اکمل خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سوالات کے جواب جاننے سے پہلے ہمیں ان اجتماعی رویوں کو دیکھنا ہو گا جو ایسے سانحوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ ہمیں جاننا ہو گا کہ ایسے ہنگامی حالات میں ریاستی، سماجی اور انفرادی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہمیں ان رویوں کو سمجھنا ہو گا جن کی وجہ سے ہم اپنی یا اپنے ساتھ مشکل میں پھنسے دوسرے افراد کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں؟
کسی بھی اندوہناک سانحے کے بعد سب کی نظریں حکومت کی طرف اٹھتی ہیں کہ اس ہنگامی صورت حال سے بچاؤ کے لئے ریاستی اقدامات کیا تھے؟ ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لئے کون سا ادارہ مرکزی ہے؟ کس ادارے نے موسمی ہنگامی حالات کے حوالے سے حوالے سے پیشگی انتظامات کو یقینی بنانا ہے؟
برف باری کے نتیجے میں ہونے والے مری سانحے کے حوالے سے کون کون سے ادارے تھے جن کی ذمہ داری تھی کی سخت موسم میں سیاحوں کو کسی مشکل صورت حال سے بچایا جا سکے؟ برف باری والے علاقوں میں سڑکوں کی کیا حالت تھی اور اس علاقے میں کتنے سیاحوں کے ٹھہرنے کی گنجائش ہے؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لئے ہمیں جاننا ہو گا کہ برف باری کی وجہ سے پیدا ہونے والے صورتحال کو قابو کرنے کے لئے کون کون سے ادارے کام کر رہے تھے اور کیا انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی یا نہیں؟
ہنگامی صورتحال میں عوام کی جان و مال کا تحفظ قومی اور صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ذمہ داری ہے۔ موسمی خطرات کے حوالے سے عوام اور متعلقہ اداروں کو خبردار کرنا اور ان سے اس حوالے سے انتظامات کروانا بھی ان اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ کورونا اور سموگ کے مسائل کے حوالے سے تو خاصی معلومات فراہم کرتی ہے لیکن برف باری کے خطرے اور اس ہنگامی صورتحال سے بچاؤ کی واجبی سی معلومات مہیا ہیں۔ ہنگامی حالات میں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال بھی ان اداروں کو مشکل کا شکار عوام کی رہنمائی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن ان اداروں کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجودگی بھی نا ہونے کے برابر ہے۔
سیاحت کے فروغ کی وزارت میں افسران کی توجہ شاید سیاحوں کو ان علاقوں میں جانے کے لئے راغب کرنا ہے۔ محفوظ سیاحت اور کسی سیاحتی مقام پر ہنگامی صورت حال سے کیسے نبٹنا ہے اس کی کوئی پالیسی دکھائی نہیں دیتی۔
آفات سے بچاؤ کی اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو کے ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس لئے نہیں بنائے جاتے کہ وہ کسی سانحے کے رونما ہونے کا انتظار کریں بلکہ وہ پیشگی اس کی پیش بندی میں جت جاتے ہیں اور ایسی پلاننگ کرتے ہیں جس سے ایسے سانحے رونما ہی نا ہوں۔ مری میں ہونے والے حالیہ سانحے میں ان اداروں کے مابین باہمی کو آرڈینیشن کا فقدان ہی شاید واحد وجہ تھی جس کی وجہ سے سیاحوں کو بچایا نا جا سکا۔
ہنگامی امداد کے ادارے نے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ اور عوام کو مری میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے حوالے سے تو آگاہ کر دیا لیکن اس ہنگامی آفت سے بچاو کے پیشگی انتظامات کے متعلق بتانا شاید ان کی ذمہ داری ہی نہیں۔ 8 جنوری کو صوبائی ادارے کی ویب سائٹ پر ایک مبہم سا پیغام دے دیا گیا جس میں مری کے موسم کا تذکرہ ہی نہیں ہے۔
برف باری کے طوفان کے حوالے سے پیشن گوئی محکمہ موسمیات کی ذمہ داری ہے اور ان کے طرف سے گزشتہ ایک ہفتہ سے مسلسل برف باری کے حوالے سے مطلع کیا جا رہا تھا۔ ان کے پیغامات میں بنیادی نکتہ برف باری کی اطلاع تھا نا کہ عوام کو سمجھا نا کہ اس برف باری کے دوران سفر کرنے میں کیا مشکلات آ سکتی ہیں اور کیسے ان مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ایک سیاح جس نے کبھی زندگی میں برف سے ڈھکی سڑک پر گاڑی چلائی نہیں یا پھر اسے برف باری کے دوران سفر درپیش نہیں ہوا تو اس کو برف باری کے دوران پیش آنے والے مسائل کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ لاعلمی بسا اوقات مری جیسے بڑے سانحوں کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان میں محکمہ موسمیات کے عوامی مراسلوں، جن میں موسم کے حوالے سے پیشن گوئی کی گئی ہو اس کا عام فہم ہونا اور ان معلومات کا عام آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہونا واضح ہونا ضروری ہے۔ جیسے برف باری کے نتیجے میں کس علاقے میں سیاحوں کو کس طرح کی مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور ان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔ محکمہ موسمیات اگر برف باری یا بارشوں کے موسم میں سیاحوں کو گلیات میں صبح، دوپہر اور شام کے درجہ حرارت اور اس کے نتیجے میں سڑکوں پر جمنے والے کورے اور اس کے مسائل سے آگاہ کرے تو شاید سیاح بہتر انداز میں اپنے آپ کو اس موسم کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر سکیں۔
برف باری کے حالیہ طوفان سے بچانے کے لئے ایک اہم کردار ٹریفک پولیس کا تھا جنہوں نے ٹریفک کے نظام کو بحال رکھنا تھا۔ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کے پاس برف باری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہنگامی صورت حال کی مکمل معلومات تھیں۔ لیکن انہوں نے گنجائش سے زائد گاڑیوں کو گلیات میں داخل ہونے دیے۔ ٹریفک پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ وہ کسی خاص علاقے میں لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرے۔ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر ضلعی انتظامیہ کی ہے۔ اگر راولپنڈی اور اسلام آباد کے ضلعی کمشنر صاحبان بروقت فیصلہ کر کے سیاحوں کی نقل و حرکت محدود کر دیتے تو شاید یہ سانحہ پیش نا آتا۔
تحصیل مری کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس شہر تک رسائی کی مرکزی شاہراہ شہر اقتدار سے گزرتی ہے جس کا انتظام اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے پاس ہے اور راولپنڈی ضلعی انتظامیہ بھی ان پر انحصار کر کے مری جانے سیاحوں کی رہنمائی نہیں کرتی۔ اگر اسلام آباد ٹول پلازہ سے گاڑیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا جائے تو مری جانے والوں کی بہتر رہنمائی ممکن ہے۔ لیکن جب صوبائی آفات سے نبٹنے کے ادارے، وفاقی و ضلعی انتظامیہ کے درمیان کوآرڈینیشن کی کمی ہو گی تو ایسی صورت حال کا دوبارہ ہونا قرین قیاس نا ہو گا۔
ہنگامی صورت حال میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان ریڈیو اور اسلام آباد ٹریفک پولیس کے ریڈیو کے ذریعے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو سیاحوں کو بنیادی احتیاط کے حوالے سے بھی خبر دار کرنا چاہیے تھا جس میں ٹائروں پر چین ہونا، گاڑی میں ہیٹر چلا کر نا سونا اور دھواں کے اخراج کو بحال رکھنا، جیسی اہم معلومات تھیں۔ چونکہ تمام گاڑیوں میں ریڈیو کی سہولت موجود ہوتی تو اس ذریعے کا بہتر استعمال اس ہنگامی آفت سے بچانے میں مددگار ہو سکتا تھا۔
ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد ان گاڑیوں میں سوار تھے جو فور بائی فور نہیں۔ یہ کاریں عام دنوں میں تو پہاڑی علاقوں میں سفر کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں لیکن برف باری کے طوفان میں ان گاڑیوں میں سفر نا صرف اپنے لئے خطرے کا باعث ہے بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ برف باری کے دوران اناڑی ڈرائیوروں اور غیر مناسب گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک میں تعطل پیش آیا اور اس کے نتیجے میں بہت سے افراد کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار گاڑی کی حالت کا اندازہ لگا کر بھی اسے گلیات کی طرف سفر سے روکتے تو شاید کل ہونے والے سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔
برف باری کے دوران جب کسی جگہ ٹریفک کا اژدہام پیدا ہوتا ہے تو اس سڑک کی بحالی بہت مشکل ہو جاتی ہے کیوں کہ سڑک کی بحالی کرنے والے عملے کو عوامی تعاون نہیں ملتا اور نا ہی سڑکوں پر رش کی وجہ سے ان کی رسائی رہتی ہے۔ بہت سے جگہوں پر رش ہونے کی وجہ منچلوں کا تصاویر بنانے کے لئے رکنا اور راستوں کو بلاک کر دینا بھی ہے۔ ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ پرانی گاڑیوں اگر موسم کی شدت میں بند ہو گئیں تو دو بار چالو کرنے میں کتنی دقت درپیش ہو گی۔ برف باری کے دوران ذرائع آمدو رفت کے محدود ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں شہر کے نواح تک ممکن ہوتی ہیں دور دراز کے علاقوں میں مدد کا پہنچنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ہماری مرکزی شاہراؤں پر موٹر مکینک کی سہولت شام ڈھلنے کے بعد میسر آنا مشکل ہے تو پہاڑی علاقوں میں برف باری کے دوران کسی کی گاڑی خراب ہونے کا مطلب ہزاروں افراد کی تکلیف کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے کیونکہ نا تو اس خراب گاڑی کو ہٹایا جا سکتا ہے اور نا ہی دوسری گاڑیوں کے لئے راستہ بچتا ہے اور یہ صورت حال اس وقت اور گمبھیر ہو جاتی ہے جب اس جگہ پر سینکڑوں گاڑیاں اکٹھی ہونی شروع ہو جائیں اور برف باری بھی شدید ہو۔
ہمارے ملک میں ریسکیو او ر ہنگامی امداد کی تربیت کا کوئی نظام ہی موجود نہیں کہ مشکل گھڑی میں تربیت افراد لوگوں کو نا صرف ریسکیو کر سکیں بلکہ وہ ریاستوں اداروں کے ان مشکل حالات میں معاون ثابت ہوں۔ ہنگامی حالات میں غیر تربیت یافتہ افراد بجائے مددگار ثابت ہوتے ہوئے ہنگامی حالت میں بہتری لائیں وہ صورت حال اور خراب کر دیتے ہیں۔
آفات کے بچاؤ کی اتھارٹی اور ارباب اختیار اگر مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے خواہش مند ہیں تو اس کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے جس میں عوامی تربیت، اداروں کی باہمی کو آرڈینیشن اور درست لمحے بہتر فیصلے شامل ہیں۔ سیاحت کی بحالی کے لئے عوام اور ریاستی مشترکہ کاوشیں ہی سیاحوں کے ذہن سے اس سانحے کی یاد محو کر سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ