سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور کی پاکستان سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے کہ پاکستانی موقف دنیا کے سامنے بڑے دبنگ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ تحریک انصاف میں چوہدری سرور کی شمولیت سے توقع تھی کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور تعلقات کو بروئے کار لائیں گے اور دنیا بالخصوص برطانیہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے کے ساتھ تجارتی، ثقافتی سطح پر بھی پاکستان کی شناخت اجاگر کریں گے لیکن افسوس کہ اس وقت ہوا کہ جب عمران خان نے انہیں گورنر پنجاب جیسا نمائشی عہدہ دے کر ان کی صلاحیتوں سے بھرپور انداز میں فائدہ نہیں اٹھایا۔ ابھی چند ماہ قبل انہی سطور کے ذریعے یہ خبر بریک کی تھی کہ چوہدری سرور بطور عوامی نمائندہ ایوان میں آنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سے رابطے بھی کئے یہی نہیں بلکہ اپنے لئے خوب لابنگ بھی کی لیکن آفرین ہے چوہدری سرور پر جنہوں نے اپنے کپتان کی خواہش پر برملا کہا کہ انہیں خان صاحب جو بھی ذمہ داری دیں گے وہ اسے بطریق احسن نبھائیں گے۔
چوہدری سرور کی پی ٹی آئی سے ان کی وفاداری پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔آپ دوسری مرتبہ گورنر پنجاب ہیں۔ پہلے وہ مسلم لیگ ن کے دور میں بطور گورنر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں بلکہ انہوں نے گورنر شپ سے استعفیٰ دے کر پی ٹی آئی جوائن کی تھی اس لئے اگر کوئی یہ توقع رکھتاہے کہ گورنر پنجاب کو کرسی کا لالچ ہے تو وہ غلط ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں جس طرح چوہدری سرور نے بھریا میلہ چھوڑا تھا اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ چوہدری سرور دل سے پاکستان کی خدمت کرنے کے خواہاں ہیں۔ ابھی چند روز قبل گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اپنے ایک برطانوی حکمران جماعت کے نمائندے کے ساتھ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں اطلاعات کے مطابق انہوں نے پاک برطانیہ تعلقات بہتر بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں یہی نہیں بلکہ انہوں نے تو گورنر شپ سے مستعفی ہوکر بطور سیاسی کارکن بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق چوہدری سرور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی سے قطعاً مطمئن نہیں ہیں اور بطور پی ٹی آئی نمائندہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر صورتحال یہی رہی اور پنجاب میں گورننس، رشوت اور کرپشن کے بازار کو نہیں روکا گیا تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے لئے کامیابی کی توقع کرنا بھی گناہ کبیرہ ہوگا۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ پاکستان میں ٹھیکیداری نظام میں کرپشن کی ایسی ایسی ہوشربا داستانیں رقم ہیں کہ جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج اگر پی ٹی آئی کم خرچ میں سڑکیں بنانے کا کریڈٹ لے رہی ہے تو دوسری طرف اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے دور میں بنی بعض سڑکیں تو 3سال میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے تو ظاہر ہے کہ ٹھیکیدار ہی ان سڑکوں کی خستہ حالی کا ذمہ دار ہے۔ اب اگر ٹھیکیدار نے سڑکوں کی تعمیر میں خستہ میٹریل استعمال کیاہے تو لامحالہ اس نے اس مکروہ فعل میں اوپر سے لے کر نیچے تک بہت سے لوگوں کو بھی ساتھ ملایا ہوگا اور ان سب لوگوں نے بھی اپنا کمیشن کھرا کیا ہوگا لیکن اس کوکیا کہا جائے کہ اگر خان صاحب سے ایسے معاملات بارے شکایت کی جائے تو وہ اپنے چہیتے عثمان بزدار کے خلاف کچھ سننے کو تو جیسے تیار ہی نہیں ہیں اسی لئے تو جس کا جہاں اور جب دائو لگ رہا ہے خزانے کو ٹیکہ لگائے ہی جارہا ہے۔
ابھی چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں حکومت کی ناکامی کا اعتراف کیا کہ احتساب نہ ہونا ان کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔ اب کوئی ہمارے بھولے اور سیدھے وزیراعظم کو سمجھائے کہ جناب دوسروں کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنی صفوں میں چھپے ہوئے کرپٹ عناصر پر بھی گرفت کرنی چاہیے۔ دراصل یہ آپ کا بزدار حکومت پراندھا اعتماد ہی ہے جو آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے پنجاب سے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے اس لئے اگر عمران خان نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور بزدار حکومت کی کارکردگی پر نظر نہ ڈالی تو معاملات کوئی اور رخ بھی اس لئے اختیار کرسکتے ہیں کہ ابھی چند روز قبل جہانگیر ترین نے بڑا دلچسپ بیان دیا کہ ان کا جہاز کہیں بھی جاسکتا ہے جس پر سیاسی حلقوں میں بڑی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔
اب آئندہ الیکشن میں سیاسی پہلوان کس جماعت کا ٹکٹ لے کر دنگل میں اترتے ہیں اس بارے تو ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم دوسری طرف عمران خان کو اس دلچسپ موو پر ضرور نظر رکھنی چاہیے کہ اگر انہوں نے پنجاب حکومت کی نااہلی کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا تو بہت ممکن ہے کہ تحریک انصاف میں ہی ایک نیا گروپ یعنی فارورڈ بن جائے اور ان میں چوہدری سرور، جہانگیر ترین، علیم خان، خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق اور زبیر چوہدری ایک تگڑا گروپ بناکر پنجاب میں پی ٹی آئی کو ٹی ٹائم دے سکتے ہیں۔ تاہم جہاں تک چوہدری سرور کا تعلق ہے تو خان صاحب کو انہیں نمائشی عہدہ دینے کی بجائے اہم ذمہ داریاں تفویض کرنی چاہئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بات پر خان قصاحب کہیں گے کہ کپتان کو پتہ ہوتاہے کہ کس فیلڈر میں کتنا پوٹینشل ہے اور اسے کب اور کہاں کھڑا کرنا ہے۔ بلاشبہ عمران خان کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب کپتان مانے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف انہیں اس حقیقت کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے کہ آج اگر وہ اپنی حکومت کی احتساب میں ناکامی کو برملا تسلیم کررہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ اپنے کھلاڑیوں کی درست جگہ پر Placement نہ کرنا بھی ہے۔
کپتان ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ غلطیوں سے سیکھا جاتا ہے اس لئے ہم ہاتھ جوڑ کر کپتان سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے طاقتور کھلاڑیوں کو نمائشی عہدوں پر بٹھانے کی بجائے انہیں اہم ذمہ داریاں سونپیں تاکہ ان کی کارکردگی نکھر کر سامنے آسکے۔ ایسا کرنے سے پارٹی اور حکومت دونوں کو بہتر انداز میں فائدہ ہوسکتا ہے۔ یوں بھی کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے رائونڈ کے شرمناک نتائج کے بعد اب پرویز خٹک کو جو میدان میں اتارا گیا ہے کیا ہی بہتر ہوتا یہ سب کچھ عمران خان بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی ایسا کرلیتےتاہم اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ چوہدری سرور کو بطور عوامی نمائندہ ایوان میں لاکر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے اور انہیں مرکز نہیں تو پنجاب میں اہم ذمہ داری دینی چاہیے۔
چوہدری سرور وطن عزیز کے لئے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور اگر وہ اپنی صلاحیتیں وطن عزیز اور اس کے عوام پر صرف کریں تو اس کا سب کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ تجارتی اور ثقافتی سطح پر بھی وہ پاکستان کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان آئندہ انتخابات میں بہتر کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی شکست خوردہ سٹرٹیجی بدلیں اور ہر صورت ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دیں اور اپنے اردگرد موجود مفاد پرستوں کے غول سے باہر نکلیں تبھی جاکر وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرپائیں گے کیونکہ خان صاحب کا یہ رویہ نہ صرف انہیں بلکہ پارٹی کو بھی نقصان پہنچاسکتا ہے۔ خان صاحب جو ہر وقت میرٹ کی بات کرتے نہیں تھکتے اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں عہدے، ٹکٹیں بھی میرٹ پر دیں اور اس کے لئے چوہدری سرور سے گورنر شپ سے استعفیٰ لے کر انہیں بطور عوامی نمائندہ ایوان میں بھیجیں۔ ایسا کرنا اس لئے بھی ضرویر ہے کہ وہ عوام کے مسائل سے باخبر ہونے کے ساتھ ان کے حل بارے بھی آگاہ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے کون سے حربے اور طریقے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان میں ملوث افراد کو بھی بے نقاب کرسکتے ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور جو پنجاب کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے چانسلرز بھی ہیں، میں ان سے ایک درخواست ان سطور کے ذریعے کرنا چاہوں گی کہ وہ کم از کم برطانیہ سے پاکستانی طلبا کو گریجوایٹ ماسٹر، پی ایچ ڈی کے لئے سکالر شپس دلوانے کیلئے اپنا اہم کردار ادا کریں۔ میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ ایسا کرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں لیکن ان کی اس کوشش سے سینکڑوں غریب اور قابل پاکستانیوں کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ وزیراعظم چوہدری سرور کو بہترین قومی مفاد میں بطور عوامی نمائندہ آگے لائیں، اس میں پاکستان اور حکومت دونوں کا بھی مفاد ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ