اشفاق لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں امن اور سلامتی نامی لاپتا ہوئے دو بچوں کی تلاش میں شعور فاؤنڈیشن اسلام آباد کی ٹیم کے ساتھ دریائے سوات کے کنارے سات دن بیٹھنے، سوچنے، پڑھنے اور رباب و بانسری سننے کے لمحات میسر ہوئے ہیں۔ ان یادگار لمحات کے قید سے آہستہ آہستہ زندگی کو آزاد ہوتا محسوس کر کے دکھ ہو رہا ہے۔ اس دکھ کے ساتھ امن اور سلامتی کی پر امن واپسی کے لیے بنائی گئی حکمت عملی، منصوبے اور خود سے کیے گئے وعدے بھی یاد آرہے ہیں۔
سلامتی اور امن نامی بچے کیسے مسنگ ہوئے، ان کی گمشدگی کے اسباب کیا ہیں؟ کیا ان کی کسی مثبت اور پر امن طریقے سے واپسی ممکن ہے؟ ان سوالات پر بات چیت کرنے اور سننے کے لیے ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر، مختلف کلچر، عقائد، علاقوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے 30 سلامتی ساتھیوں اور تقریباً 12 ممتاز شخصیات کی پرمغز باتیں سننے اور سمجھنے کے بعد یقین سے کہا جا سکتا ہے کے دونوں لاپتا بچے جہاں بھی ہیں، ان کی سلامتی کے ساتھ واپسی ممکن ہے۔
امن اور سلامتی کی تلاش میں کرنا صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ اس خطے کی ہزاروں سال کی تاریخ، تہذیب، روایات اور اقدار ہمیں امن اور سلامتی کی واپسی کے لئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس زمین کا ہمیں صرف نوحہ نہیں پڑھنا مگر اب زندگی کے سر ساتھ مل کر اس زمین پر گانے ہیں۔ وہ جو مندر ڈھانے والے فاتحین کی نصابی و بیانیے کی فخریہ پیشکش ہے اس سے ہمیں خود بھی بچنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی بچانا ہے۔ ہمارا اصل ہمیں ایسے اصطلاحات اور الفاظ استعمال کرنے سے منع کرتا ہے۔ کیونکہ اس طرح کے اصطلاحات اور الفاظ استعمال کرنے سے کسی کا دل ”ڈھانا“ ہے اور دلوں میں بلھے شاہ کے بقول خدا رہتا ہے۔ ہمارا اصل بلھے شاہ سے منسوب ہے، نہ کہ کسی غوری و غزنوی فاتح سے۔
باہر کے امن اور سلامتی نامی گمشدہ بچوں کی تلاش کے دوران یہ بھی دریافت ہوا کے میرے اندر میں بھی امن اور سلامتی نامی دو پیارے بچے تھے وہ بھی میں کہیں سوشل میڈیا کے بازار میں کھو بیٹھا ہوں۔ ان کو ڈھونڈنے کے لیے مجھے اپنے اندر کا سفر کرنا ہے۔ اپنے اندر کا راستہ ہر کسی کا مختلف ہو سکتا ہے مگر سوات میں دراز قد درختوں اور پہاڑوں کے بیچ سوات ندی کے سرمئی پانی کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز ملا کر سید علی حمید نے میڈیٹیشن کے ذریعے جو اپنے آپ کے ساتھ ملنے کے مواقع پیش کیے وہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ گرو کا ماننا اور کہنا صرف یہ ہے کے خالص رہئے، خالص پن سے دوری آپ کو منافقت اور مکر کے قریب لے جائے گی اور منافقت و مکر کے زہریلے مادے آپ کے اندر کے امن و سلامتی نامی بچوں کی زندگی کو غیر محفوظ بنا دیتے ہیں۔ منافقت و مکر آپ کو امن اور سلامتی کے پیار سے بھی محروم کر دیں گے۔
باہر امن اور سلامتی نامی ہمارے دو چہیتے کس کے ہاتھوں لاپتا ہوئے، کیسے ہوئے اور کیوں ہوئے؟ وہ اسباب جاننے کے لیے ہمیں فورا اپنا نصاب دیکھنا ہو گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں جو خطبات/تقاریر سننی پڑتی ہیں، ان میں جو اکثر کڑوا، کہیں کہیں اور کبھی جو میٹھا زہر پلایا جا رہا ہوتا ہے، ہمیں اس پر بھی اپنی سوالیہ نگاہ رکھنی ہے۔ اس کا ذائقہ چکھے بغیر ہضم نہیں کرنا۔ نصاب کے ذریعے جنگیں جیتنا، قوم کو جنگ میں مصروف رکھنا، نصاب کے ذریعے بیانیہ تشکیل دینا۔
نصاب کے ذریعے سرحدوں کی حفاظت کرنے وغیرہ کی مثال پوری دنیا میں حیرتوں سے بھرے صرف اس جزیرے پر ہی ملتی ہے۔ حیرتوں کے اس جزیرے پر تاریخ کا چہرہ مسخ، حقائق سے دوری، سائنس و ریاضی کی کتابیں بھی آسمانی حوالوں اور دلائل سے بھری ہیں۔ بیالوجی سے لے کر فزکس کی کتابوں کے تعارفی ابواب میں عقائد کے حوالہ جات اور دلائل ملتے ہیں۔ ایسے تضادات امن اور سلامتی کی گمشدگی کا سبب بنے ہیں۔
جارحیت، غصہ، منفیت اور نفرت کو فروغ دینے کے لیے وطن عزیز میں ادارے بنائے ہوئے ہیں جو منظم انداز میں جنگی لغت، جنگی اصطلاحات، جنگی ادب، جنگی شاعری، جنگی ڈرامے اور جنگ سے جڑے تمام عوامل بڑے جذبے سے پیشہ ور انداز میں پیش کر رہے ہیں مگر امن اور سلامتی نامی بچوں کی واپسی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کی اداراتی سطح پر کوئی زحمت تک نہیں کی گئی۔
ادب و فن امن اور سلامتی کو واپس کروا سکتے ہیں مگر ہمارے یہاں امن و سلامتی کو بعد میں ادب و فن کو ان سے بھی پہلے لاپتا کیا گیا ہے۔ ادب اور فن کے جامی چانڈیو جیسے ورثا ان کی زندہ واپسی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مضبوط مرکز اور وفاقیت کی لالچ نے ملکی اکائیوں کو غیر محفوظ بنایا ہوا ہے۔ صوبائی اکائیاں اور گلگت بلتستان مرکز کے ظالمانہ سلوک کا رونا روتے ہیں، مگر ان کو پرسا نہیں دیا جاتا۔ آئین پاکستان نے ملکی شہریوں بشمول امن اور سلامتی نامی بچوں کے جو حقوق دیے ہیں، ان سے جو رشتہ رکھا ہے، وہ تعلق بھی سازشی چلنے نہیں دیتے اور رشتے میں پڑی دراڑیں مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔
جناح صاحب کے پاکستان میں اقلیتوں کے لیے آکسیجن کیسے کم ہوئی، جناح کے تصورات کا پاکستان کیسا تھا؟ جناح صاحب کے تصورات کے روشن پاکستان کو عقائد/ فرقہ واریت کی بند گلیوں میں لاکر کس نے کھڑا کیا؟
مختلف زبانوں، کلچر اور عقائد کے لوگوں کو ایک ساتھ جینے اور زندگی کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے جو مواقع ملے تھے وہ سب نفرت کا بیوپار کرنے والوں کی نظر ہو گئے۔ کہیں دو قومی نظریہ آڑے آیا، کہیں زبان اور ثقافت کو تعصب اور امتیاز کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہم تنوع سے لطف اندوز نے ہو سکے، فطرت نے ہمیں وہ حسن مہیا کیا مگر ہم نے اسے نفرت میں بدل دیا۔
اپنے کھلونوں سے فرد کے اندر کھیلتے امن اور سلامتی کو ہم نے اپنے باہر کے تعصبات، نفرت اور جارحیت سے مرجھایا اور پھر یہ ہوا کے باہر کے پیارے امن اور سلامتی ناراض ہو کر جیسے گھر سے نکلے ابھی تک واپس نہیں لوٹے۔ شعور فاؤنڈیشن اپنے تعلیم و آگاہی پروگرام کے تحت مذکورہ بچوں کی تلاش کے لئے شروعات کر چکا ہے مگر تلاش کے اس سفر میں مزید کام درکار ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
نایاب سیاسی نسل کے سیاستدان کی جدائی! ۔۔۔ اشفاق لغاری
ظالم صوبائی اکائیاں اور مظلوم وفاق! ۔۔۔ اشفاق لغاری
قوم کے بچے ہود بھائی اور حنیف نہیں، فیاض الحسن چوہان پڑھائیں گے! ۔۔۔ اشفاق لغاری
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر