نومبر 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گوادراحتجاج امید کی کرن||شاہد رند

یاد رکھیں مولانا ہدایت الرحمان کیلئے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اپنی جماعت کے پلیٹ فارم پر رہتے ہیں تو مشکلات زیادہ ہیں کیونکہ ابھی تک ان کی جماعت کی قبولیت ساحلی علاقوں بالخصوص مکران میں اتنی نہیں ہے کہ جس سے وہ کھیل میں اپ سیٹ کریں

شاہدرند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالآخر ایک ماہ سے زائد جاری رہنے والا دھرنا جو گوادر کو حق دو کے نعرے سے شروع ہوا تھا ایک تحریری معاہدے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ معاہدہ حق دو تحریک کے ابتدائی چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل ستائیس نکات میںسے تیرہ نکات پر مشتمل ہے ایک ماہ کے دوران بلوچستان حکومت کے وزراء نے چار مختلف رائونڈز میں مولانا ہدایت الرحمان کو منانے کی کوشش کی۔
لیکن مولانا نے انکار کر دیا اس کی وجہ مولانا کی وہ طاقت تھی جو مولانا کو حسین واڈیلہ یا ماسی ذینی کی صورت میں حاصل تھی۔ یہاں تک کہ وزیر اعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو پہلے رائونڈ میں مولانا ہدایت الرحمان کو منانے میں ناکام رہے تاہم فائنل رائونڈ سے قبل مولانا ہدایت الرحمان نے کچھ اہم ملاقاتیں کیں ان ملاقاتوں کے نتیجے میں برف پگھلی اور پھر بلوچستان حکومت کو کچھ فیس سیونگ ملی۔
بصورت دیگر مولانا ہدایت الرحمان اور ان کی ٹیم نے تہیہ کرلیا تھا کہ عملی اقدامات کے بغیر ان کا احتجاج ختم نہیں ہوگا۔ اس احتجاج کے آغاز سے لیکر اختتام اور معاہدہ ہونے تک مولانا ہدایت الرحمان کو جہاں سیاسی و اخلاقی حمایت ملک بھر سے ملی وہیں کچھ حلقوں نے مولانا ہدایت الرحمان کی ذات پر الزامات بھی لگائے ۔الزامات لگانے والوںمیں کسی کو مولانا ہدایت الرحمان کی جماعت اسلامی سے وابستگی پر اعتراض تھا تو کوئی اس دھرنے کو مقتدرہ کی سازش اور مولانا کو مقتدرہ کا مہرہ قرار دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ ایک قوم پرست جماعت یہ سمجھ رہی تھی کہ مولانا ہدایت الرحمان کو اسمگلرز کی فنڈنگ حاصل ہے۔
لیکن کیا یہ سارے الزامات درست ہیں یا ان میں سے آدھے الزامات درست ہیں؟؟؟ میری دانست میں مولانا ہدایت الرحمان نے جب اس تحریک کا آغاز کیا تو اس وقت سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے گوادر کو حق دو تحریک سے خود کو فاصلے پر رکھا یہ قوم پرست جماعتیں یا تو غلط فہمی کا شکار ہوئیں یا مفادات آڑے آگئے۔ جس کے نتیجے میں اس تحریک کے پلیٹ فارم پر بلوچستان کی سیاست کے بڑے نام تو ابتداء سے ہی نہیں تھے یہی ایک ایسا موقع تھا جہاں مولانا نے اپنی ٹیم تشکیل دی جس میں کوئی بڑا نام نہیں تھا گو کہ جو ٹیم تھی وہ عام لوگوں پر مشتمل تھی اس ٹیم کی قیادت مولانا کے پاس تھی مولاناکی ٹیم میں سینٹر ہاف کی پوزیشن ماضی اور حال میں بلوچستان کی سیاست کا اہم نام بلکہ گوادر کی پہچان حسین واڈیلہ کے پاس تھی ۔
وہیں ڈیفنس لائن کو سنبھالنے کی ذمے داری ماسی ذینب (زینی )کے پاس تھی اتنی مضبوط ٹیم کے ہوتے ہوئے کپتان نے فارورڈ لائن پر رہ کر حکومت کے گول پوسٹ پر تابر توڑ حملے کئے۔ جسکے نتیجے میں ایک عام ماہی گیر کے فرزند نے بلوچستان کی تاریخ میں ایک ایسا کامیاب احتجاج کیا جس نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایوان قتدار کو ہلا کر رکھ دیا۔ مولانا کی ساتھ حکومت نے جو کرنا ہے اس کی وضاحت چنددنوں میں ہو چکی۔
فشنگ ٹرالرز گوادر سے ہٹا کر اورماڑہ اور لسبیلہ میں کھلی چھٹی دیدی گئی ہے۔ جس کے جواب میں مولانا ہدایت الرحمان نے اورماڑہ کے ماہی گیروں کے اجتماع سے خطاب کیا اور اب وہ پسنی کا رخ کرینگے مولانا ہدایت الرحمان یہ جانتے ہیں کہ اب انہیں فیصلہ سازی کا حصہ بننا ہوگا۔ مارچ میں ان کا کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ ہو یا پھر ساحلی علاقوں کے طوفانی دورے یہ سب یہ ایک طویل جنگ کا آغاز ہے۔
اسکے نتائج جلد ملنا ممکن نہیں ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان انکی ٹیم تیار ہے ا سکا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ وزیر اعلٰی بلوچستان قدوس بزنجو نے گوادر میں دھرنے کے اختتام پر پیسے دیئے تو اندازہ ہوا کہ وہ کیا تائثر دینا چاہ رہا تھے انکے اس عمل نے مولانا ہدایت الرحمان بالخصوص ماسی زینی نے حال ہی میں ایک ویڈیو پیغام میں وزیر اعلٰی قدوس بزنجو کو بتا دیا ہے وہ جس سوچ کیساتھ پیسے بانٹ رہے تھے اسکا اندازہ انہیں ہوچکا ہے اور معاہدے پر عمل نہ ہونے کی نشانیاں انہیں نظر آرہی ہیں
اس ویڈیو میں انہوں نے وزیر اعلٰی کو بتایا کہ آپ کے پانچ ہزار میرے پاس امانت ہیں مزید پانچ ہزار وہ اپنے بیٹے کی حق حلال کی کمائی سے انہیں دینگی وزیر اعلٰی کے پیسے تقسیم کرنے کے عمل پر بلوچستان کے سینیئر وکیل امان اللہ کنرانی نے بلوچستان ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی ہے اور اس میں عدالت کے سامنے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کی نظیر رکھ کر وزیر اعلٰی قدوس بزنجو کی نااہلی کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس
کیس کی سماعت دو مارچ کو مقرر کرکے عدالت نے فریقین کو نوٹس کردیئے ہیں۔ پاکستان کے چھوٹے شہر کوئٹہ میں بڑے مقدمے کی اہم سماعت ہوگی دوسری جانب مولانا ہدایت الرحمان نے دھرنے کے بعد جس طرح سے سرگرمیوںکو شروع کیا ہے وہ انتہائی حوصلہ افزاء ہیں کیونکہ بلوچستان میں ترقی کے سفر کا راستہ چرواہے اور ماہی گیر کیساتھ ہی ریاست طے کرسکتی ہے۔ بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کا امتحان یعنی اگلے انتخاب اب چاہے دو ہزار بائیس میں ہوں یا دو ہزار تئیس میں اپنے وقت پر مولانا ہدایت الرحمان اس انتخابی معرکہ میں اگر اترتے ہیں تو گوادر اور مکران میں مولانا ہدایت الرحمان اور انکی ٹیم قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کیلئے ایک کھلا چیلنج بن سکتی ہے۔
اور اگر اگلے انتخابات میں مولانا ہدایت الرحمان اور انکی ٹیم نے کوئی اپ سیٹ کیا تو بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں یہ عام آدمی کی کامیابی ہوگی اور یہ ایک امید کی کرن ثابت ہوسکتی ہے۔ اب مولانا اگلے ایک سال تک کس طرح آگے بڑھتے ہیں اور ماسی زینی اور حسین واڈھیلہ کو کیسے جوڑ کررکھتے ہیں یہ مولانا کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مولانا ابتداء گوادر سے کرتے ہیں یا پھر مکران ڈویژن میں بازی پلٹنے کی کوشش کرتے ہیں اسکا فیصلہ مولانا ہدایت الرحمان اور انکی ٹیم نے کرنا ہے۔
لیکن یاد رکھیں مولانا ہدایت الرحمان کیلئے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اپنی جماعت کے پلیٹ فارم پر رہتے ہیں تو مشکلات زیادہ ہیں کیونکہ ابھی تک ان کی جماعت کی قبولیت ساحلی علاقوں بالخصوص مکران میں اتنی نہیں ہے کہ جس سے وہ کھیل میں اپ سیٹ کریں لیکن اگر وہ آزاد امیدوار ہوئے تو گوادر کی نشست پر ایک چیلنج رہینگے بلکہ مکران انکی حمایت بہت سی سیاسی قوتوں کو پریشان کرسکتی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان چرواہے اور ماہ گیر کی سرزمین پر امید کی کرن بن سکتے ہیں اسکے لئے انہیں بہت سنبھل کر آگے بڑھنا ہوگا۔

 

یہ بھی پڑھیے:

بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند

گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند

پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ڈیلی آزادی کوئٹہ

About The Author