دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمہوریت خطرے میں کیوں؟||رسول بخش رئیس

دوسری بات یہ ہو رہی ہے کہ حکمران لوگوں کی منشا اور مرضی کے ترجمان نہیں رہے۔ ووٹ تو ان سے لیتے ہیں‘ مگر وہ سب کارپوریٹ دنیا اور اقتصادی طاقتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد گزشتہ چند دہائیوں میں خاصا کمزور ہوا ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں جمہوریت ہے تو لیکن بے چاری پنپ نہیں سکی۔ شخصی حکمرانی اور خاندانی بادشاہت کے لیے سماجی فضا بہت سازگار رہی ہے۔ پرانے زمانے میں تاریخ اور جغرافیہ گہری نظر سے پڑھا اور محنت سے پڑھایا کرتے تھے کہ موجودہ معاشرتی اور انسانی رویوں پہ ان کا بہت اثر رہا ہے۔ شخصی حکمرانیاں سب مسلم معاشروں میں غالب ہیں اور خاندانی سیاست بھی۔ عام آدمی اب بھی یہی سوچتا ہے کہ کوئی قابل‘ لائق اور دیانت دار حکمران آ جائے تو ملک صرف اپنا نہیں‘ مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار اور مقام بھی جلد حاصل کر سکے گا۔ مسائل کا ذکر کرتے لوگوں کو اکثر کہتے سنا ہے کہ بس ہماری قسمت میں تو لاڑکانہ اور لاہور والے ہی تھے‘ یا وہ جو پتلی چھڑی ہاتھ میں لیے ایوان اقتدار میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے آئے تھے۔ یہ سب تماشا‘ زبان و بیان کی جادوگری اور گماشتوں کی رنگ بازیاں دیکھتے ہر آنے والی حکومت اور حکمران کے ساتھ امیدیں وابستہ کرتے رہے۔ ہمارا روزانہ کا مکالمہ‘ کوئی بھی فورم ہو‘ حکمرانوں کے روزانہ کے بیانات ان کے تند و تیز جملوں‘ باہمی رقابت اور سیاسی کشمکش کے ارد گرد گھومتا ہے۔ سطحیت اور کیا ہوتی ہے۔ یہ بھی تو شخصیت پرستی کی ہی شکل ہے۔ شاہی دربار اور درباری‘ ان خطوں کی تاریخ اور ثقافت کا جزو رہے ہیں‘ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہوں گے۔ دربار کو درباری اور درباری کو دربار کی پناہ کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ بات کیسے اور کیونکر آگے بڑھے کہ ہمارے نظام حکومت اور نظامِ سیاست کی اصل خرابی کی جڑ اور اس کا حل کیا ہے۔
اس درویش کو قطعاً یہ زعم نہیں کہ سب پتا ہے‘ مگر اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ ‘جمہوریت کو خطرات‘ کے حوالے سے آج کل امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں کیا گفتگو ہو رہی ہے‘ یا کیا لکھا اور پڑھا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس بحث کا پس منظر امریکہ میں ایک سال قبل ایوان کانگریس کی عمارت پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہزاروں حمایتیوں کا دھاوا اور اس ہنگامے میں پانچ لوگوں کی ہلاکت ہے‘ مگر وہ تمام وجوہات جو زیر بحث ہیں‘ وہ ہمارے ہاں نصف صدی سے ہماری سیاست اور معاشرت کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں گزشتہ ایک سال کے اندر امریکی اور مغربی سیاست پر جو کتابیں اور مقالے لکھے گئے‘ وہ بھی جمہوریت کے بارے میں فکر مندی کی علامت ہیں‘ مگر ان سب میں جو تجزیے انہوں نے اپنے ممالک کے حوالے سے کئے‘ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ سب نہیں‘ چند معروضات پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ شاید میں یہ بیان کر سکوں کہ ہماری جمہوریت ابھی تک ریت کا محل کیوں رہی ہے۔ امریکہ میں بات سیاسی تقسیم کی ہو رہی ہے۔ ایک طرف دائیں بازو کی قدامت پسند تنظیمیں اور ری پبلکن پارٹی کا ٹرمپ کا حمایتی ٹولہ ہے اور دوسری طرف لبرل‘ ترقی پسند اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ہیں۔ اسی طرح میڈیا اور دانشوروں کے اندر بھی اسی نوعیت کی تقسیم نظر آتی ہے‘ مگر یہ سب کچھ تو صدیوں سے سیاسی روایت کا حصہ رہا ہے کہ جہاں آزادی ہو گی‘ وہاں مختلف آرا کا ابھرنا اور سیاسی گروہوں کا پیدا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ اب فرق یہ ہے کہ موجودہ تقسیم سیاسی نظام کے بنیادی اصولوں کے بارے میں سوال اٹھا رہی ہے۔ ان میں اولین تو انتخابات کی صحت اور ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی قانونی جائزیت کا عمومی اعتراف مغربی جمہوری ثقافت کا حصہ رہی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2000ء کے صدارتی الیکشن میں سابق نائب صدر الگور کو مجموعی ووٹوں میں برتری حاصل تھی‘ مگر معاملہ فلوریڈا ریاست کی چندکائونٹیوں میں دوبارہ گنتی پر لٹک گیا اور اگر ہاتھوں سے گنتی کی جاتی تو وہ جیت سکتے تھے‘ مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کبھی انہوں نے انتخابات کو متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنی تمام تر توجہ بعد میں انہوں نے عالمی ماحول کی پاکیزگی اور بڑھتی ہوئی حدت کو کم کرنے پر مرکوز کر لی۔ سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ انتخابات میں ہار تسلیم کرنے کی روایت توڑ ڈالی۔ انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہونے کی ناکام کوشش کی اور بیانیہ بھی جاری کیا کہ ”دھاندلی‘‘ ہوئی ہے۔ دھاندلی کا اتنا شور اٹھا کہ جن ریاستوں کی مقننہ میں ری پبلکن کی اکثریت ہے‘ وہاں سیاہ فام اور رنگ دار لوگوں کے لیے ووٹ کا اندراج کرنا اور ووٹ ڈالنا مشکل کیا جا رہا ہے۔ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کے ادارے اور انتخابی عمل کو ہی متنازع بنائے رکھیں تو نہ صرف تقسیم معاشرے میں مزید گہری ہوتی ہے بلکہ جمہوریت پر لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ یہی تو ہمارا مسئلہ ہے کہ موقع ملے تو کھل کر دھاندلی کرتے ہیں۔ ہار جائیں تو کہتے ہیں کہ ہارے نہیں انتخابات چرائے گئے ہیں۔ پھر کون کسی کے اقتدار کی جائزیت کو تسلیم کرے گا۔
دوسری بات یہ ہو رہی ہے کہ حکمران لوگوں کی منشا اور مرضی کے ترجمان نہیں رہے۔ ووٹ تو ان سے لیتے ہیں‘ مگر وہ سب کارپوریٹ دنیا اور اقتصادی طاقتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد گزشتہ چند دہائیوں میں خاصا کمزور ہوا ہے۔ جمہوریت تو اپنی حقیقی روح اور پرانی روایت کے مطابق ہے‘ اس اعتماد پر قائم ہے جو عوام اور نمائندوں کے درمیان انتخابی عمل سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو حکمرانوں کی بات ہی کچھ اور ہے کہ وہ حکمرانی کو اپنا پیدائشی اور خاندانی حق سمجھتے ہیں۔ ہر خاندان کی اب دوسری اور تیسری نسل کو گدی نشینی کا فرضِ منصبی سونپا جا رہا ہے۔ یہاں مفادات‘ رشتے‘ ناتے اور سیاسی چالبازیاں ایک مخصوص طبقے اور ان کے طبقاتی مفادات سے وابستہ ہیں۔ یہاں تو اعتماد سرے سے پیدا ہی نہیں ہوا‘ فقط سماجی جبر‘ مقامی حالات اور طاقتور خاندانوں کا کھیل ہے کہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور رکھتا ہے۔ رازداری میں بات کریں تو وہ آپ کو سب کچھ کھل کر بتا دیں گے۔
تیسری بات جو سابق امریکی صدر جمی کارٹر صاحب نے نیو یارک ٹائمز میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں بیان کی ہے‘ وہ ہمارے نمائندوں کا کردار ہے‘ جو اب وہ نہیں رہا جو کسی وقت ہوا کرتا تھا۔ جمہوری نظریے‘ ثقافت اور اس کی تاریخ کی روشنی میں عوامی نمائندے کا کم از کم تصوراتی کردار تو دیانتداری‘ سچائی‘ عوامی خدمت اور خلوص کا ہے۔ کردار اور معیار مغربی دنیا میں اب کئی درجے نیچے آیا ہے کہ عوام میں ان کا محاسبہ کرنے کی طاقت کمزور ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں تو کلچر ہی کچھ اور ہے کہ شرافت‘ ریاست اور انسانیت کو کمزوری کے پہلو خیال کیا جاتا ہے اور سماجی لحاظ سے ہم اتنے غیر منظم ہیں کہ کسی کو جوابدہ نہیں بنا سکتے۔
خطرات تو اب بڑھ چکے ہیں جن میں جھوٹی خبریں اور ان کا متنازع طریقوں سے پھیلائو‘ احتجاج میں تشدد کا رجحان اور یہ نظریہ کہ حکومت نے کچھ گروہوں کے نزدیک اگر غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے تو اس کے خلاف تشدد جائز بلکہ ضروری ہے‘ جیسے معاملات شامل ہیں۔ کاش ہم وجوہات پر کبھی توجہ رکھ سکتے۔ ہم آپس میں مل کر بات کرتے‘ ماحول کو ٹھنڈا رکھتے‘ باہمی برداشت پیدا ہوتی‘ ایک دوسرے کو اکھاڑنے پچھاڑنے میں توانائیاں ضائع نہ کرتے‘ آئینی اور جمہوری روایات کے بارے میں کچھ سیکھ پاتے۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جمہوریت تو پھر اسی رنگ ڈھنگ میں چلے گی‘ جو ہمارے حکمرانوں کے طور طریقے اور نسبتی اور طبقاتی کردار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author