیا تو مذہبی لوگوں کے ناراحت ہونے کی وجہ ہے کہ مذہبی عقائد والے ایسا نہ ہونے دینے کے قائل ہیں لیکن اگر کوئی مارکسزم یا کمیونزم سے اختلاف کرنے لگے تو مارکسسٹ افراد کے رویے وہی ہوں جو عقیدت مندوں کے ہوتے ہیں تو یہ رویہ اس لیے تکلیف دہ اور موجب حیرت ہوتا ہے کہ مارکسزم تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ مگر یہ عقیدہ پرست نام نہاد مارکسسٹ کیونکہ کمیونسٹ تو بغیر کمیونسٹ پارٹی کے ہونا تکنیکی طور پر ممکن نہیں، فورا” طعنے دینے اور لیبل لگانا شروع ہو جاتے ہیں کہ ایسی بات کرنے والا دانش مندی کی سطح پر بدعنوان ہے، لاحول ولا، یعنی اگر کہی گئی بات آپ کی سوچ کے مطابق ہو تو بات کرنے والا صادق و امین اور اگر آپ کے خیال سے اختلاف کرے یا متفق نہ ہو تو دانش مندی بلکہ دانشوری کی سطح پر بدعنوان ٹھہرایا جائے۔ اس کے علاوہ سب و شتم اور کیا ہو سکتا ہے؟
میں ایک عرصہ کمیونسٹ رہا مگر پارٹی چھوڑنے اور کمیونسٹ پارٹیوں کے اعمال جان لینے کے بعد جب اپنی سوچ تبدیل کی تو اپنے سابق ہم خیال دوستوں کی نگاہوں میں میں فورا” ملا یا زندیق قرار پا گیا۔ یہ دوست آنکھیں موندے رہے، کچھ اب تک کور ہونے کی اداکاری کر رہے ہیں کہ نہیں جانتے کمیونزم عملی طور پر کہیں تھا ہی نہیں اور مارکسزم پر کہیں بھی کتابی کلاسیکی مارکسزم کی طرح عمل نہیں کیا گیا ۔ کہیں یہ لیننزم رہا، پھر سٹالنزم۔ کہیں ماؤزے تنگ سوچ کے مطابق عمل کیا گیا، کہیں ہوچی منہ کی ترمیم پسندی مقدم ٹھہری اور کہیں کم ال سنگ، کم جونگ ال اور کم جونگ ان نام نہاد کمیونزم کی آڑ میں خدائی شبیہہ رہے اور ہے۔
کمیونزم کے ساتھ تو جو پیش آیا وہ دنیا دیکھ چکی۔ آج کل دو اور فوقیتوں کا بڑا ذکر ہے یعنی سیکیولرازم اور لبرلزم۔ مخالفین ان دونوں کو مطعون اعمال خیال کرتے ہیں، ٹھٹھہ اڑاتے ہیں، تضحیک کرتے ہیں اور جو حق میں ہیں وہ ان کو اولیں انسانی آدرش بنا کر پیش کر رہے ہیں وہ بھی کہاں پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں 96 فیصد مسلمان بستے ہیں اور کم نہیں تو 85 فیصد چاہے دل میں سہی اسلام کو ایک نظام سمجھتے ہیں۔ بہت سے کہیں گے سمجھتے یعنی کیا مطلب بھئی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ بھئی انفرادی ضابطہ حیات ہے یا اجتماعی۔ مبلغ سوچے سمجھے بنا کہہ دیں گے دونوں طرح کا۔ مان لیا مگر آپ سروے کر لیجیے اگر ان 85 فیصد میں سے 70 فیصد لوگ اس کی تفسیر بھی کر پائیں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا بس سن لیا اور ڈٹ گئے۔ یہ کوئی اتنی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ مذاہب تو ہوتے ہی ایمان ہیں اور ایمان کا مطلب ہی ایمان بالغیب ہوتا ہے۔
اب پہلے آتے ہیں سیکیولرزم کی جانب۔ سیکیولرزم کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ کسی کے کسی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے ، کسی پر کوئی تنقید نہ کی جائے۔ اس طرح اگر سوچا جائے یا پھر اس سوچ پر عمل بھی کیا جائے تو اس سے نراجیت جنم لے گی۔ سیکیولر انسان نہیں ہوتا۔ تنظیمیں، ادارے اور ریاست سیکیولر ہو سکتے ہیں یعنی یہ ایک منظم عمل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی مذہب کے اصول و ضوابط، فقہ و شرع پر عمل کرنے والا شخص سیکیولر ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب لوگ یہ دیتے ہیں کہ ہاں ہو سکتا ہے۔ اس جواب کو بھلا کیسے مانا جائے کیونکہ اگر کوئی مسیحی ہے، یہودی ہے، مسلمان ہے، ہندو ہے، بدھ مت ہے یا کسی بھی مذہب سے باقاعدہ وابستہ ہے، اس کے تمام شعائر پر کاربند ہے تو وہ کسی دوسرے کے عمل کو کیسے درست قرار دے گا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کی تعظیم کرنا اور دوسرے مذہب والوں کے ساتھ مل کر رہنا اچھی بات ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ہم "برداشت” کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور برداشت کا مطلب ہے کہ اچھا چاہے نہ لگے پر جھیلو۔
میرے گھر میں "برداشت” عملی طور پر موجود رہی۔ میں نماز پڑھتا، میری روسی بیوی برداشت کرتی مگر جب کبھی اس کے پسندیدہ پروگرام کے دوران ٹی وی بند کرنے کو کہتا تو وہ یہ بھی کہہ دیتی کہ تیری نماز نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ میں چیخ پڑتا کہ میری نماز سے متعلق کچھ نہ کہنا۔ وہ کبھی کبھار اپنے قدامت پسند عیسائی عقیدے کے مطابق کچن میں موم بتی جلاتی۔ مجھے جلتی موم کی بو نہیں بھاتی تو میں چیخ پڑتا کہ بجھاؤ اسے۔ نہ میں بڑھ کر اس کی موم بتی کو پھونک مار کر بجھاتا اور نہ وہ میرا مصلا اٹھا کرکے باہر پھینکتی۔ مطلب یہ کہ ہم دونوں برداشت ضرور کرتے مگر سیکیولر نہیں تھے کیونکہ انسان ہیں، اس لیے نہیں ہو سکتے۔ روبوٹ ہوتے تو اور بات تھی جیسے فیڈ کیا گیا ہوتا یا ایک دوسرے کو تباہ کر دیتے یا ایک دوسرے کے عمل سے متعلق کوئی خیال ہی نہ ہوتا۔ جیو اور جینے دو کا اصول سیکیولر عمل نہیں کہلاتا بلکہ مفاہمتی رویہ ہوتا ہے۔
ریاست بھی اگر کسی مذہب سے وابستہ ہونے کی دعوے دار ہے تو لاکھ زور لگا لو، آدھی سے زیادہ آبادی کو ریاست کے سیکیولر ہونے پر قائل کر لو تاوقتیکہ آئین میں "اسلامی جمہوریہ” حذف کیے جانے کی ترمیم نہیں ہو جاتی کوئی بھی اسلامی جمہوریہ سیکیولر نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان سیکیولر جمہوریہ ہے مگر وہاں بھی مودی جیسا آ کر ریاست کے سیکیولر ہونے پر سوال کھڑے کر دیتا ہے۔ امریکہ کا آئین سیکیولر نہیں ہے کیونکہ "ان گاڈ وی ٹرسٹ” ان کا اعلان ہے البتہ جمہوریت کے حوالے سے وہاں سب کو ہر طرح کی آزادیاں دی جاتی ہیں چاہے باہر کے ملکوں میں وہ اپنے اس اندرونی اصول کی دھجیاں اڑاتا پھرے۔ وہاں بھی ٹرمپ جیسا صدر مذہبی نفرتیں ابھارنے والی سرگرمیاں کر سکتا ہے۔
اب آئیے لبرل ہونے کی جانب۔ یہ البتہ "جیو اور جینے دو” کے اصول کو کہا
جا سکتا ہے مگر لبرل ہونا کوئی اتنا آسان نہیں ہوتا خاص طور پر مذہبی معاشروں میں جہاں پرورش ہی مذہب کے اصولوں کے مطابق کی گئی ہو۔ لبرل ہونے کے لیے ماحول اور حیثیت کا ہونا ضروری ہے۔ کوئی نماز پڑھتا ہے تو پڑھنے دو، کوئی شراب پی رہا ہو تو پینے دو تا وقتیکہ وہ نشے میں ہو کر ہنگامہ آرائی نہ کرے۔ بھائی ایک مذہبی معاشرے میں نماز پڑھنے پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا بلکہ توصیف ہی ہوگی مگر شراب پینے کی بھلا کس کو اجازت ہوگی؟ البتہ اگر آپ امراء کے طبقے سے ہیں یا کم از کم اونچے درمیانے طبقے سے ہیں۔ آپ خفیہ یا ان بڑے کلبوں میں جا سکتے ہیں جہاں اراکین کے بنا کوئی اور داخل ہی نہ ہو سکتا ہو، وہاں آپ سکون سے پییں بلکہ لوگ پیتے ہیں۔ وہاں جا کر نماز پڑھنے کا خیال شاید ہی کسی کو آتا ہو اور اگر میرے جیسا "ملا ” کسی کلب ممبر دوست کے ساتھ چلا بھی جائے تو اسے نماز کے لیے جگہ پوچھنے پر یاروں کا کوئی طعنہ سننا ہی پڑے گا چنانچہ خالص لبرل ہونا بھی مشکل ہے۔ لڑکیوں کو دوست رکھنے کا یا بر چننے کا حق ہونا چاہیے، یہ ایک لبرل رویہ ہے مگر مذکورہ دو طبقات کے علاوہ ایسی بات کرکے تو دیکھیے، دس دس دوستیاں لگانے والے آپ کے منہ کو آ جائیں گے۔ لبرل ہونے کے لیے پہلے سرمایہ داری کی تمام قباحتوں رشوت ستانی، جی حضوری، بدعنوانی سے ہمکنار ہو کر پیسے کمائیں۔ ان علاقوں میں کوٹھیاں بنوائیں جہاں مجھ جیسے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اپنے جیسوں سے دوستی رکھیں پھر جیسا جی میں آئے خیالات رکھیں اور ان پر اپنے محدود حلقے میں عمل بھی کریں۔ لبرلزم تب تک عام نہیں ہو سکتا جب تک ایک بڑی آبادی فی الواقعی یعنی معاشی خوشحالی کے حوالے سے مڈل کلاس کا حصہ نہیں بن جاتی اور ملک کے آئین میں ترمیم نہیں کر دیتی یعنی اسے فقط جمہوریہ یا عوامی جمہوریہ نہیں بنا دیتی۔ مڈل کلاس پروان چڑحے بغیر ایسا بنگلہ دیش میں کیا جا چکا ہے مگر وہاں کا لبرلزم دیکھ لیں کہ کتنا مضبوط ہے۔
مقصد یہ کہ فرد کی حیثیت سے میں یا آپ سیکیولر ہو نہیں سکتے اور لبرل ہونے کی مجھ اور آپ جیسوں کی نہ حیثیت ہے، نہ ہمیں ہمارے ارد گرد کے لوگ ہونے دیں گے۔ تو جناب ہم اچھے برے بس مسلمان بھلے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ