ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا عین جہاد ہے” یہ حدیث قدسی بعض اخبارات کی پیشانی پر لکھی ہوتی ہے اور ہم سب اسے پسند کرتے ہیں، صرف بطور حدیث کے ہی نہیں بلکہ یہ ہر آزادی خواہ انسان کے دل کی بات ہے اس لیے مگر ایسے کتنے لوگ ہیں جو اس حدیث پر عمل کرتے ہوں؟
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اگر سب ملک اپنے اپنے علاقوں میں خوش ہوں۔ ان ملکوں کی حکومتیں صرف اپنی آبادی کی خوش حالی، تعلیم، صحت مندی اور ترقی کے لیے کام کریں۔ کوئی ملک نہ ہتھیار بنائے نہ فروخت کرے اور ظاہر ہے کہ تب خریدنے والا بھی کوئی نہ ہوگا تو دنیا کیا جنت نظیر نہیں بن جائے گی؟
مگر ایسا نہیں ہے۔ معروف مورخ ابن خلدون کے مطابق عصبیت کے بنا آپ کی شناخت نہیں ہوتی۔ اس طرح حکومتوں اور حکام کو دوستوں کی کم اور دشمنوں کی تلاش زیادہ رہتی ہے۔ جب کمیونزم کمزور پڑ جائے یا معدوم ہو جائے تو دشمن تخلیق کیا جاتا ہے جسے پہلے آزادی خواہ، حق کے لیے لڑنے والے، جہادی کہا جاتا ہے پھر عالمی دہشت گرد کہہ کر دشمن بنا لیا جاتا ہے۔
اگر آپ دہشت گردی کو کسی اور طرح کی جنگ سمجھتے ہیں تو کچھ ملک فرقہ واریت کے اختلافات کو دھیرے دھیرے بھڑکا کر دشمنی کی شکل دے لیتے ہیں۔ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کی مطلق العنان حکومتوں کے لیے شام کا منتخب صدر ایک آمر حکمران بن جاتا ہے جسے معزول کرنے کے وہ درپے ہو جاتے ہیں۔ لیبیا اور مصر ضرورت پڑنے پر عرب ملک نہیں بلکہ عربی زبان اپنا کر بولنے والے افریقی ملک بن جاتے ہیں اور معمر قداقی قابل گردن زدنی بن جاتا ہے۔
عرب عجم کا جھگڑا قدیم ہو گیا سمجھ نہیں آتا پھر عرب ملکوں میں خود بہت زیادہ اختلافات ہیں اس لیے شیعہ سنی کا فساد کھڑا کیا جاتا ہے اور لشکر جھنگوی جیسی تنظیمیں بنائی جاتی ہیں۔ مشرق وسطٰی میں کیا ہو رہا ہے؟ "داعش” اور "جبہۃ النصرہ” والے کون ہیں، لبنان کی حزب اللہ اور ایران کے سپاہ پاسداران کو ان کے خلاف کیوں لڑنا پڑ رہا ہے؟ حزب اللہ اور سپاہ پاسداران کو کوئی ملک دہشت گرد ڈھانچے قرار نہیں دیتا۔
صرف ایک ملک ہے جو ملحد، مخالف، شیعہ اور ہیروئن کی سمگلنگ کرنے والوں کو ایک ہی فہرست میں رکھتا ہے بلکہ اپنے ہی ملک کے ملحدوں، مخالفوں اور شیعہ حضرات کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت اپنی سرزمین پر مسلمانوں کے مقدس مقامات ہونے کا ہر طرح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو جی میں آتا ہے کرتی ہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔
میں شیعہ نہیں ہوں نہ میری گذشتہ کئی نسلوں میں کوئی شیعہ تھا بلکہ گذشتہ دو نسلوں سے ہم راسخ العقیدہ دیوبندی مسلک کے حامل ہیں مگر میں سعودی شیعہ مبلغ عالم شیخ نمر الباقر النمر کو نام نہاد دہشت گردی کے ضمن میں موت کے گھاٹ اتارے جانے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔
شیخ موصوف کی تقریبا” نو منٹ کی وہ تقریر اس وقت انٹرنیٹ پر دستیاب ہے جس کی بنیاد پر سعودی حکام نے ان پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگا کر انہیں 2014 میں سزائے موت سنائی تھی جس پر نئے سال کے شروع میں عمل درآمد کر دیا گیا۔ اس تقریر میں کہیں بھی دہشت گردی کو ہوا دینے والی بات نہیں ہے۔
شیخ موصوف نے مطلق العنانی اور ظلم و تعدی کی مذمت کی ہے اور ایک فقرہ کہا ہے جو مطلق العنان بلکہ ہر طرح کے حاکموں کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” نہ ہم کسی غیر ملک کے وفادار ہیں نہ ہی تمہارے ملک کے” یہ کہنے سے ان کی مراد آل سعود کا ملک تھا۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ملک کیا ہوتا ہے جہاں تعظیم ہو، تحفظ ، سلامتی ہو لیکن جہاں کے ملک کے ایک صوبے کا انٹیلیجنس چیف بقول ان کے یہ کہہ دے کہ تم سب لوگ (مخصوص فرقہ) قابل قتل ہو تو اسے کوئی بھی کیسے اپنا ملک مان سکتا ہے؟
شیخ موصوف کی سزائے موت پر ردعمل میں مظاہرین نے تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر ہلہ بول دیا اور توڑ پھوڑ کی۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کر دیا اور ایرانی سفارت خانے کے عملے کو 48 گھنٹوں کے اندر اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔
کیا یہ سب کرنے سے خطے بلکہ دنیا بھر میں شیعہ سنی کشیدگی تند نہیں ہوگی؟ کیا پاکستان جیسے ملک کو سوچنا نہیں پڑے گا کہ کہیں 34 ملکوں کے اتحاد میں اسے ایران کے خلاف یا شام کے خلاف تو استعمال نہیں کیا جائے گا؟ کیا مشرق وسطٰی میں سنی شیعہ جنگ جسے عرف عام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کہا جاتا ہے زیادہ شدید نہیں ہو جائے گی؟ یہ سب خدشات درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ خدشات کے درست ہونے کا زیادہ شبہ اس لیے ہے کہ سعودی عرب مسلسل غیر سوچی سمجھی یا بہت سوچی سمجھی فعالیت کا مطاہرہ کر رہا ہے جس سے خطے کے حالات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتے جائیں گے۔ ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والے کو سلام اور یقینا” ظالم حکمران کبھی ہمیشہ نہیں رہتے۔ عوام ہی حق ہوتے ہیں اور عوام کی ہی حکومت ہوگی، انشاءاللہ!
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ