ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2014 میں شائع ہوئی اپنی انگریزی نظموں کی کتاب Quagmire Of Being کے تعارف کا کچھ حصے کا ترجمہ :
صدیوں پہلے ایک صوفی نے کہا تھا،” میں تھا، میں ہوں، میں ہوں گا ” تاہم انہوں نے، نے یعنی بنسری کو استعارہ بناتے ہوئے اپنی اصل سے کٹ جانے کا نوحہ بھی کہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک کل کا ایک اٹوٹ حصہ تھے، مگر ایک علیحدہ وجود کے طور پر بھی موجود تھے اور خود میں کل یعنی مکمل۔ اپنی اصلیت کوکھو کر وہ اپنے منبع کے ساتھ باہم ہونے کی آرزو بھی رکھے ہوئے تھے۔ کچھ صدیاں گذریں تو ایک بالکل ہی مختلف سماجی معاشی ماحول میں ایک اور صوفی نے یہ کہہ کے لطف لیا،” اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور ” لیکن اپنے ہی کچھ اشعار میں ان کا یہ لطف جاتا رہا تھا جب انہوں نے کہا تھا، ” کی جاناں میں کون؟ میں نہ مومن وچ مسیتاں، نہ میں کافر وچ پلیتاں، کی جاناں میں کون؟ "
وجودیت پسندوں نے انسان کے زنجیروں میں جکڑے زندہ رہنے کی دہائی دی مگر انسان کو پھر بھی اپنا وجود برقرار رکھنا پڑتا ہے چاہے حالات کتنے ہی قابل نفریں کیوں نہ ہوں، اسے ان کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہضم کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ صوفیاء اور وجودیت پسندوں کا ہونے یا وجود سے متعلق تصور یکسر متضاد ہے مگر بوالعجبی یہ ہے کہ وجودیت پسندی سے جڑے لوگ عمر کے آخر میں صوفیانہ شاعری کو پسند کرنے لگتے ہیں اگرچہ صوفیا کے متعلقہ مذہبی پیرائے کو ماننے سے گریزاں رہتے ہیں۔
مر کے بھی جیتے رہنے کی آرزو صوفیاء میں ایک خفتہ خواہش کی طرح ہے کہ چاہے وہ کل کا حصہ ہی ہوں لیکن ہوں ضرور۔ بیشتر مذاہب میں لازم عقیدہ حیات بعد الممات ایک مکمل کیف ہے جس کا تعلق عبادت اور ممنوعات سے ورا ہے۔ وجودیت پسندوں میں زندگی کو اس کی لایعنیت کے باوجود گھسیٹے چلے جانا فعالیت، تحرک اور تشخص کے نام سے جانے جانے والے عارضی کیف سے عبارت ہے۔ ہونے کو نہ ہونا بہر طور بننا پڑتا ہے۔ صوفیاء کا لاوجود یا نہ ہونا کچھ سے بڑھ کر کچھ ہے نہ کہ سب کچھ۔
اپنے وجود کے لاوجود ہو جانے یا کسی ایسے وجود میں ضم ہو جانے جس کا بظاہر وجود نہ ہو، کا خوف، سوچنے والے بیشتر لوگوں کو یا تو دلیل بازی کی جانب دھکیل دیتا ہے یا نفی کے نوحے کی جانب۔ میں ان خائف افراد میں سے ایک ہوں جو معدوم ہونے، وجود کھو دینے یا لاوجود ہونے سے بے خوف ہونے کی بڑ ہانکتے ہوں۔ میں معاملات کو خاص طور پر فلسفیانہ نکات کو نظم میں ڈھال سکتا ہوں لیکن میں نے کبھی شاعر ہونے کا دعوٰی نہیں۔ شاعر ہونے کا اقرار درحقیقت معروف ہونے کی ہی ایک خواہش ہوتی ہے۔ میں ایک اور صوفی کی کہی بات کہنا چاہوں گا،” جیتن جیتن سارے کھیڈن، توں ہارن کھیڈ فقیرا "۔ اس طرح سے کھیلنا مجھے میری دو اتالیق شخصیات نے سکھایا تھا جنہیں خود کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ میں انہیں اپنا اتالیق خیال کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک بہت بڑے عالم مگر انتہائی منکسرالمزاج، ہائی سکول کے سابق استاد فدا حسین گاڈی تھے جو جب بھی ملے ، نئی پرانی کتب کی گٹھڑی کندھے سے لٹکائے ملے۔ ان کا کسی کے سوال کا جواب دینےکا انداز منفرد اور اکتسابی نوعیت کا ہوا کرتا تھا۔ وہ سوال کرنے والے سے سوال پر سوال کیے جاتے تھے، جن کے جواب دیتے دیتے، اس کی اپنی زبان سے اس سوال کا جواب برآمد ہو جایا کرتا، جو اس نے ابتدا میں کیا ہوتا تھا۔ اس پر گاڈی صاحب اس سے مخاطب ہو کے کہا کرتے تھے، ” بھائی، آپ کو جب خود جواب معلوم تھا تو مجھ سے کیوں پوچھا؟” یوں وہ سوال کرنے والے کی عزت نفس کو نہ صرف برقرار رکھتے بلکہ اسے بڑھاوا دے دیا کرتے۔
دوسرے اتالیق برصغیر کے نامور صوفی گلوکار پٹھانے خان تھے۔ یہ وہ شخصیت تھی جو ہمیشہ ہارنے کے لیے کھیلا کرتی تھی۔ وہ ہر طرح سے صوفی تھے۔ انہوں نے مجھے عدم آہنگ ہونا سکھایا، بلکہ معاشرے کے ساتھ اس عدم تطابق یا عدم آہنگی کو مستحکم کر دیا جو مجھ میں میرے شعوری وجود کی ابتدا سے موجود تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ