نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تقدیس کی چھری۔۔۔||عامر حسینی

مسلمانوں میں جب خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کا دور دورہ ہوا تو جب جب انھیں جہاد بالقلم و بلسان و بالسیف کا سامنا ہوتا تو وہ اس کے محرک دانشور پہ یا تو" خارجی" ہونے کا الزام عائد کردیتی یا پھر وہ اسے "رافضی" قرار دیتی تھی - بعد ازاں ملوکان اسلام کا اپنے مخالف اہل علم پہ سب سے مرغوب الزام "زندقہ" ہوا کرتا تھا - ادھر آپ نے کسی اہل علم کو زندیق کہا اُدھر اس عالم/دانشور پہ زندگی عذاب ہوئی -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انگریزی کا لفظ
Dissenter
کا عام فہم مطلب تو کلیسائی اسٹبلشمنٹ کا مخالف، معاند، باغی، انکاری، کا منحرف ہوتا ہے –
عربی میں اس لفظ کے کئی مترادفات ہیں – اصطلاحی طور پہ اس سے مراد "جماعت سے خارج ہونے والا جیسے گروہ خوارج کا بندہ یا رافضی یا اس سے بعض اوقات مراد کسی خلیفہ کی خلافت کے جائز ہونے سے انکاری
گویا ہم کیسے سکتے ہیں کہ حکمران طبقات اور اُن کے مسلط کردہ نظریات و افکار، اقدار، قوانین، رسوم و رواج سے منحرف، انکاری، اُن پہ تنقید کرنے والا، احتجاج کرنے والا دانشور انگریزی میں
Dissenter
کہلاتا ہے – عام طور پہ حکمران طبقات کا وتیرہ ہوتا ہے وہ اپنے مفادات کے محافظ خیالات اور اقدار کو تقدیس کا لبادہ پہناتے ہیں اور اُن سے انحراف کرنے والے شخص کو تقدیس کی چھری سے زبح کردیتے ہیں – اسٹیٹس کو /ہئیت حاکمہ کو بدل ڈالنے کی روش پہ گامزن دانشور حکمران طبقات کی تنخواہ پہ مقرر ملاؤں، پادریوں، پنڈتوں، حب الوطنی کے ٹھیکے داروں کے نزدیک "کافر/غدار/وردوھی/دروہی” قرار پاتا ہے –
میں نے اسی مفہوم میں برادرِ بزرگ حیدر جاوید سید کو "منحرف دانشور” کہا –
مسلمانوں میں جب خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کا دور دورہ ہوا تو جب جب انھیں جہاد بالقلم و بلسان و بالسیف کا سامنا ہوتا تو وہ اس کے محرک دانشور پہ یا تو” خارجی” ہونے کا الزام عائد کردیتی یا پھر وہ اسے "رافضی” قرار دیتی تھی – بعد ازاں ملوکان اسلام کا اپنے مخالف اہل علم پہ سب سے مرغوب الزام "زندقہ” ہوا کرتا تھا – ادھر آپ نے کسی اہل علم کو زندیق کہا اُدھر اس عالم/دانشور پہ زندگی عذاب ہوئی –
دور حاضر کا سب سے بڑا منحرف دانشور کون ہے؟ وہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے جواز کا مخالف ہے – جو سماج کی طبقاتی گروہ بندی، تقسیم اور امتیازات کو غالب حکمران طبقات کے قائم کردہ مانتا ہے اور انھیں بدل ڈالنے کو ہی ترقی پسندی خیال کرتا ہے –
آج سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ ہے اور ایک اوسط درجے کا دانشور اس نظام سے منسلک ہوتا ہے اور اس کے مطابق چلتا ہے تو اُس کی دانش اسے فائدہ پہنچاتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام اسے الگ تھلگ نہیں کرتا –
لیکن جو دانشور سرمایہ دارانہ سماج کی بنیاد پہ ہی سوال کھڑے کرنے لگ جائیں اور طبقاتی اونچ نیچ کو ایک چھوٹے سے اشرافی ٹولے کی کاریگری قرار دیں وہ ایک دَم سے منکر، معاند، خارجی، رافضی، کافر قرار پاجاتے ہیں –
یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author