نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کربلا سے بچھڑے ہوئے سپاہی||عامر حسینی

"انتظار حسین کا کربلا سے کیا رشتہ ہونا ہے وہ تو کربلا ساتھ لیے پھرتے ہیں، کربلا کو زور سے پکڑ کر رکھا ہوا تھا چھوڑتے ہی نہیں تھے جب چاہتے برپا کرلیا کرتے تھے ۔ وہ دن رات ان کے ساتھ رہا کرتی تھی "

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگم نصرت بھٹو سے بی بی شہید کو کربلا ورثے میں ملی تھی اور جب اس کربلا تک جانے والے امام مظلوم کے لشکر کا بچھڑا سپاہی "ذوالفقار علی ” راولپنڈی کے کوفے میں سولی پہ چڑھا دیا گیا جو بی بی شہید کا باپ تھا تو وہ کربلا کو اپنے سے چمٹائے پھرتی تھی اور جہاں چاہتی اس کربلا کو بیان کرنے لگتی اور اس تذکرہ سے عصر کا ہر شمر کانپنے لگتا تھا اور پھر یوں ہوا کہ کربلا کو سینے سے چمٹائے پھرنے والی وہ کنیز کربلا خود بھی راولپنڈی کے کوفے میں ایسے وقت میں شہید ہوئی جب اپنے ہر جیالے کو "عزادار” بنانے جارہی تھی ، اس کے بعد سارے بھٹو عزادار بن گئے اور اب ہر ایک کربلا کو اپنے سینے سے چمٹائے پھرتا ہے اور جہاں وہ فرش عزا بچھاتا ہے وہاں وہاں یزیدیت کے تار و پود بکھر بکھر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(یہ عبارت میری ہے ناول میں شامل نہیں ہے)
اصغر ندیم سید کا ناول "دشت امکان ” ہمیں جانے پہچانے کرداروں کو نئے رنگ مں متعارف کراتا ہے۔ چند لوگوں کا تعارف دیکھیے
"بڑے مصور کی لائن بعض اوقات پانچ سو سالوں کی تاریخ پہ محیط ہوتی ہے "
"ہاں بھئی، اس (صادقین)کی نعل جو امروہہ میں گڑی ہے، جاتا رہتا لکھنؤ کے امام باڑے دیکھنے اور دیواریں تھام کا گریہ کرتا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کا پرسہ دیتا ہے۔ سوز خوانوں کی منڈلی میں بیٹھ کر مرثیہ پڑھتا ہے۔ سنتا ہے اور شام غریباں کے غروب ہوتے سورج کی لالی سے امام مظلوم علیہ السلام کا سرخ پرچم بنتا ہے اور اپنے ہر میورل اور ہر ایک خطاطی میں اس پرچم کو بلند کردیتا ہے”
"صادقین جیسا ایک اور مصور بھی تو ہے جو کربلا سے بچھڑا آخری سپاہی ہے جو انڈیا میں ہے "
"ہاں وہ (ایف ایم حسین) گھوڑے بناتا ہے اور سارے گھوڑے امام مظلوم کے مختصر سے لشکر سے ایسے بچھڑے ، آج تک بچھڑے ہوئے ہیں ۔ امام مظلوم کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور خود وہ (ایف ایم حسین) ننگے پاؤں ایک امام باڑے سے دوسرے امام باڑے میں زاکروں کی غلطصیاں نکالتا پھرتا ہے”
ایف ایم حسین نے یونہی ایک لائن کھینچی تو وہ "گھوڑے کی آؤٹ لائن ہوگئی اور وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے یہ گھوڑا سیدھا کربلا سے آیا ہے ،معمولی گھوڑا نہیں ہے – یہ ذوالجناح ہے – یاد رکھنا یہ جلدی سے ذوالجناح سے براق میں بدل جائے گا ، اسے پر لگیں گے اور یہ اڑکر آسمانوں کی طرف اڑ جائے گا اور یوں کینویس خالی رہ جائے گی
"انتظار حسین کا کربلا سے کیا رشتہ ہونا ہے وہ تو کربلا ساتھ لیے پھرتے ہیں، کربلا کو زور سے پکڑ کر رکھا ہوا تھا چھوڑتے ہی نہیں تھے جب چاہتے برپا کرلیا کرتے تھے ۔ وہ دن رات ان کے ساتھ رہا کرتی تھی "
"سنو یہ بات صادقین نے خود مجھے بتائی تھی کہ کربلا سے لہو کی لیکر میری پینٹنگ مین آئی ہے تو میں نے اسے اپنے سینے میں اتار لیا اور اب وہ راستہ پاکے تصویر کے اندر سے نکل آئی ہے”
یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author