حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر ہے کہ وزارت خارجہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تو ہوا ورنہ ہم تو یہی سوچ رہے تھے کہ افغان عبوری حکومت کی "محبت” اور انسانی المیے کے سیاپے کے شور میں اپنی ملکی خودمختاری کا کسی کو خیال ہی نہیں۔ چلیں اب یہ سوال نہیں پوچھتے کہ تاخیر کیوں ہوئی۔ شاید صلاح مشوروں میں اتنا وقت لگ گیا ہوگا ، ہمسایوں سے محبت ہمارے ہاں بڑی مثالی ہے۔ سرائیکی میں کہتے ہیں ’’ہمسائے ماں جائے‘‘۔
ویسے یہ مثال افغانوں (افغانستان والوں) پر صادق نہیں آتی جتنا مرضی دودھ پلاتے رہیں ان کی فطرت تبدیل نہیں ہونی ۔ ہمارے پالیسی سازوں کو بھی آستین میں سانپ پالنے کا شوق ہے۔ کچھ دوستوں کا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اس میں ’’مجبور‘‘ ہیں۔
"مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے” والی بات ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ معاملہ زبانی جمع خرچ تک محدود رہے گا یا عبوری حکومت کو اوقات میں رکھنے کے لئے کوئی حکمت عملی بھی وضع ہوگی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ افغان عبوری حکومت کے قیام سے اب تک افغان حدود سے مجموعی طور پر 42بار دراندازی ہوئی، 32بار کی دراندازی کالعدم ٹی ٹی پی نے کی اور 10بار کی دوسرے گروپوں نے۔
پاک افغان سرحد پر لگی خاردار بار اکھاڑنے کے عمل کی نگرانی چونکہ افغان عبوری حکومت کے کارندوں نے کی اس لئے یہ دراندازی نہیں بلکہ کھلی بدمعاشی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو اشرف غنی کی حکومت کے زمانے میں بھی نہیں ہوا۔
اشرف غنی کی حکومت اپنے تحفظات کے باوجود سرحدی تنازعات سے بچ کر رہنا چاہتی تھی۔ ان کے دور میں تین بار بڑی سرحدی خلاف ورزیاں ہوئیں ان کا موثر جواب بھی دیا گیا۔ ان کے دور میں افغان انٹیلی جنس ’’را‘‘ کے ساتھ مل کر کام بھی کرتی رہی
لیکن یہ عبوری حکومت والے تو خالص ہم نے پالے ساری دنیا سے پھڈے مول لے کر۔ آج کل وہ ساری زبانیں ’’گنگ‘‘ ہیں جو کرزئی اور اشرف غنی ادوار کے کسی واقعہ پر احسان فراموشی کے طعنے دینے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی کوستی تھیں جن کا موقف تھا کہ ہمیں اپنی افغان پالیسی اپنے مفاد میں استوار کرنی چاہیے۔ عبوری حکومت کے دور میں (اگست سے اب تک) تین بڑے واقعات ہوئے۔
اولاً طورخم بارڈر پر امدادی سامان لے جانے والے پاکستانی ٹرکوں سے پاکستان کا قومی پرچم اتار کر پھینکا گیا اس میں سرکاری اہلکار ملوث تھے۔
ثانیاً وعدے کے مطابق سرحدی نظام کو موثر نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں جنگجو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ نیز یہ بھی کہ وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے نہیں روکا گیا بلکہ اس دوران 2مرتبہ عبوری حکومت کے ترجمانوں (ان میں سہیل شاہین بھی شامل ہے) نے بیان داغے کہ
"پاکستان کا نظام حکومت کفر پر مبنی ہے”۔
ثانیاً پاک افغان سرحد پر تین مختلف علاقوں میں لگی باڑ اتاری گئی 2مرتبہ باڑ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے اتاری مگر عبوری حکومت کے ذمہ داران موقع پر موجود تھے۔
ایک بار تو صوبہ ننگرہار کے افغان انٹیلی جنس چیف نے موقع واردات پر جذباتی تقریر بھی پھڑکائی ایسی ہی ایک جذباتی تقریر مہمند ایجنسی میں پاکستانی حدود میں بھی پھڑکائی گئی جب عبوری حکومت کے ایک کارندے نے کہا ’’یہ ہمارا علاقہ ہے صرف یہی نہیں بلکہ اٹک تک افغانستان ہے‘‘۔
تب ان سطور میں ہم نے عرض کیا تھا دفتر خارجہ کے ’’بابوان‘‘چپ کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ آئینہ نہیں دیکھاتے؟
ثالثاً باڑ اتارنے کا حالیہ واقعہ ہے۔ جنوبی افغانستان سے ملحقہ پاکستانی سرحدی حدود سے اتاری گئی باڑ کے لئے افغان حکومت کی مشینری استعمال ہوئی۔ سرکردہ حکومتی لوگ موقع پر موجود تھے۔
افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے وقت عرض کیا تھا کہ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے یہاں موجود ہمدردان انقلاب کو کینڈے میں رکھے اور تعاون و اعانت کے پروگرام نہ ہونے دے
لیکن جب خود پوری حکومت افغان انسانی المیے کے درد بھرے گیت الاپ کر حقائق کو مسخ کرتی ہو تو کیسے ان عناصر کو روکا جاتا جو ’’مجاہدین‘‘ کی مدد کے پروگرام چلارہے ہیں۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ عبوری حکومت کے قیام کے بعد سمگلنگ بڑھ گئی ہے۔ آٹا، چینی، دالیں اور گھی کے ساتھ دھڑا دھڑ ڈالر بھی سرحد پار جارہا ہے۔ اس عرصہ میں قانونی تجارت کے راستے میں عبوری حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کیں۔
سرکاری طور پر اکتوبر کے اوائل میں کہا گیا کہ افغان تاجر پاکستان کی بجائے وسط ایشیائی ریاستوں سے کاروبار کریں۔ طورخم اور چمن بارڈر سے تجارتی قافلے روک لئے گئے۔ وزارت خارجہ کمبل اوڑھ کے سوئی رہی۔
چلیں اب احتجاج کیا ہے تو اس پر قائم بھی رہیں۔ باڑ اتارنے کے علاوہ دیگر معاملات پر بھی کھل کر بات کیجئے۔
معاف کیجئے گا سمگلر ا تنے طاقتور نہیں کہ وہ باڑ ہٹائیں اور انہیں عبوری حکومت کا تعاون حاصل نہ ہو۔ آپ کی بات درست ہے تو پھر مان لیجئے سمگلنگ افغان عبوری حکومت کی سرپرستی میں ہورہی ہے اسی لئے وہ اپنی نگرانی میں کچھ علاقوں سے باڑ ہٹوارہی ہے۔
پچھلے تین ماہ کے دوران افغانستان سے پاکستان لائی جانے والی منشیات کی کم از کم 4کھیپیں پکڑی گئیں۔ دو دن قبل سات کروڑ روپے کی چرس پکڑی گئی ہے۔ اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کی ضرورت نہیں قوانین کا اطلاق حکومت کا فرض ہے۔
ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ افغان عبوری حکومت کے بعض رہنمائوں کو پاکستان کے سیاسی، ہم خیال مذہبی حلقوں اور بعض صحافیوں سے آزادانہ طور پر ملاقاتوں کی اجازت کیوں دی گئی؟ کیا کسی دوسرے پڑوسی ملک کی حکومتی شخصیات کو بھی اس طرح کی آزادی حاصل ہے ، نہیں تو پھر افغان طالبان پر واری صدقے ہونے کی ضرورت کیا ہے؟
معاف کیجئے گا یہ جو لوگ افغان عبوری حکومت کے لئے محبت کا زم زم بہانے میں مصروف ہیں یہ عبوری حکومت پر دیگر معاملات کے حوالے سے دبائو کیوں نہیں ڈالتے۔
خواتین کے حقوق، بچیوں کی تعلیم، انسانی حقوق، داعش وغیرہ کے خلاف موثر کارروائی کے لئے؟ سوال اور بھی ہیں مثلاً چند بڑے شہروں میں ایک مخصوص فہم کے اداروں میں عبوری حکومت کو مجاہدین کے طور پر پیش کرکے اس کے لئے چندے اکٹھے کرنے کی اجازت کس نے دی۔
مکرر عرض کئے دیتا ہوں افغان عبوری حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کی سرپرستی سے دستبردار نہیں ہوئی۔ اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
باڑ اتارے جانے سمیت جن دوسرے معاملات سے عبوری حکومت بے خبری کا کہہ رہی ہے یہ بے خبری کی باتیں سفید جھوٹ ہیں۔ یہ کہنا کہ افغان عبوری حکومت کی اعلیٰ قیادت اپنے بعض کمانڈروں کے طرز عمل سے پریشان ہے۔
پاکستانی حکومت اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ بھائی چارے اور انسانیت کے نام پر دہشت گردوں کو سر چڑھانے کا نتیجہ ہے یہ۔ یہ سارے ایک جیسے ہیں کھاتے بھی ہیں اور آنکھیں بھی نکالتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ سفارتی آداب اور تقاضوں سے زیادہ محبتیں نچھاور کرنے سے اجتناب برتا جائے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ