دسمبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جہنم سے اللہ بچائے پر جنت ۔۔۔۔||ڈاکٹر مجاہد مرزا

پہلی پریشان کن بات یہ کہ میں بھی اٹھارہ برس کا، میرا باپ اور میرا بیٹا بھی اٹھارہ برس کے، میرا دادا اور میرا پوتا بھی اٹھارہ برس کے، اسی طرح ماں، بیوی ، بہن ، بیٹی، نانی دادی اور آخر تک سب پڑ کھڑ تڑ سڑ دادے دادیاں، نانے نانیاں، اور نیچے کی طرف بیٹے پوتے سے آگے پڑ کھڑ تڑ سڑ پوتے پوتیاں، بیٹیاں، نواسیاں سب اٹھارہ برس کے، تعظیم مفقود، سب برابر۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہنم بارے سوچ کر تو ویسے ہی روح کانپ جاتی ہے، اللہ اس سے تو حفظ و امان میں رکھے مگر جب جنت سے متعلق سوچتا ہوں تو بہت پریشان ہو جاتا ہوں۔ ٹھیک ہے وہاں دودھ اور الکحل سے پاک شراب یعنی مشروب کی نہریں ہونگی، حوریں اور غلمان ہونگے مگر نہ عبادت کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ دنیا میں تو ہم عبادت جہنم کی آگ اور عذاب سے بچنے اور جنت کے حصول کی خواہش میں کرتے ہیں۔ سارے انبیاء اور پیغمبر وہیں ہونگے تو ان کی امت کے اگر ہماری طرح اکثریت میں نہیں تو کچھ نہ کچھ ماننے والے تو جنت میں ہونگے ہی اس طرح مذہب ایک ہو جائے گا یعنی مذہب کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ مذہب بھی تو ہم موت کے بعد کی زندگی کو بہتر بنانے کی خاطر اختیار کرتے ہیں۔
پہلی پریشان کن بات یہ کہ میں بھی اٹھارہ برس کا، میرا باپ اور میرا بیٹا بھی اٹھارہ برس کے، میرا دادا اور میرا پوتا بھی اٹھارہ برس کے، اسی طرح ماں، بیوی ، بہن ، بیٹی، نانی دادی اور آخر تک سب پڑ کھڑ تڑ سڑ دادے دادیاں، نانے نانیاں، اور نیچے کی طرف بیٹے پوتے سے آگے پڑ کھڑ تڑ سڑ پوتے پوتیاں، بیٹیاں، نواسیاں سب اٹھارہ برس کے، تعظیم مفقود، سب برابر۔
دوسری پریشان کن بات یہ کہ ماسوائے، کھانے، سونے اور کسی کے ساتھ سونے کے اور کوئی کام نہیں ہوگا۔ اور تو اور نہ کوئی تخلیق ہوگی، نہ کوئی تحقیق البتہ کہتے ہیں تنوع تو بس چاہتے ہی وقوع پذیر ہو جائے گا۔ نہ فلم ہوگی نہ انٹرنیٹ، نہ کتاب ہوگی نہ رقص و موسیقی، بس پارک ہی پارک، پھول ہی پھول، پرندے ہی پرندے، مناظر ہی مناظر۔ نہ غم نہ غصہ، نہ پریشانی نہ سعی، نہ امید نہ ناامیدی، بس خواہشیں ہی خواہشیں جو جھپ سے پوری ہو جائیں گی۔
مثال کے طور پر کسی جنتی کو خواہش ہو گئی کہ کاش میں لڑکی ہوتا تو وہ فورا” لڑکی بن جائے گا۔ ساری حوریں ڈھونڈتی پھر رہی ہونگی کہ بھائی صاحب کہاں گئے کیونکہ وہ خود حور تمثال لڑکی میں بدل چکے ہیں۔ وہ ستر حوریں اور ایک سے چار تک بیویاں تو بیوہ ہوئیں سو ہوئیں مگر یہ بھائی صاحب جو بی بی بن گئے، ان کا کیا بنے گا، مرد کہاں سے آئے، سب تو بک ہیں۔ حوریں تو خیر جہنم سے چھوٹ کر اور جہنم کے بارے میں یکسر بھول کر آنے والوں کو الاٹ کی جا سکیں گی ، بیویاں بھی سابق جہنمیوں کو جن کی بیویاں تا حال جہنم مقیم ہونگی عارضی طور پر بیاہ دی جائیں گی اگر اللہ نے چاہا تو۔ ممکن ہے ایسے ہی سابق جہنمی کے حصے میں مرد سے بنی عورت حصے آ جائے، ابھی وہ دونوں عمل کی ابتدا میں ہی ہوں کہ بھائی صاحب جو بہنا ہیں کا یک لخت پھر سے مرد بننے کو جی کر جائے اور جھپ سے مرد بن جائے تو جنت میں پہنچے اس بیچارے شوہر یا مالک کا تو ” تراہ ” ہی نکل جائے گا۔ یہ صورت حال الٹ بھی ہو سکتی ہے، یعنی کسی عورت نے مرد بننے کی خواہش کر دی تو اس کے لیے سٹور میں پڑی حوروں کو ٹھکاٹھک زندہ کیا جائے گا مگر دو دن بعد ہی بی بی بھائی اوبھ جائے اور پھر سے عورت بن جائے تو۔۔۔۔۔ خیر یہ تو ہمارے سوچنے کی بات نہیں اس کے لئے اللہ کے حکم سے منتظم اور ٹیکنیشن فرشتے ہونگے۔
انسان کتنے مناظر تبدیل کروا لے گا، کتنے ہزار سال ایک ہی بیوی یا حور یا شوہر کے ساتھ ہم بستر رہ سکے گا۔ ٹھیک ہے حسین سے حسین تر ہوتی جائے ، نقوش تبدیل ہوتے چلے جائیں گے مگر پھر بھی اکہتر، بہتر، تہتر، چوہتر کے ساتھ کتنے کروڑ سال بتائے جا سکتے ہیں۔ مباشرت کے عمل میں چاپے تکان نہ بھی ہو تب بھی۔ لیکن اگر دماغ میں بور ہونے اور بالکل تبدیلی کی خواہش کا بٹن نہیں ہوگا تب تو سارے جنتی ماسوائے روبوٹ کے کچھ نہیں ہونگے یعنی کھایا پیا اور سو گئے۔
نہ بغض ہوگا نہ کینہ، نہ سازشی ذہن ہوگا نہ سیاسی سوچ۔ یہ ہونے بھی نہیں چاہییں، دنیا میں بھی اچھے ملکوں میں بہت حد تک ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ فارغ وقت مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کی جا رہی ہے تاکہ اس اثناء میں وہ استراحت کرے اور یا ساتھ ہی چاہے تو کوئی تخلیقی کام بھی کرتا رہے۔ ایسا تو نہیں کہ کچھ ملک یہیں جنت بن جائیں گے جب سب کچھ خودکار ہونے لگے گا۔ خیر یہ تو میری کافرانہ سوچ ہے۔
مگر وہ جو مذہب میں بیان کردہ جنت ہے ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی انسان بور ہو جائے اگر وہ روبوٹ نہ ہو تو ۔۔ تب کیا اسے تفریح کے لیے جہنم بھیجا جائے گا یا ویسی ہی دنیا میں جہاں اسے پھر سے جانے کی خواہش ہو، اگر وہ انسان ہو روبوٹ نہ ہو تو۔
میری تو اللہ تعالٰی کو تجویز ہے کہ اسی دنیا کو ایسی جنت بنا ڈالے جہاں انسان پانچ سات سو سال بھرپور زندگی گذارے، چاہے تو "سیلف ڈسٹرک ” کا بٹن دبا کر نابود ہو جائے اور چاہے تو ” ریوائیو ” کا بٹن دبا کر پھر سے ریفریش ہو جائے۔ بیویوں، شوہروں، حوروں وغیرہ کا مسئلہ انسان خود انسانوں جیسے روبوٹ بنا کر حل کر ہی لے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author