دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسکراتی آنکھوں والا عبدالخالق||ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں دو تین روز براہ راست وٹس ایپ پہ حال پوچھتا رہا۔ جواب نہ آیا مگر پھر ان کی ڈاکٹر دختر نے فون کرکے کہا کہ ابا نے آپ کا حال پوچھنے اور ان کا حال آپ کو بتانے کو کہا ہے۔ چونکہ وہ آکسیجن پر ہیں، انہیں سانس چڑھ جاتی ہے اس لیے بات نہیں کر سکتے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک روشن علی گھلو جنہیں دنیا سے گئے آٹھ سال سے زائد ہو چکے ہیں چھٹی جماعت سے میرے دوست تھے۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی پری میڈیکل کرکے نشتر میڈیکل کالج ملتان کا طالب علم بنا اور وہ ایمرسن کالج ملتان سے فراغت پا کر راج شاہی میڈیکل کالج پڑھنے چلے گئے۔
مشرقی پاکستان میں شورش اٹھی تو وہاں سے سارے مغربی پاکستانی طالبعلم لوٹے جنہیں مختلف میڈیکل کالجوں میں کھپایا گیا۔ فوری طور پر ہوسٹلوں کے کمرے دستیاب نہ ہونے کے سبب بیشتر دوستوں یا شناسا طلبا کے کمروں میں عارضی طور پر رہائش پذیر ہوئے۔ ظاہر ہے ملک روشن میرے ساتھ رہنے لگے۔
بعد کے بنگلہ دیش سے آئے کئی طالب علموں سے روشن کی معرفت شناسائی ہوئی اور پھر تعلقات بنے جیسے قربان علی، میاں عبدالرشید، چغتائی اور مسکراتی آنکھوں والے عبدالخالق۔ بیشتر وقت چہرے اور آنکھوں میں مسکان لیے عبدالخالق بعض اوقات کھل کے قہقہہ بلند کرتے جس کے ختم ہونے کے بعد بھی مسکراہٹ ان کی آنکھوں سے رم جھم برستی محسوس ہوتی۔
ہم ڈاکٹر ہو گئے۔ تسبیح کے دانے بکھر گئے۔ کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ کم ہی لوگوں کی خبر رہی۔ ہمارے ایک ہم جماعت میجر جنرل ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم بکھرے تسبیح کے دانوں کو اکٹھا کرنے اور تعلق کی تار میں باندھنے کی کوئی کوشش ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ راولپنڈی میں نیشنل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے جنرل ڈائریکٹر ہوں، اسلام آباد میں الشفا انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل ہوں یا لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر متعین ہوں، دوستوں کو کھانے پر اکٹھا کیے رہتے ہیں خاص طور پر جب کوئی ہم جماعت غیر ملک سے پہنچے۔
مگر ان محافل میں میری عبدالخالق سے ملاقات نہ ہو پائی ۔ پھر کوئی تین برس پہلے میڈیکل کالج کے ہم جماعت دوستوں کا ایک وٹس ایپ گروپ بنا جس میں عبدالخالق کے لکھنے کے جوہر کھلے۔ میں نے انہیں وجاہت مسعود کے ویب پیپر ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے پہ لکھنے کو کہا، جس میں انہوں نے اپنے اسفار کی رودادیں تحریر کیں۔ مضمون بھیجنے سے پہلے مجھے بھیجتے کہ دیکھ لیں ۔۔ بالآخر مجھے کہنا پڑا کہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں چنانچہ براہ راست بھیج دیا کریں۔
میں نے اپنی آپ بیتی کے ناشر زاہد کاظمی کو ان سے ملنے کی تلقین کی تاکہ ان سے ان کی یادداشتیں لکھوائی جا سکیں۔ زاہد نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کورونا کے خلاف حد سے زیادہ احتیاطیں کرتے ہیں ۔ گذشتہ برس کے اپریل میں زاہد ان سے ملنے گئے تو انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چودہ ماہ میں آپ پہلے شخص ہیں جنہیں میں نے ملنے آنے دیا۔
مجھ سے جب بھی فون پہ بات ہوئی مجھے بھی محتاط رہنے کی تلقین کرتے۔
گذشتہ ستمبر میں کورونا سے میری بہن کا انتقال ہوا تو انہوں نے تعزیت کا فون کیا اور ہم کورونا وائرس کی نئی انواع اور ویکسینوں بارے بات کرتے رہے۔ انہوں نے خود بھی احتیاط سے متعلق دو یا زائد مضامین تحریر کیے۔
دسمبر کے تیسرے ہفتے میں انہوں نے گروپ میں لکھا کہ ان کے گھر ان سمیت کئی افراد کورونا میں مبتلا ہیں۔ بیٹیاں اور بہو ڈاکٹر ہیں جن میں سے کوئی وائرس لے آیا ہوگا۔
میں دو تین روز براہ راست وٹس ایپ پہ حال پوچھتا رہا۔ جواب نہ آیا مگر پھر ان کی ڈاکٹر دختر نے فون کرکے کہا کہ ابا نے آپ کا حال پوچھنے اور ان کا حال آپ کو بتانے کو کہا ہے۔ چونکہ وہ آکسیجن پر ہیں، انہیں سانس چڑھ جاتی ہے اس لیے بات نہیں کر سکتے۔
ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں، کیونکہ وہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر تھے، باقی ادویہ کے ساتھ، پہلے پلازما چڑھایا گیا۔ پھر حالت بگڑ گئی تو ہائی آکسیجن۔ اور پھر وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا۔
جنرل اسلم صاحب روز گروپ میں آپ ڈیٹ دیتے رہے۔ کبھی خوشی کی کبھی پھر پریشانی کی۔ گذشتہ دسمبر کے آخر میں جب اومیکرون کا ذکر ہونے لگا تو روس کے ماہرین وائرس نے کہا چونکہ کورونا کا مریض تین ہفتوں بعد جان ہارتا ہے اس لیے اومیکرون کی ہلاکت خیزی جاننے کو جنوری کی نو دس تاریخ تک انتظار کرنا ہوگا۔ میری بہن واقعی تین ہفتے بعد فوت ہوئی تھیں چنانچہ میں عبدالخالق کے بارے میں زیادہ پریشان رہنے لگا۔ اطلاع یہی ہوتی کہ ابھی وینٹی لیٹر پہ ہیں، دعائیں درکار ہیں۔
پانچ جنوری کو جنرل صاحب نے لکھا کہ عبدالخالق کی کیفیت بدتر ہے۔ ان کا دل رک گیا تھا۔ کارڈیوپلمونری ری سسیٹیشن سے دل چلنے لگا اور انہیں پھر سے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ہے۔
6 جنوری 2022 کی صبح میں نے فون کھولا تو زاہد کاظمی کی جانب سے اور گروپ میں بھی ان کے بچوں کی طرف سے ان کے انتقال پر ملال کی اطلاع تھی۔ دل پر جیسے ہاتھ پڑا۔ امید کر رہے تھے کہ اس بار ہم جماعت ملتان میں اکٹھے ہونگے تو ملاقات ہوگی مگر اللہ کے کاموں میں بھلا کسی کا کیا دخل ہے یہ ” ٹٹ پینڑا کورونا ” ہمارا مسکراتی آنکھوں والا دوست عبدالخالق لے گیا اور ہمیں غم و اندوہ کی خندق میں دھکیل گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author