حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائبریری میں داخل ہوتے ہی فقیر راحموں کی ہنسی کانوں میں پڑی، ہنسی کیا تھی بس موصوف کو ہنسی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔ وجہ دریافت کی تو ایک خبر آگے بڑھادی پھر ہماری بھی وہی حالت ہوگئی جو اس کی تھی۔
خبر یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفرالحق نامی کسی رہنما کا بیان تھا کہ ’’مسلم لیگ (ن) اس ملک کی مالک ہے باقی ساری سیاسی جماعتیں کرایہ دار ہیں‘‘۔
مسلم لیگ (ن) 1985 کی غیرجماعتی اسمبلی کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ جونیجو سے نکلے مسلم لیگ فدا گروپ کا نیا نام تھا یہ نیا نام 1988ء کی بات ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت برطرف کی مگر نوازشریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ رہنے دیا۔
میاں صاحب نے پارٹی کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے مربی و محسن فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے فدا محمد خان بھی ضیاءالحقی ہی نکلے انہوں نے بھی بطور سینئر نائب صدر اپنی صدارت کا اعلان فرمادیا۔
اخبار نویسوں کی اکثریت اس گروپ کو بولتی مسلم لیگ جنرل ضیاء گروپ تھی لیکن اخبارات کی مجبوری اور کچھ فوجی آمر کا دبدبہ اور میاں صاحب کی محبتیں تھیں لکھا مسلم لیگ فدا گروپ جاتا تھا۔
آگے چل کر حامد ناصر چٹھہ جونیجو گروپ کے سربراہ بن گئے اور فدا گروپ، نواز گروپ بن گیا۔ الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن بھی مسلم لیگ (نواز گروپ) یعنی ’’ن‘‘ کے نام سے ہوئی۔ جس مسلم لیگ نے اپنے سر پر قیام پاکستان کا سہرا سجایا تھا وہ تو برسوں بلکہ عشروں پہلے مرکھپ چکی تھی اب کراڑی کا نام غلام فاطمہ رکھتے جائیں کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) جی ٹی روڈ کی ایک طاقتور جماعت ہے۔ راجہ ظفرالحق بھی دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح جی ٹی روڈ کو ہی پاکستان سمجھتے ہیں۔ سمجھتے رہیں لیکن حق ملکیت پھر بھی نہیں بنتا۔
سیاست میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ 1997ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو جتنا حصہ ملا تھا 2002ء کے انتخابات میں (ن) لیگ کے پاس بھی قومی اسمبلی میں اتنا ہی حصہ تھا لیکن 2008ء کے انتخابات میں (ن) لیگ کی واپسی ہوئی اور خوب ہوئی۔
ایک یا دو انتخابات کے نتائج پر کسی جماعت کےسیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ہمارے لیگی مہربان اور صحافت میں (ن) لیگ کے میڈیا منیجر ادارے ’’جاتی امرا نیوز‘‘ کے سارے ملازمین صبح و شام ایک ہی راپ الاپتے رہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اندرون سندھ کے چند اضلاع کی پارٹی ہے
لیکن اس جماعت کے پاس صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع سے قومی اسمبلی کی 7سیٹیں ہیں 6پنجاب اسمبلی میں چند نشستیں خیبر پختونخوا میں ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپوزیشن کا بڑا گروپ یہی جماعت ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف پیپلزپارٹی کا ہے۔
پھر بھی پیپلزپارٹی اندرون سندھ کے چند اضلاع کی جماعت ہے اور جی ٹی روڈ والی (ن) لیگ پاکستان کی ’’مالک‘‘۔ یہ دعویٰ راجہ ظفرالحق جیسا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔
یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے پچھلے چند دنوں سے کچھ کاغذی اور کچھ اصلی تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی والے معاملے میں ایک میڈیا گروپ کے مالک اور دو صحافیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی درست نہیں ہے۔ اخباری مالکان کی ایک تنظیم نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے
ان سب کا موقف ہے صحافی کا کام خبر دینا ہے اس نے خبردی اخبار نے شائع کردی۔ اب عدالت جانے رانا شمیم جانے۔
کیا یہ سارے مہربان اور دانے بنیے (کاغذی و اصل تنظیموں والے) اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ اسی صحافی نے چند برس قبل (پیپلزپارٹی کے دور میں) لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ شریف کے قتل کی سازش پر مبنی ایک تحقیقاتی خبر اپنے اخبار میں فائل کی انگریزی کے ساتھ اس میڈیا گروپ کے اردو اخبار اور پھر ٹی وی چینل پر بھی خود دھماکے دار خبریں اور تجزیے نشر ہوئے۔ کہا گیا کہ قتل کی یہ سازش صدر آصف علی زرداری کے ایما پر تیار ہوئی۔
تحقیقات میں یہ خبر جھوٹی نکلی۔ صاف پتہ چل گیا کہ یہ کہانی گھڑنے میں مرکزی کردار اس سابق پولیس آئی جی کا تھا (یہ موصوف رانا محمد مقبول آجکل پنجاب سے ن لیگ کے سینیٹر ہیں) اس ’’سازش‘‘ کو خبر کی صورت انصار عباسی نے دی اور پھر ایک پورا میڈیا گروپ اس خبر کی’’صداقت‘‘ کا جھنڈا لے کر میدان میں کود پڑا۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تحقیقاتی عمل میں یہ سازش کہانی سفید جھوٹ ثابت ہوئی تو کیا خبر دینے اور شائع کرنے والے ادارے نے کسی مرحلہ پر اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا اور آصف زرداری سمیت ان لوگوں سے معافی مانگی جو اس خبر کی زد میں آکر بدنام ہوئے تھے؟
یہی میڈیا گروپ قبل ازیں دو مواقع پر آصف علی زرداری کو مجرم بناکر پیش کرنے میں سب سے آگے رہا پہلا موقع وہ تھا جب ایک سمگلر کو رحیم یارخان جیل سے خصوصی طور پر لاہور لاکر اس کی ملاقات شریف برادران سے کرائی گئی۔
اس ملاقات میں رانا مقبول اور خواجہ شریف بھی موجود تھے۔ یہ سب عارف بلوچ نامی منشیات کے سمگلر کو یقین دہانی کرواتے رہے کہ وہ یہ بیان دے کہ منشیات کی سمگلنگ کے اس کاروبار میں آصف علی زرداری اس کا حصہ دار ہے۔
بات بن نہ پائی۔ دوسرا موقع سندھ میں قتل ہونے والے ایک جج نظام کا معاملہ تھا تب بھی یہ میڈیا گروپ پیش پیش رہا کہ جسٹس نظام کے قتل کی سازش میں آصف علی زرداری ملوث تھا۔ ملک کی تین بڑی ایجنسیوں نے تحقیقات کیں اور خبر جھوٹ ثابت ہوئی۔
ماضی کے ان واقعات کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ ہم صحافی خود کو کسی احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کا بیان حلفی درست ہے یا غلط، معاملہ اب عدالت میں ہے سچ جھوٹ کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے
البتہ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنے والی ہے وہ یہ کہ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو ہوئی سزائوں کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت اپیلوں کی درخواستوں میں مرحوم جج ارشد ملک والی ویڈیو درخواست کا حصہ نہیں ہے
اصولی طور پر میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو اسے اپنی درخواست کا حصہ بنانا چاہیے۔
یہ بھی عرض کردوں کہ مرحوم جج ارشد ملک کی برطرفی اس ویڈیو کی بنیاد پر ہوئی یہ برطرفی ان سزائوں کو مشکوک بنادیتی ہے جو نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو ارشد ملک نے بطور جج دی تھیں۔
اس مشکوک فیصلے کے کردار اور باقی معاملات کو اپیل کا حصہ اپیل کرنے والوں نے بنانا تھا۔
بات فقیر راحموں کی ہنسی اور راجہ ظفرالحق نامی "سیاستدان” کے اس بیان سے شروع ہوئی تھی کہ (ن) لیگ اس ملک کی مالک ہے باقی سیاسی جماعتیں کرایہ دار ہیں۔ بالائی سطور میں عرض کرچکا کہ (ن) لیگ 1988ء میں معرض وجود میں آئی سابقہ حساب کی روشنی میں (ن) لیگ اس جونیجو گروپ کے فدا گروپ سے نکلی تھی۔ جونیجو کی مسلم لیگ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں بننے والی اسمبلی سے برآمد ہوئی تھی ۔
اب آیئے قیام پاکستان کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والی مسلم لیگ کی طرف، پچھلے چوہتر برسوں کے دوران اس کے دو درجن گروپ بنے اور ہر گروپ اصلی مسلم لیگ ہونے کا دعویدار رہا۔
پہلے فوجی آمر ایوب خان نے بھی کنونشن مسلم لیگ کے نام سے پارٹی بنوائی تھی۔ جنرل ضیا (تیسرے فوجی آمر) جونیجو لیگ کے گارڈ فادر بنے پھر فدا گروپ کے ان کے سیاسی خیالات اور حامیوں کے ووٹ بینک کی ملکیت (ن) لیگ کے حصے میں آئی۔
چوتھے فوجی آمر پرویز مشرف نے ق لیگ بنوائی یہ ق لیگ پہلے مسلم لیگ ہم خیال کہلاتی تھی۔ پیارے قارئین باقی کی کہانی پھر سہی کیونکہ کالم کے دامن کی گنجائش تمام ہوئی۔
خبر یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفرالحق نامی کسی رہنما کا بیان تھا کہ ’’مسلم لیگ (ن) اس ملک کی مالک ہے باقی ساری سیاسی جماعتیں کرایہ دار ہیں‘‘۔
مسلم لیگ (ن) 1985 کی غیرجماعتی اسمبلی کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ جونیجو سے نکلے مسلم لیگ فدا گروپ کا نیا نام تھا یہ نیا نام 1988ء کی بات ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت برطرف کی مگر نوازشریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ رہنے دیا۔
میاں صاحب نے پارٹی کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے مربی و محسن فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے فدا محمد خان بھی ضیاءالحقی ہی نکلے انہوں نے بھی بطور سینئر نائب صدر اپنی صدارت کا اعلان فرمادیا۔
اخبار نویسوں کی اکثریت اس گروپ کو بولتی مسلم لیگ جنرل ضیاء گروپ تھی لیکن اخبارات کی مجبوری اور کچھ فوجی آمر کا دبدبہ اور میاں صاحب کی محبتیں تھیں لکھا مسلم لیگ فدا گروپ جاتا تھا۔
آگے چل کر حامد ناصر چٹھہ جونیجو گروپ کے سربراہ بن گئے اور فدا گروپ، نواز گروپ بن گیا۔ الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن بھی مسلم لیگ (نواز گروپ) یعنی ’’ن‘‘ کے نام سے ہوئی۔ جس مسلم لیگ نے اپنے سر پر قیام پاکستان کا سہرا سجایا تھا وہ تو برسوں بلکہ عشروں پہلے مرکھپ چکی تھی اب کراڑی کا نام غلام فاطمہ رکھتے جائیں کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) جی ٹی روڈ کی ایک طاقتور جماعت ہے۔ راجہ ظفرالحق بھی دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح جی ٹی روڈ کو ہی پاکستان سمجھتے ہیں۔ سمجھتے رہیں لیکن حق ملکیت پھر بھی نہیں بنتا۔
سیاست میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ 1997ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو جتنا حصہ ملا تھا 2002ء کے انتخابات میں (ن) لیگ کے پاس بھی قومی اسمبلی میں اتنا ہی حصہ تھا لیکن 2008ء کے انتخابات میں (ن) لیگ کی واپسی ہوئی اور خوب ہوئی۔
ایک یا دو انتخابات کے نتائج پر کسی جماعت کےسیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ہمارے لیگی مہربان اور صحافت میں (ن) لیگ کے میڈیا منیجر ادارے ’’جاتی امرا نیوز‘‘ کے سارے ملازمین صبح و شام ایک ہی راپ الاپتے رہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اندرون سندھ کے چند اضلاع کی پارٹی ہے
لیکن اس جماعت کے پاس صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع سے قومی اسمبلی کی 7سیٹیں ہیں 6پنجاب اسمبلی میں چند نشستیں خیبر پختونخوا میں ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپوزیشن کا بڑا گروپ یہی جماعت ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف پیپلزپارٹی کا ہے۔
پھر بھی پیپلزپارٹی اندرون سندھ کے چند اضلاع کی جماعت ہے اور جی ٹی روڈ والی (ن) لیگ پاکستان کی ’’مالک‘‘۔ یہ دعویٰ راجہ ظفرالحق جیسا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔
یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے پچھلے چند دنوں سے کچھ کاغذی اور کچھ اصلی تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی والے معاملے میں ایک میڈیا گروپ کے مالک اور دو صحافیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی درست نہیں ہے۔ اخباری مالکان کی ایک تنظیم نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے
ان سب کا موقف ہے صحافی کا کام خبر دینا ہے اس نے خبردی اخبار نے شائع کردی۔ اب عدالت جانے رانا شمیم جانے۔
کیا یہ سارے مہربان اور دانے بنیے (کاغذی و اصل تنظیموں والے) اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ اسی صحافی نے چند برس قبل (پیپلزپارٹی کے دور میں) لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ شریف کے قتل کی سازش پر مبنی ایک تحقیقاتی خبر اپنے اخبار میں فائل کی انگریزی کے ساتھ اس میڈیا گروپ کے اردو اخبار اور پھر ٹی وی چینل پر بھی خود دھماکے دار خبریں اور تجزیے نشر ہوئے۔ کہا گیا کہ قتل کی یہ سازش صدر آصف علی زرداری کے ایما پر تیار ہوئی۔
تحقیقات میں یہ خبر جھوٹی نکلی۔ صاف پتہ چل گیا کہ یہ کہانی گھڑنے میں مرکزی کردار اس سابق پولیس آئی جی کا تھا (یہ موصوف رانا محمد مقبول آجکل پنجاب سے ن لیگ کے سینیٹر ہیں) اس ’’سازش‘‘ کو خبر کی صورت انصار عباسی نے دی اور پھر ایک پورا میڈیا گروپ اس خبر کی’’صداقت‘‘ کا جھنڈا لے کر میدان میں کود پڑا۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تحقیقاتی عمل میں یہ سازش کہانی سفید جھوٹ ثابت ہوئی تو کیا خبر دینے اور شائع کرنے والے ادارے نے کسی مرحلہ پر اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا اور آصف زرداری سمیت ان لوگوں سے معافی مانگی جو اس خبر کی زد میں آکر بدنام ہوئے تھے؟
یہی میڈیا گروپ قبل ازیں دو مواقع پر آصف علی زرداری کو مجرم بناکر پیش کرنے میں سب سے آگے رہا پہلا موقع وہ تھا جب ایک سمگلر کو رحیم یارخان جیل سے خصوصی طور پر لاہور لاکر اس کی ملاقات شریف برادران سے کرائی گئی۔
اس ملاقات میں رانا مقبول اور خواجہ شریف بھی موجود تھے۔ یہ سب عارف بلوچ نامی منشیات کے سمگلر کو یقین دہانی کرواتے رہے کہ وہ یہ بیان دے کہ منشیات کی سمگلنگ کے اس کاروبار میں آصف علی زرداری اس کا حصہ دار ہے۔
بات بن نہ پائی۔ دوسرا موقع سندھ میں قتل ہونے والے ایک جج نظام کا معاملہ تھا تب بھی یہ میڈیا گروپ پیش پیش رہا کہ جسٹس نظام کے قتل کی سازش میں آصف علی زرداری ملوث تھا۔ ملک کی تین بڑی ایجنسیوں نے تحقیقات کیں اور خبر جھوٹ ثابت ہوئی۔
ماضی کے ان واقعات کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ ہم صحافی خود کو کسی احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کا بیان حلفی درست ہے یا غلط، معاملہ اب عدالت میں ہے سچ جھوٹ کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے
البتہ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنے والی ہے وہ یہ کہ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو ہوئی سزائوں کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت اپیلوں کی درخواستوں میں مرحوم جج ارشد ملک والی ویڈیو درخواست کا حصہ نہیں ہے
اصولی طور پر میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو اسے اپنی درخواست کا حصہ بنانا چاہیے۔
یہ بھی عرض کردوں کہ مرحوم جج ارشد ملک کی برطرفی اس ویڈیو کی بنیاد پر ہوئی یہ برطرفی ان سزائوں کو مشکوک بنادیتی ہے جو نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو ارشد ملک نے بطور جج دی تھیں۔
اس مشکوک فیصلے کے کردار اور باقی معاملات کو اپیل کا حصہ اپیل کرنے والوں نے بنانا تھا۔
بات فقیر راحموں کی ہنسی اور راجہ ظفرالحق نامی "سیاستدان” کے اس بیان سے شروع ہوئی تھی کہ (ن) لیگ اس ملک کی مالک ہے باقی سیاسی جماعتیں کرایہ دار ہیں۔ بالائی سطور میں عرض کرچکا کہ (ن) لیگ 1988ء میں معرض وجود میں آئی سابقہ حساب کی روشنی میں (ن) لیگ اس جونیجو گروپ کے فدا گروپ سے نکلی تھی۔ جونیجو کی مسلم لیگ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں بننے والی اسمبلی سے برآمد ہوئی تھی ۔
اب آیئے قیام پاکستان کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والی مسلم لیگ کی طرف، پچھلے چوہتر برسوں کے دوران اس کے دو درجن گروپ بنے اور ہر گروپ اصلی مسلم لیگ ہونے کا دعویدار رہا۔
پہلے فوجی آمر ایوب خان نے بھی کنونشن مسلم لیگ کے نام سے پارٹی بنوائی تھی۔ جنرل ضیا (تیسرے فوجی آمر) جونیجو لیگ کے گارڈ فادر بنے پھر فدا گروپ کے ان کے سیاسی خیالات اور حامیوں کے ووٹ بینک کی ملکیت (ن) لیگ کے حصے میں آئی۔
چوتھے فوجی آمر پرویز مشرف نے ق لیگ بنوائی یہ ق لیگ پہلے مسلم لیگ ہم خیال کہلاتی تھی۔ پیارے قارئین باقی کی کہانی پھر سہی کیونکہ کالم کے دامن کی گنجائش تمام ہوئی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ