دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلدیاتی الیکشن کا سبق ۔۔۔||گلزار احمد

آج ہماری سالانہ گروتھ تین چار فیصد ہے 120 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا ہے قرض خواہ ہمارا خون نچوڑ رہے ہیں مہنگائ دس فیصد تک پہنچ چکی ہے مگر ہمارے اللے تللے ختم نہیں ہوتے۔کیا ہم الیکشن کو سادہ پرامن نہیں بنا سکتے تھے؟اب بھی وقت ھے ہم اپنے نبی ؐ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر سادگی اختیار کریں اوراپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنا لیں۔تھیں۔ ہم گاٶں کے لڑکے کوڈیوں سے گیم کھیلتے اور جو جیت جاتا وہ بہت سے کوڈیوں کا مالک بن جاتا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن مکمل ہو گیے۔ اس الیکشن میں اربوں روپے امیدواروں اور عوام کے خرچ ہوۓ۔ پورے صوبے میں وال چاکنگ کر کے دیواروں کو گندہ کیا گیا۔اشتہار بازی کے لیے کاغذ کپڑے ۔پلاسٹک کے بینر جھنڈیاں چھاپی گئیں جو گلیوں میں پولوشن پھیلانے کے لیے پھینک دی گئیں۔امیدواروں نے الیکشن کمپین پر پانی کی طرح روپیہ بہایا ۔سیکورٹی کی مد میں اربوں کے خرچے ہوۓ ۔ عوام میں لڑائ جھگڑے قتل تک ہوۓ ۔ الیکشن میں کئ لوگ اپنے پیاروں سےجدا ہوے یا روٹھ گیے۔
میں سوچتا ہوں آجکل کے انٹرنیٹ کے زمانے یہ سب کچھ بغیر ہنگامے اور بڑے خرچے کیے بھی ہو سکتا تھا۔ امیدوار اپنا منشور واٹس ایپ فیس بک اور میسیج کے ذریعے گھر بیٹھے متعلقہ ووٹرز تک پہنچاتے اور وقت اور دولت کے ضیاع سے بچ جاتے۔ ایک غریب ملک کی حیثیت سے بے جا کے خرچے اور نمود و نمائش ہمیں زیب نہیں دیتی۔اگر غور کیا جاے تو پتہ چلتا ہے پچھلے ساٹھ سالوں میں ہم نے اخلاقی اور مادی ترقی کی بجائے تنزلی کا سفر کیا ہے۔
سن ساٹھ کی دھائی میں پاکستان سات فیصد سالانہ ترقی کر رہا تھا اور دوسرے ملک رشک کی نگاہ سے ہمیں دیکھتے تھے۔ہماری بیوروکریسی ایماندار تھی رشوت لینے والے کو معاشرے میں برا سمجھا جاتا تھا کوئی رشوت خور سے رشتہ کرنے پر تیار نہ ہوتا۔ اب ہمارا معاشرہ الٹ چال چل رہا ھے۔خود ڈیرہ میں ہمارے گھروں میں کئی روز گوشت نہیں پکتا تھا ۔ سبزیوں ۔انڈوں کا سالن بنا لیتے ۔ہمارے گھروں میں میک اپ کا سامان بالکل نہیں تھا ۔ عورتیں گلاب کے عرق میں لیموں کا رس ملا کر چہرے پر لگا لیتی اور چہرہ دمکنے لگتا۔شادی کے وقت بیوٹی پارلر نہیں تھا خوشبودار۔تیل۔ابٹن۔ مہندی۔موتیے کے پھول۔سادہ زیور دلھن کو سجا دیتے تھے۔ دنداسہ یا مساگ دانتوں کا ٹوتھ پیسٹ بھی تھا اور لپسٹک بھی۔۔اب ھزاروں روپے بیوٹی پارلر کو دے کر دلھن کی اصل شکل گم کر دی جاتی ھے اور صبح ایک نئی شکل دیکھ کر دلھا لڑائی پر اتر آتا ھے۔آۓ روز اخبار میں ایسے کیس رپورٹ ہوتے رھتے ہیں ۔۔ ہم دولت خرچ کر کے بیماریاں مول لے رھے ہیں۔
آج ہماری سالانہ گروتھ تین چار فیصد ہے 120 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا ہے قرض خواہ ہمارا خون نچوڑ رہے ہیں مہنگائ دس فیصد تک پہنچ چکی ہے مگر ہمارے اللے تللے ختم نہیں ہوتے۔کیا ہم الیکشن کو سادہ پرامن نہیں بنا سکتے تھے؟اب بھی وقت ھے ہم اپنے نبی ؐ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر سادگی اختیار کریں اوراپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنا لیں۔

About The Author