مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پرائمری ڈسمینوریا کا شکار بیشتر نوعمر لڑکیاں ہی بنتی ہیں، جو ماہواری کے مسائل سے نبرد آزما ہو رہی ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پرائمری ڈسمینوریا عمر کے ساتھ گھٹتا چلا جاتا ہے۔ ہارمونز کے نظام میں استحکام، حمل اور زچگی کے سر اس کا سہرا باندھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اماں کب آرام آئے گا؟ بستر میں آڑھی ترچھی لیٹی ہوئی وہ بچی بار بار ماں سے یہ سوال کرتی۔ پیٹ پہ ناف کے نیچے گرم پانی کی بوتل رکھی تھی۔ درد کی گولی بھی کھلائی جا چکی تھی لیکن رحم کو ابھی رحم نہیں آیا تھا۔

بیٹا کچھ دیر اور، ماں نے بہلانا چاہا۔
نہیں اماں، نہیں آ رہا آرام۔ کیا اس درد سے میری جان کبھی نہیں چھوٹے گی؟ ، وہ منہ بسورتے ہوئے کہنے لگی۔

شاید ہاں، شاید نہیں، ماں بولی۔
یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ لڑکیوں کو ہی اس درد کا بار بار سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے، ہر ماہ اور اس قدر شدید؟

بس بیٹا! عورت کو درد سے تخلیق کیا گیا ہے اور تخلیق کا وجود عورت کے دم سے ہے، ماں نے زیر لب کہا۔
لڑکوں کو کیوں نہیں ہوتا یہ درد؟ بچی درد کی شدت سے مضطرب تھی۔

اس لیے کہ ماہواری کا نظام عورت کے اندر رکھا گیا ہے۔ یہ بھاری پتھر عورت کو ہی اٹھانا ہے، ماں اداس لہجے میں بولی۔

آج سوچا کہ ماہواری سے وابستہ اس درد کے متعلق بات کی جائے، جس نے برسا برس ہمیں تڑپ تڑپ کر بستر پہ پڑے رہنے پر مجبور کیے رکھا، ہر ماہ دو دن۔ عجب بات یہ تھی کہ تینوں بہنوں میں سے ہم ہی بہت بے دردی سے اس کا شکار بنے۔ اماں اور بہنوں کے لیے ماہواری کے درد کی شدت کہیں کم تھی۔ شروع شروع میں جب درد سے ہم لوٹ پوٹ ہونا شروع ہوئے اور ساتھ میں قے بھی شروع ہو جاتی تو اماں بہت گھبرائیں کہ نہ جانے منجھلی کس موذی بیماری کا شکار ہو گئی۔

ویسے کچھ نہ کچھ بات تو تھی کہ ہمارا معاملہ کسی نہ کسی طرح عجب ہو ہی جایا کرتا تھا۔ بہت سے ڈاکٹرز کا طواف کرنے کے بعد علم ہوا کہ اس درد کا درماں محض چند گولیاں اور انجکشن ہیں، جو ہمیں ہر ماہواری کے دوران لینے ہیں تاکہ مریض نیم بسمل کی تڑپ میں کچھ تو کمی ہو۔

گھر سے ہوسٹل منتقل ہونے پہ جو خیال بار بار دل کو لرزاتا تھا، وہ یہی کہ ماہواری کے درد میں کیا ہو گا؟ درد کی گولیاں اور گرم پانی کی بوتل تو ہمراہ کر دی گئی تھی مگر اماں کو کہاں سے لاتے، جو ہر تھوڑی دیر کے بعد کمر سہلا کر پوچھتیں، آرام آیا؟

ہوسٹل میں جب بھی انجکشن لگوانے کی نوبت آئی تب یار غار دوڑ دھوپ کر کے اس کا بندوبست کرتے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں ریچل نے کینیڈا سے فون کر کے وہ دن یاد کروایا، جب درد کی شدت نے ہمیں دنیا و مافیہا سے بے حال کر رکھا تھا اور وہ ہمیں رکشے میں سوار کروا کے ہسپتال کی ایمرجنسی لے کر پہنچی تھیں۔ کیا دن تھے وہ بھی!

صاحب، داستان گوئی تو بہت ہو گئی اب سنیے کہ ماہواری کے اس درد کو Dysmenorrhea کہا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات کا تعین تو نہیں کیا جا سکا لیکن مختلف تھیوریز کے مطابق بہت سے عناصر اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

انسانی جسم میں ہارمونز کی اتھل پتھل اور ان کا رحم پہ اثر انداز ہو کر درد کے ریشوں کو ابنارمل حد تک چھیڑ دینا بنیادی سبب بن جاتا ہے۔ رحم ماہواری کے دوران بار بار سکڑتا ہے، بالکل زچگی کے عمل کی طرح اور لہروں کی مانند وقفے وقفے سے اٹھنے والی درد بھی زچگی ہی کی مانند ہوتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ زچگی کا عمل کئی گنا شدید ہوتا ہے۔ زچگی میں رحم سکڑ کر بچے کو باہر نکالتا ہے اور ماہواری میں خون اور رحم کی اندرونی جھلی کا اخراج ہوتا ہے۔

ایک اور تھیوری کے مطابق اگر بیضہ دانی سے انڈا بن کر باقاعدگی سے خارج ہو تب ساتھ میں بننے والے ہارمونز ماہواری کی تکلیف بڑھا دیتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹر ڈسمینوریا کی تکلیف زائل کرنے اور مریضہ کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس بات کو خوش آئند بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہمیں تو جب بھی کسی نے یہ کہا، ہم نے پیچ وتاب کھاتے ہوئے سوچا، ارے بھاڑ میں جائے انڈا ونڈا، یہاں جان پہ بنی ہے، انہیں اٹکھیلیاں سوجھی ہیں۔

ڈسمینوریا کو دو اقسام میں بانٹا جاتا ہے، پرائمری اور سیکنڈری۔

پرائمری ڈسمینوریا میں رحم، بیضہ دانی، پیٹ کا نچلا حصہ مثانہ اور مقعد نارمل ہوتے ہیں اور کہیں بھی کسی بیماری کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ وجہ وہی بلوغت پہ ہارمونز کا نشیب و فراز اور انڈا بننے کی خوش خبری۔

پرائمری ڈسمینوریا کا شکار بیشتر نوعمر لڑکیاں ہی بنتی ہیں، جو ماہواری کے مسائل سے نبرد آزما ہو رہی ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پرائمری ڈسمینوریا عمر کے ساتھ گھٹتا چلا جاتا ہے۔ ہارمونز کے نظام میں استحکام، حمل اور زچگی کے سر اس کا سہرا باندھا جاتا ہے۔

سیکنڈری ڈسمینوریا زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی عورتوں کی داستان ہے۔ سیکنڈری ڈسمینوریا کے پس پردہ بہت سی ایسی بیماریوں کا ہاتھ ہوتا ہے، جن کا علاج زیادہ تر سرجری ہی ہوتا ہے۔ ان میں رحم کی رسولیاں خاص طور پہ قابل ذکر ہیں۔

اب کیسے بتائیں کہ ڈسمینوریا نے ہمیں ٹوٹ کر چاہا ہے اور یقین جانیے کہ ہمیں اس کی محبت پہ قطعی کوئی شک نہیں۔ اوائل عمری میں پرائمری اور بڑھتی عمر یا کچھ دوستوں کے بقول گھاگ عمر میں سیکنڈری ڈسمینوریا نے ہمیں ناکوں چنے چبوا دیے۔ درون خانہ رازدار کہتے ہیں کہ کسی اور میں یہ ہمت کہاں تھی بھلا؟

افاقہ ہوا کہ نہیں، بس اتنا کہے دیتے ہیں بقول ناصر کاظمی،
تجھے بھی نیند آ گئی، مجھے بھی صبر آ گیا
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: