مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات ایسے ہیں کہ دن گزارنا مشکل ہے مگر وقت کی رفتار ایسی ہے کہ سال گزر جاتے ہیں ایک اور سال گزر گیا آج ایک نئے سال کی دہلیز پر ہیں۔ یوں تو قوم کا ہر دن ایک نئی امید کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور ایک نئی نا امیدی کے ساتھ غروب ہوجاتا ہے ہر صبح ایک نئی امید جنم لیتی ہے اور ہر شام ایک نئی مایوسی آنکھوں میں بہتری کے سپنے سجا کر تاریکیوں میں تحلیل ہوجاتی ہے آس امید اور نا امیدی کی یہ کہانی گزشتہ 74 سال سے جاری ہے جو ہر نئے دن سے جنم لیتی ہوئی ہر نئی حکومت اور ہر نئے سال ایک نئے جذبے کے ساتھ پروان چڑھتی اور ہر گزرتے دن اور ہر گزرتے سال سسک سسک کر دم توڑ جاتی ہے۔
سال ہا سال سے جاری اس کھیل میں کسی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسلام کے نام پر شدت پسندی اور انتہاء پسندی کا ایسا بیج بویا کہ اس کی آگ اگاتی فصل ہم آج بھی کاٹ رہے ہیں ، کسی نے جمہوریت کے نام پر جمہور کو ایک ایسے فرسودہ نظام میں جکڑ دیا کہ جس میں جمہور کا وجود ہی تہس نہس ہوگیا ، کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر سب سے پہلے پاکستان کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے طاقتور اشرافیہ کو خوب نوازہ، کسی نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگا قوم کو روٹی کپڑا مکان سے ہی محروم کر دیا کسی نے قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر اپنی نسلوں کو سنوار لیا کسی نے روشن پاکستان کا نعرہ لگا کر قوم کے مستقبل کو اندھیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کسی نے احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نام پر ملک کو لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
دن ہفتوں میں ، ہفتے مہینوں میں ، مہینے سالوں میں بدلتے رہے حکمران بدلتے رہے نعرے بدلتے رہے بیان بدلتے رہے خواب بدلتے رہے مگر اس ملک کے حالات نہیں بدلے اس قوم کے نصیب نہیں بدلے لامتناہی امیدوں کا ایک تاج محل 2018ء میں تعمیر کیا گیا جس کی ہر اینٹ میں ایک نئی امید تھی ایک نیا سپنا تھا ایک نیا خواب تھا نئے پاکستان کا خواب تھا تبدیلی کا خواب تھا عدل و انصاف کا خواب تھا احتساب کا خواب تھا تعلیم صحت اور روزگار کا خواب تھا ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب تھا اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا خواب تھا بھوک غربت بےروزگاری کے خاتمے کا خواب تھا جنوبی پنجاب صوبے کا خواب تھا جن کی تعبیر کے لیے 100 روز مانگے گئے تھے مگر آج ساڑھے تین سال ہونے کو آئے ہیں 2018 کی کہانی 2022 میں داخل ہونے جارہی ہے مگر خواب آج بھی محض خواب ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کے جن دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جسے دیکھ کر کہا جاسکے کہ آگے چل کر کچھ بہتری آ جاۓ گی غربت میں کمی کے حکومتی دعوے اپنی جگہ مگر غربت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے معاشی طور پر ہم بنگلہ دیش سے بھی کہیں پیچھے چلے گئے پاکستان کی 50 فیصد آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اسی طرح ایک بھر پور معاشی ٹیم کے ساتھ معیشت کی بحالی ایک بڑا دعوی’ تھا مگر اب تک ملک کے معاشی حالات تو تبدیل نہیں ہوئے البتہ پچھلے تین سالوں میں مشیر خزانہ ، وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ ضرور تبدیل ہوتے رہے ہیں اسی طرح آئی ایم ایف سے نجات کا یہ عالم ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ سال سے تعطل کا شکار پروگرام اگلے کچھ دنوں میں شروع ہونے جا رہا ہے جس کی سخت شرائط پوری کرنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم لیوی اور دیگر ٹیکسز بھی بڑھائے جارہے ہیں۔ منی بجٹ بھی آئی ایف کے اسی معاہدے کا شاخسانہ ہے جس کے بعد مہنگائی کا ایک نیا طوفان جنم لے گا جبکہ مہنگائی نے تو پہلے ہی عام آدمی کا جینا محال کر رکھا ہے اسی طرح احتساب اور کرپشن کے خاتمے کے دعوے بھی آج منہ چھپاتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنشنل کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں پاکستان میں کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے کرپشن میں کمی کے حوالے 180 ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی 4 درجے تنزلی ہوئی ہے جبکہ احتساب کی یہ حالت ہے نیب کی طرف سے کرپشن کے جتنے بھی کیسز سامنے آئے ہیں ان میں اکثر ملزمان عدم ثبوت کی وجہ سے باعزت بری ہوچکے ہیں حکومت کی طرف سے ہمیشہ کرپشن کے بڑے بڑے ثبوت ملنے کے دعوؤں کے باوجود ابھی تک کسی ایک کو بھی قابل ذکر سزا نہیں ہوئی اور نہ ہی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا سکی ہے سچ تو یہ ہے احتساب ایک مزاق بن چکا ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر ہم سال 2021 کو حسب روایت زبانی جمع خرچ اور دعوؤں کا سال قرار دیں تو غلط نہ ہوگا جس میں پاکستان تحریک انصاف کا انصاف ، میرٹ ، مساوات ، عدل ، احتساب باتوں میں، اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ، کرپشن کا خاتمہ، غیر جانبدارانہ احتساب ، ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر ، غربت کا خاتمہ اور جنوبی پنجاب صوبہ صرف دعوؤں میں نظر آئے البتہ بھوک ، غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی کے ساتھ ساتھ جو چیز منافع میں نظر آئی وہ ضرورت کی ہر چیز کے پے در پے بحران تھے جنہوں نے سال بھر اس قوم کا پیچھا نہیں چھوڑا کبھی آٹے کا بحران کبھی چینی کا بحران کبھی بجلی کا بحران کبھی گیس کا بحران کبھی پیٹرول کا بحران کبھی ادویات کا بحران ، بحرانوں کا یہ تسلسل آج بھی جاری ہے اس وقت ملک میں ایک طرف گیس کا بحران ہے اور دوسری طرف کھاد کا بحران گیس کی کمی کی وجہ سے ایک طرف گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور دوسری طرف صنعتیں شدید متاثر ہورہی ہیں جس کے سنگین اثرات یقیناً عام آدمی کو بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت میں بھگتنا ہونگے جبکہ کھاد کی کمی کے اثرات ہماری گندم کی فصل کو متاثر کریں گے اور اس کے نتائج بھی چھوٹے کاشتکار اور غریب لوگوں کے لیے تباہ کن نتائج کے حامل ہونگے یقیناً نئے سال 2022 میں داخل ہوتے وقت ملک اور قوم کی مجموعی صورتحال قابل اطمینان اور تسلی بخش نہیں جو کہ حکومت کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے مگر اس قوم نے کبھی ہمت نہیں ہاری حوصلہ نہیں رہا بے شک اس ملک میں قیادت کی کمی ہے مگر جذبوں کی کمی نہیں حوصلوں کی کمی نہیں پاکستانی قوم نے ہر قسم کے حالات کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اب بھی حالات بہتر ہوسکتے ہیں اگر ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک کی بہتری کا تہیہ کر لیں حکومت اپوزیشن اور تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ دریاں پوری کریں حکومت زبانی جمع خرچ اور دعوؤں سے باہر نکلے اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کی روش چھوڑ دے اور پاکستان کا ہر شہری کوئی اچھا تلاش کرنے سے پہلے خود اچھا بن جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ملک کے حالات بہتر نہ ہوں دعا ہے کہ سال 2022 اس ملک قوم اور ہم سب کے لیے کامیابیوں ، کامرانیوں ، مسرتوں اور خوشیوں کا سال ثابت ہو۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی