اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’صوبہ جنوبی پنجاب‘‘ حقیقت یا سیاست؟||افتخار الحسن

جنوبی پنجاب کے نام پر گزشتہ ایک دہائی سے سیاست کی جارہی ہے ۔ جنوبی پنجاب کو محض اپنی سیاست کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے خوب استعمال کیا۔

افتخار الحسن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جنوبی پنجاب کے عوام کے حقوق کی بات بھی سبھی کرتے ہیں مگر حقوق کیلئے عملی طور پر اقدامات کسی سیاسی جماعت نے نہیں کئے۔ جب بھی عملی اقدامات کا وقت آتا ہے تو مینڈیٹ نہ ہونے کا کہا جاتا ہے حالانکہ موجودہ اسمبلی نے بھی کئی بار ایسی قانون سازی کی جس کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی اور وہ دو تہائی اکثریت نے ہی قانون سازی کی مگر جنوبی پنجاب کے نام پر یہ دو تہائی اکثریت ہمیشہ آڑے آتی رہی۔ ویسے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کیلئے الگ پارٹی کی تنظیم سازی کی ہوئی ہے البتہ مسلم لیگ(ن) نے ابھی تک ایک ہی پنجاب کی تنظیم سازی پر کام چلایا ہوا ۔ صوبہ محاذ کے نام پر بننے والی سیاسی جماعت نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔

موجودہ حکومت کے چار سال مکمل ہونے والے ہیں مگر اب تک نہ کسی صوبہ محاذ کے رہنما اور نہ تحریک انصاف کے کسی رہنما نے جنوبی پنجاب الگ صوبہ کی تحریک اسمبلی میں پیش کی ہے کہ جس سے ان کی سنجیدگی کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ الگ صوبہ کا بل دو تہائی اکثریت سے پاس ہونا یا نہ ہونا ایک الگ بات تھی مگر ابھی تک حکومتی جماعت نے یا کسی بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ممبر نے بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا۔ اگر حکومت جماعت کی جانب سے الگ صوبے کا بل اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے اور کوئی دوسری جماعت اس کی بل کی مخالفت کرتی ہے تو کم از کم اسے عوام کو یہ تو معلوم ہو جائے گا کہ کون صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے مخالف ہے۔ اب ملتان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے سینیٹر رانا محمود الحسن نے جنوبی پنجاب الگ صوبہ کیلئے سینیٹ میں بل پیش کردیا ہے جس پر رواں ہفتے بحث ہونی ہے۔

کم از کم سینیٹر رانا محمود الحسن نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے اب یہ دیکھا ہے کہ کونسی جماعت اس بل کی مخالفت کرتی ہے۔ عوام اب یہ بھی جان چکے ہیں کہ موجودہ حکومت الگ صوبہ کیلئے سنجیدہ نہیں ہے ورنہ اب تک پارلیمنٹ میں کچھ عملی اقدامات کر چکی ہوتی۔ محض ایک بے اختیار دوشہروں میں تقسیم الگ سیکرٹریٹ بناکر جان نہیں چھڑائی جا سکتی ۔عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے گئے تو عوامی عدالت میں جانے کا وقت ہوا جاتا ہے جہاں عوام بہترین اور انصاف پر مبنی فیصلہ سنانے میں مکمل بااختیار ہیں۔

جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف نے اپنی عبوری تنظیم سازی مکمل کرلی ہے جس میں صوبہ محاذ کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کو تحریک انصاف جنوبی پنجاب کاصدر بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو بھی دوبارہ پارٹی کا وائس چیئرمین بنادیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر و تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے صدر خسرو بختیار پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنوبی پنجاب الگ صوبہ کے نعرہ کو عملی جامہ پہنا کر سرخرو ہوں اور جنوبی پنجاب کے عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کریں ۔ شاید اسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے ان کو جنوبی پنجاب کی صدارت کا عہدہ دیا ہو۔

اس وقت جنوبی پنجاب کے عوام جس مشکل میں مبتلا ہیں وہ قلمدان بھی مخدوم خسرو بختیار کے پاس ہی ہے یعنی وہ وزارت صنعت و پیداوار کے وفاقی وزیر ہیں۔ کھاد کی عدم دستیابی نے جنوبی پنجاب کے کسانوں کا پارہ چڑھا رکھا ہے ۔گزشتہ دو ماہ سے یہ بحران جاری ہے اور ہر آنے والا دن مشکلات میں اضافہ کررہا ہے۔ مخدوم خسرو بختیار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس سال فصلیں زیادہ کاشت ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھوڑا بہت فرق ہوسکتا ہے مگر یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔ حکومت نائٹروجن کھاد کی اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ روکنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے یہ بحران شدت اختیار کر گیا جو تاحال جاری ہے۔

خانیوال سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی سردار حامد یار ہراج کو کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ سردار حامد یار ہراج وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں اور موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے بھی ان کا نام سامنے آ یا تھا۔ سردار حامد یار ہراج کو وزارت خوراک پنجاب کا قلمدان سونپا گیا ہے ۔یہ وزارت علیم خان کے استعفیٰ کے بعد خالی تھی اور اتفاق کی بات یہ بھی ہے کہ اب وفاقی و صوبائی زراعت و خوراک کی تمام وزارتوں کا تعلق خانیوال سے ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی سید فخر امام اور صوبائی وزیر زراعت سید حسین جہانیہ گردیزی کا تعلق بھی خانیوال سے ہی تھا۔ دیر آئے درست آئے، حامد یار ہراج کی کابینہ میں شمولیت اور وزارت خوراک کی ذمہ داری سنبھالنا خوش آئند ہے اور بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ گزشتہ سیزن گندم کی ریکارڈ پیداوار ہونے کے باوجود پنجاب سے گندم کی اسمگلنگ نے مسائل پیدا کئے اور پھر گندم امپورٹ کرنا پڑی جس پر بھاری زرمبادلہ خرچ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

جنوبی پنجاب ایک بار پھر نظر انداز!||شوکت اشفاق

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

افتخار الحسن  کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: