ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوا تو لمبی لمبی ٹانگوں والی نازک اندام بہو مختصر سا زیر جامہ اور پسلیوں تک اٹھی بنیان پہنے، ٹانگیں پھیلائے، موبائل پر انٹرنیٹ دیکھ رہی تھی۔ پہلو میں ہمارا روسی بیٹا ساشا سویا ہوا تھا۔ میں نے نگاہیں جھکا لیں، بہو نے میرے آنے کا نوٹس تک نہ لیا۔ میں بھلا اس کی ساس کو کیا پاکستانی ثقافت یاد دلاتا؟ ظاہر ہے یہاں کی روایات ہیں اور یہیں کی ثقافت۔ مجھے ترو قضا نماز پڑھنی تھی سو جس جانب ساشا سویا ہوا تھا۔ اس کے دوسری طرف اپنے مصلے کی جگہ پر جانماز بچھا لیا۔ جب میں نے نیت باندھی تو بہو بھی اٹھ کر گھٹنے سے اوپر تک اور کھلے سینے والا گاؤں پہننے چلی گئی، آخر ایک معروف پادری کی بیٹی ہے، عبادات کی تعظیم کرتی ہے ، چاہے وہ مجھ جیسا گناہگار مسلمان ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔
ہماری یہ بہو جب بھی دو چار روز کے لیے آتی ہے تو ایک مختصر ٹائٹ شارٹس اور بس سینہ ڈھانپنے والی بنیان، جس کا پیٹ والا حصہ ہوتا ہی نہیں، پہنے عجلت سے اپنے کام کیے جاتی ہے۔ گھر میں بہو بیٹیوں کا ایسا لباس پہننا معمول ہے جس پر یہاں کے باپ ، بھائی اور دوسروں کی نظر بھی نہیں پڑتی مگر میں پاکستان کی ثقافت کا عادی پچیس برس یہاں گذارنے کے بعد بھی کئی بار استغفار اور لاحول پڑھ لیتا ہوں۔ بعض اوقات شعوری طور پر مگر بیشتر اوقات غیر شعوری طور پر عادتا”۔
میاں، بیوی، بچی اور دادی یعنی میری اہلیہ کو زیارت کرنے ” نوویو یروسلم” جانا تھا۔ یروشلم دیکھنا میری کہنہ آرزو ہے۔ جب میں نے جاگ چکے ساشا سے پوچھا کہ یہ "نیا یروشلم” کہاں ہے تو اس نے کہا کہ زیادہ دور نہیں اگر چاہو تو ہمارے ساتھ چلو۔ میں زندگی میں پہلی بار اپنی روسی فیمیلی کے ساتھ کہیں جانے پر فورا” تیار ہو گیا، یہ جانتے ہوئے کہ میری تین نمازیں قضا ہو جائیں گی۔
خیر ساشا کی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر نکل کھڑے ہوئے۔ بہو نے ادھر ادھر خریداری کرنی تھی اور ساشا کو بینک ” رائفازین” سے پیسے نکالنے تھے۔ بقول اس کے وہ روس میں قائم جرمن بینک کی اس شاخ پر ہی اعتبار کرتا ہے۔ جب وہ بینک میں گیا تو میں پہلے ہی اکتا چکا تھا۔ اہلیہ سے اکتاہٹ کا ذکر کیا تو وہ بولی کہ چاہو تو گھر چلے جاؤ، یہ سلسلہ تو رات گئے تک چلے گا۔ میں نے کہا مگر مجھے نیا یروشلم دیکھنے میں بھی دلچسپی ہے، تھوڑی دیر میں ساشا بینک سے نکل آیا اور ہم نوویو یروسلم کے لیے روانہ ہو گئے۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم نیو یروشلم میں تھے جہاں ہر طرف "استرا” "استرا” ہی لکھا ہوا تھا۔ نیا یروشلم کہیں نہیں لکھا تھا۔ ٹریفک پولیس مستعد تھی۔ گاڑی کی پارکنگ ملنا مشکل تھا۔ خیر ایک چکر کاٹ کر بڑی پارکنگ میں مشکل سے جگہ مل گئی۔ میں بیوی اور پوتی، مانیسٹری کے احاطے کی دیوار کے ساتھ ساتھ بنے پیدل راستے پر، بہو بیٹے سے پہلے نکل لیے۔ میں نے راستے میں بیوی سے کہا کہ میں تو سمجھا تھا کوئی یروشلم جیسا چھوٹا سا شہر ہوگا۔ اس نے بتایا کہ نہیں بھئی یہ مانیسٹری کا نام ہے جو ایک کمپلکس ہے جس میں ” ریسرکشن چرچ” جیسا چرچ بھی ہے۔
روس میں چھبیس پرسوں کے قیام میں پہلا سال ہے جب جنوری میں برفباری کی بجائے بارش ہو رہی ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ بچی اپنی دادی کے ساتھ بیت الخلا میں داخل ہو گئی اور میں سرد ہوا کے تھپیڑے سہتا اور بارش جھیلتا، بہت بڑے دروازے کے پیچے راہداری میں آن کھڑا ہوا۔ سامنے فن تعمیر کا حسین نمونہ چرچ دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے مختلف انداز سے اس کی کئی تصویریں کھینچیں۔ جب ہم سب اکٹھے ہوئے تو سب سے پہلے مانیسٹری کمپلکس میں موجود کیفے میں پیٹ پوجا کرنے کی خاطر روانہ ہوئے مگر اس سے پہلے چرچ کے عقب میں قدیم طرز پر بنی سنگی خندق کا نظارہ کیا اور ایک جگہ پر غار نما ماڈل میں بچے حضرت عیسٰی اور مادر حضرت مریم کی شبیہہ کی تصاویر لیں۔
قدامت پسند عیسائیوں کے روزے ڈھائی ماہ کے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہر کھانے کی چیز سے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ ” پوستنے” یعنی روزہ داروں والی ہے کہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں گوشت یا دودھ سے بنی کوئی بھی چیز تو شامل نہیں۔ میں تو دفتر کے کیفے میں یہی کھاتا تھا کیونکہ حلال ولال کا چکر وہاں کسی کو سمجھ نہیں آتا تھا۔
ہم نے کیفے میں بیٹھ کر ایسی ہی چند چیزوں کا آرڈر دے دیا مگر اصل طلب چائے کی تھی۔ لوگوں کا رش بہت زیادہ تھا۔ ہم کھانے والی چیزیں کھا بیٹھے۔ اتنے میں بہو کے والد پادری کی وردی پہنے اپنی بیوی، بیٹے اور شاگرد کے ساتھ آن پہنچے، انہوں نے بھی کھا لیا تب کہیں جا کر وہ چیز آئی جس کی طلب تھی یعنی چائے۔ مولانا یعقوب واسیلیوچ کشنر تو چائے کے چند گھونٹ لیتے ہی چرچ میں جانے کو اٹھ کھڑے ہوئے تھے کیونکہ "دعائیہ سروس” شروع ہونے والی تھی۔
فارغ ہو کر ہم بھی چرچ کے اندر چلے گئے۔ کیا شاندار چرچ ہے۔ میں نے روم، فلورنس اور وینس کے بہت بڑے بڑے چرچ دیکھے ہیں مگر اس چرچ کی آرائش اور تنویر کہیں دلکش ہے۔ یہ چونکہ ہر طرح سے یروشلم کے "ریسرکشن چرچ” یعنی حیات نو چرچ کی طرز پر ہے اس لیے اس میں وہ مقام بھی ہے جسے روسی زبان میں "گروب گوسپودنی” یعنی تابوت عالی جناب کہا جاتا ہے۔ لوگ ایک ایک کرکے اس میں داخل ہو رہے تھے۔ میں تصویروں لے کر تلاش کرتا ہوا بیوی کے پاس پہنچا تو ہمارےرشتہ دار پادری صاحب اپنے شہر سے آئی کچھ بوڑھی خواتین کو اس چرچ کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ہماری بہو کی چھوٹی بہن لینا جو بہت خوش مزاج اور ملنسار ہے ان بوڑھیوں کو لے کر پہنچی تھی۔ میں نے اسے گلے لگایا اور بیوی سے پوچھا کہ جہاں لوگ داخل ہو رہے ہیں، ہم بھی جائیں تو اس نے کہا لیکن تم تو اس میں نہیں جا سکو گے کیونکہ اس میں داخل ہونے سے پہلے تو خود پر صلیب کا نشان بنانا پڑتا ہے مگر لینا نے فورا” کہا کیوں نہیں جا سکتے ہو۔ میں نے بیوی سے کہا تو چلو۔ اس نے بتایا کہ یہ قطار ہے جس میں ہم کھڑے ہیں۔
اس قطار میں ہماری باری ایک گھنٹے سے کم میں نہ آتی۔ میں جا کر کے ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ جب لگا کہ دس پندرہ منٹ میں باری آ جائے گی تو جا کر بیوی سے کہا کہ ہم دونوں اکٹھے داخل ہونگے۔ تم مذہبی رسوم سرانجام دیتی رہنا اور میں دیکھوں گا۔ اندر جانے سے پہلے ہاتھ میں پکڑی ہر شے، عورتوں کے بیگ تک باہر رکھنے پڑتے تھے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے لوگ کھڑے ہو کر خود پر صلیب کا نشان بناتے، سر کو جھکاتے اور پھر داخل ہوتے۔ ایک لمحے سوچا کہ کوئی بات نہیں میں کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جھوٹ موٹ ہاتھ کا اشارہ کر لوں گا مگر سوچا کہ نہیں ایسا نہیں کروں گا۔
خیر ہم چھوٹی سے کوٹھڑی میں داخل ہو گئے جہاں ایک پتھر رکھا ہوا تھا جسے لوگوں سے چوم چوم کر اوپر سے سپاٹ کر دیا تھا۔ ارد گرد شش جہت دیواروں ہر اولیاء کی تصاویر کندہ تھیں۔ یہ پتھر ان کے عقیدے کے مطابق اس پتھر کی شبیہہ تھی جس پر حضرت عیسیٰ عبادت کرتے تھے اور دعوت دیتے تھے۔ پھر ایک چھوٹا سا چوکور دروازہ یا سوراخ تھا جس میں بیٹھ کر داخل ہونا پڑتا ہے۔ ایک اور کوٹھڑی تھی جس میں سنگ مرمر کا ایک تحت سا تھا۔ اس کوٹھڑی میں بیک وقت بمشکل دو اشخاص کھڑے ہو سکتے ہیں۔ میں داخل ہوا تو ایک سترہ سال کا لڑکا اس تخت سے ماتھا مس کر رہا تھا۔ واپس اس سوراخ سے گذر کر پیٹھ کیے بنا باہر نکلنا ہوتا ہے۔
میں تو ایک منٹ بعد ہی نکل آیا۔ کچھ عجیب سا بھی لگ رہا تھا کہ لوگ شبیہوں کو چوم رہے ہیں، سجدہ کر رہے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ ہمارے ہاں بھی تو علم، ذوالجناح اور تعزیے شبیہیں ہو ہوتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی روایات ہیں اپنی ثقافت اور مذہب ثقافت کا ہی ایک انگ ہے۔
اب سروس شروع ہو چکی تھی۔ پادری کی آواز کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار لڑکیوں کی دعائیہ غنا بھی شامل ہو جاتی تھی۔ میں دیکھتا پھرا کہ یہ سب کہاں ہے مگر کوئی دکھائی نہ دیا۔ بیوی نے راہنمائی کی اور دکھایا ایک دروازے کے سامنے ایک پادری پشت کیے کھڑا تھا جس کی ٹوپی سے شروع ہونے والی ایک سیاہ فرغل ایک دو میٹر زمین پر بھی تھی۔ بتایا کہ یہ "باپ” دعا پڑھ رہا ہے اور اوپر ایک کہیں اوپر موجود کوائر یعنی "غنائیہ منڈلی” اس کے ساتھ آواز ملاتی ہے۔
پھر بڑی سروس شروع ہوئی۔ سب لوگ اس طرف جس جانب پادری کا چہرہ تھا رخ کیے کھڑے ہوئے ہر دعا کے بعد خود پر صلیب کا نشان بناتے اور کمر جھکاتے تھے۔ اب مجھےان لوگوں میں اپنا سیدھا کھڑا ہونا معیوب لگا۔ میں پھر ستون کے پیچھے چھپے بنچ پر جا کرکے بیٹھ گیا۔ مائیک میرے سامنے تھا۔ دعا میں باپ، بیٹے اور روح کے علاوہ وہی کلمات تھے جو سب دعاؤں میں ہوتے ہیں۔ بالخصوص جب پادری نے "گوسپودی پومیلومئیی، گوسپودی پومیلومئیی” کا ورد کیا تو مجھے یہی لگا کہ وہ کہہ رہا ہے،” استغفراللہ، استغفراللہ”۔ مزیدار بات یہ ہے کہ گوسپودی پومیلومئیی کا عربی ترجمہ استغفراللہ ہی ہے۔
ہماری پوتی بہت چنچل ہے۔ بنچ پر میرے ساتھ جو طرح دار معمر خاتون تھی، وہ میرے ساتھ اس کے لاڈ دیکھتی رہی۔ جب سروس ختم ہوئی اور بہو نے پوتی کو گرم کپڑے پہنانے شروع کیے تو یہ خاتوں بچی سے باتیں کرتی رہی اور اس کی انگلی پکڑ کر اسے ستونوں کے پیچھے لے جانے لگی۔ میرے منہ سے نکلا، ” کہاں” اور ساشا بوکھلا کر تیز تیز اس کے پیچھے گیا۔ کچھ دیر بعد جب میں بھی دروازے کی قریب پہنچا تو ساشا ذرا پیچھے کھڑا تھا اور بوڑھی خاتون بچی کے ساتھ چرچ کے اندر بنی دکان پر کھڑی تھی۔ اس نے دو ڈھائی سو روبل کی فریم شدہ کسی ولی کی شبیہہ خرید کر ہماری سیرافیما کو تحفہ کر دی تھی۔ یہ اس کا نیک کام تھا جو شاید ہم مسلمانوں کے خیال میں نیک کام ہو ہی نہ۔ مجھے اچھا لگا کہ بچی بڑھیا کو پیاری لگی، اس نے کسی ولی کا اس پر سایہ کرنے کے لیے اسے اس کی شبیہہ خرید کر تحفہ کر دی۔ مگر پادری صاحب کا کہنا تھا کہ ایسی عورتیں جو اسقاط حمل کروا چکی ہوں وہ اپنے گناہ کی تلافی کی خاطر بچوں کو "شبیہہ” تحفہ میں دیتی ہیں۔
اس مانیسٹری کی بنیاد 1656 میں رکھی گئی تھی۔ جگہ اس لیے چنی گئی تھی کیونکہ تب کے اسقف اعظم کے خیال میں یہ زمین یروشلم کی زمین سے مماثل تھی۔ ساتھ بہنے والے دریائے استرا کو دریائے اردن کا متبادل خیال کیا گیا تھا۔ اس کمپلکس کو 1918 میں کمیونسٹوں نے بند کر دیا تھا اور چرچ کو آرٹ میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمن طیاروں کی بمباری سے یہ کھنڈر بن گئے تھے۔ 1990 کی دہائی میں اسے پھر سے تعمیر کرنے کا سوچا گیا۔ چندہ ایک ارب روبل اکٹھا ہو سکا تھا۔ کہیں سالوں بعد حکومت نے بجٹ سے دس ارب روبل دیے، کچھ سپانسرز نے مدد کی تو اس شاہکار کو پھر سے استوار کیا گیا۔
یوں میں اپنے خیال والا یروشلم تو نہ دیکھ پایا مگر نووے یروسلم مانیسٹری کا یہ خوبصورت چرچ ضرور دیکھ لیا۔ پہلی بار دعائیہ سروس بھی سن لی۔ باہر نکل کر میں نے مذاق میں بیوی سے کہا ” آج تم نے مجھے آدھا عیسائی (نعوذ باللہ) کر لیا۔ جس پر پادری کی بیوی نے کہا بس تھوڑا سا رہ گیا ہے، پھر اسے خیال آیا کہ کہیں میں برا ہی نہ مان جاؤں تو اضافہ کیا،” مگر سب انسان کی اپنی مرضی ہوتی ہے”۔ میں بھی ہنس پڑا اور دل میں استغفار پڑھی۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر