عثمان غازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں بتایا گیا کہ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان جہاندیدہ سیاست دان ہیں اور بلاول بھٹو انڈر ٹریننگ مگر جب بلاول بھٹو نے 27 فروری کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تو جہاندیدہ سیاست دان مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف کی سیاسی ناپختگی سامنے آئی اور بلاول بھٹو سیاست کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان رہنے کے اپنے تسلسل کو برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آئے۔
نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسمبلیوں سے استعفے دے کر لانگ مارچ کرو، بلاول بھٹو نے کہا کہ اسمبلیوں کے میدان کو خالی نہ چھوڑو اور آج بلاول بھٹو کا بیانیہ جیت گیا، ن لیگ اور جے یو آئی نہ مارچ کرسکی اور نہ استعفے دے سکی، پی ڈی ایم نے اپنے لانگ مارچ کی تاریخ 23 مارچ رکھی جو عملاً ممکن نہیں کیونکہ اس دن اسلام آباد میں یوم پاکستان کی تقریب ہے، اگر یہ تاریخ آگے بڑھتی ہے تو چند دنوں بعد رمضان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز خواجہ آصف نے کہا کہ 27 فروری کو پاکستان پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کی تاریخ حقیقی ہے، ن لیگ کے رہنما مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنا لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح ن لیگ بلاول بھٹو کے اسمبلیوں میں جدوجہد کے بیانئے کو بھی تسلیم کرچکی ہے کہ تحریک عدم اعتماد آنا چاہئیے اور گزشتہ روز احسن اقبال نے کہا کہ بال بلاول بھٹو کے کورٹ میں ہے، وہ جب تحریک عدم اعتماد لانا چاہیں گے، ہم ساتھ دیں گے۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کی چند نشستیں جیتنے کے بعد اب تو مولانا فضل الرحمان بھی اپنے استعفوں کے مؤقف سے پیچھے ہٹ چکے ہیں، کاش یہ بزرگ سیاست دان پہلے ہی ایک نوجوان سیاست دان کی بات کو سمجھ لیتے تو اب تک عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہوتا، عوام نے جتنے دن مہنگائی، بے روزگاری اور حکومتی نااہلی کا سامنا کیا، اس کے ذمہ دار ملک کے نام نہاد جہاندیدہ بزرگ سیاست دان ہیں، بلاول بھٹو ہی ملکی سیاست کے روحِ رواں ہیں، یہی حقیقی داؤ پیچ سے واقف ہیں اور ایک ایسا وژن رکھتے ہیں جو بزرگ سیاست دانوں کو مہینوں بعد سمجھ آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر