نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شہیدِ جمہوریت بے نظیر بھٹو |||حیدر جاوید سید

پیپلزپارٹی اور مشرف کے این آر او کے قصے بہت ہیں لیکن اسی این آر او کی وجہ سے نوازشریف اور ان کے خاندان کی واپسی ہوئی ورنہ وہ دس سال کا معاہدہ جلاوطنی کرکے ملازموں، خاندان اور باورچیوں سمیت ملک چھوڑ گئے تھے اسی این آر او کے تحت الطاف حسین کی مہاجر قومی مئومنٹ( ایم کیو ایم) کے ہزاروں کارکن رہا ہوئے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے نظیر بھٹو 27دسمبر 2007ء کی ڈھلتی سپہر میں لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ماردی گئیں، زندگی تمام ہوئی۔ جدوجہد کا باب بند ہوا۔
جلاوطنی ختم کرکے وہ شہادت سے 70دن قبل جب کراچی ایئرپورٹ پر اتریں تو انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے استقبال کیلئے موجود تھا۔
(بلاشبہ اپریل 1986ء میں جب وہ بیرون ملک سے لاہور آئیں تو ایک تاریخی استقبالیہ جلوس ان کا منتظر تھا۔) اکتوبر 2007ء میں کراچی میں استقبال کرنے والا ہجوم لاہور کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھا۔
اقتدار پر قابض فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اور ان کے ترجمان آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہا گیا کہ حکومت ان کی سکیورٹی کی ذمہ دار ہرگز نہیں۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بڑا حصہ ان کی وطن واپسی کو پرویز مشرف سے ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہا تھا۔ تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ وہ ایک سمجھوتے کے تحت آئی ہیں۔ الیکشن ہوں گے اگلی حکومت پی پی پی اور جنرل مشرف کی تخلیق کردہ (ق) لیگ کی مشترکہ ہوگی۔
بی بی سمجھوتے کے مطابق پرویز مشرف کو دوبارہ صدر منتخب کرائیں گی۔ تجزیہ نگار آسمان سر پر اٹھائے پھر ر ہے تھے۔
’’دلیل یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں بھی ڈیل کرکے ہی اقتدار لیا تھا‘‘۔ 1988ء کی ڈیل؟ مجھے یاد آیا کہ جنرل ضیاء الحق کے رخصت ہونے پر بننے والی عبوری حکومت نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا یہ اعلان بھی اس لئے ہوا کہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
ضیاء الحق کی جگہ آرمی چیف بننے والے جنرل مرزا اسلم بیگ نے قائم مقام صدر غلام اسحق خان اور سینئر وزیر الٰہی بخش سومرو کوبتادیا تھا کہ فوج مارشل لاء نہیں لگارہی
(تب کچھ حلقوں نے تاثر دیا کہ مہاجر جنرل مرزا اسلم بیگ کا ساتھ نہیں دیا غیرمہاجر جرنیلوں نے ، لیکن یہ بات بعد میں اُس وقت غلط ثابت ہوئی جب ایک دوسرے مہاجر آرمی چیف پرویز مشرف نے پنجابی وزیراعظم نوازشریف کا تختہ الٹاکر اقتدار پر قبضہ کیا تو سارے غیرمہاجر جرنیل ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے)
انتخابات ہوئے پیپلزپارٹی اکثریتی پارٹی بن کر قومی اسمبلی میں پہنچی لیکن قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے الٰہی بخش سومرو اور دوسرے وزراء کے مشورے کے باوجود جنرل حمید گل کی بات مانی اور اسلامی جمہوریت اتحاد کے سربراہ میاں نوازشریف کو موقع دیا کہ وہ بیوروکریسی اور پولیس کے تعاون سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے ارکان اسمبلی کا ہانکا کرکے انہیں اپنی "سائیکل” پر سوار کرلیں۔
انہی دنوں جنرل حمید گل یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ
’’ہم نے آئی جے آئی کے نام سے اتحاد اس لئے بنوایا تھا کہ فوج کو خطرہ تھا کہ اگر پیپلزپارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو وہ فوج سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا انتقام لے گی‘‘۔
بہرطور تاخیر کے باوجود جب آئی جے آئی کی قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت نہ بنی تو اقتدار پیپلزپارٹی کو دینے کا فیصلہ ہوا۔
پنجاب میں میاں نوازشریف ڈپٹی کمشنروں اور ایس ایس پی صاحبان کے ذریعے آزاد ارکان کو جمع کرچکے تھے اس لئے پی پی پی کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار فاروق لغاری کی دال نہ گلنے پائی۔
(یہ اور بات ہے کہ پھر ایک وقت میں اسی فاروق لغاری نے نوازشریف کے ساتھ مل کر محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی)
پی پی کا یہ اقتدار 19ماہ سے کچھ اوپر چلا۔
اگست 1990ء میں صدر غلام اسحق خان نے کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے پی پی پی ختم کردی۔
بے نظیر بھٹو دوسری بار 1993ء میں اقتدار میں آئیں ان کے اس دور میں انکے بھائی مرتضیٰ بھٹو کراچی میں قتل ہوئے۔ آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ وہ کیسی کراس فائرنگ تھی جس کی ایک بھی گولی مرتضیٰ بھٹو کو نہیں لگی اور وہ ایک اجنبی شارپ شوٹر کی گولی سے مارے گئے۔
بینظیر بھٹو کا یہ اقتدار ان کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری نے ویسے ہی الزامات پر ختم کیا جیسے 1990ء میں صدر اسحق نے لگائے تھے۔
آصف علی زرداری اس شب گورنر ہائوس لاہور میں مقیم تھے جہاں سے اس وقت کے اخبارات کے مطابق اربوں روپے کی نقدی۔ سینکڑوں کلو سونا اور کروڑوں کے ڈالر زرداری کے بیڈ کے نیچے پڑے ٹرنکوں سے برآمد ہوئے تھے۔ اللہ جانے وہ سارا مال احتساب کونسل والے حسن وسیم افضل کی ٹیم کھاگئی یا جن لے اڑے کیونکہ برآمد شدہ مال کا کسی مقدمہ میں ذکر نہیں تھا۔
جنرل ضیاء الحق اور ان کے حواریوں موالیوں اور محبان نے تو اپنے دور میں جو سلوک بے نظیر اور ان کی والدہ کے ساتھ کیا سو کیا، ان کے سیاسی جانشین میاں نوازشریف اور اسلامی جمہوری اتحاد نے تو ساری حدیں پھلانگ لیں۔ گھٹیا جعلی تصاویر سے غلیظ تقاریر تک سب کچھ ہوا۔
پھر قومی اسمبلی میں جو ہوا وہ الگ المیہ داستان ہے۔ میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں بینظیر بھٹو ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔
ان کی واپسی اکتوبر 2007ء میں ہوئی اور آمد کے 70 دن بعد وہ راولپنڈی میں سڑک پر ماردی گئیں۔
اس سے قبل بیرون ملک قیام کے دنوں میں میثاق جمہوریت ہوا۔ (میثاق جمہوریت پر عمل اور انحراف ایک الگ موضوع ہے اسے پھر پر اٹھارکھئے) محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کےبعد صبرواستقامت کے ساتھ فوجی حکومت کے مظالم برداشت کئے محض مظالم ہی نہیں اسلامی پسندوں کی ہر گالی کا زخم بھی سہا۔
پیپلزپارٹی اور مشرف کے این آر او کے قصے بہت ہیں لیکن اسی این آر او کی وجہ سے نوازشریف اور ان کے خاندان کی واپسی ہوئی ورنہ وہ دس سال کا معاہدہ جلاوطنی کرکے ملازموں، خاندان اور باورچیوں سمیت ملک چھوڑ گئے تھے اسی این آر او کے تحت الطاف حسین کی مہاجر قومی مئومنٹ( ایم کیو ایم) کے ہزاروں کارکن رہا ہوئے
لیکن این آر او کی کالک صرف پیپلز پارٹی پر ملی جاتی ہے ۔
ہمارے یہاں کہنے والے کہتے ہیں پیپلزپارٹی نے سمجھوتوں کی سیاست کی عجیب سمجھوتہ باز پارٹی ہے جس کا بانی چیئرمین قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھا اس کی صاحبزادی لیاقت باغ کے باہر ماردی گئی۔
کہتے ہیں طالبان نے قتل کیا۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا 14برس بعد بھی اپنے موقف پر قائم ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی مقامی مرکزی کردار تھے۔
امریکہ انکے قتل میں بطور ریاست شریک تھا۔ ہمارے دیسی ٹوڈیوں نے حق نمک ادا کیا۔
آج بینظیر بھٹو کی 14ویں برسی ہے۔ انہوں نے پرعزم جدوجہد میں زندگی بسر کی۔ سڑک پر ماردی گئیں۔ ہماری تاریخ یہی ہے ہم آفتابوں کو پھانسی چڑھاتے ہیں اور چاندنیوں کو قتل کرتے ہیں۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی چاہتی تو بہت آسانی کے ساتھ راتوں رات اس ملک کا جغرافیہ تبدیل ہوسکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی نے اپنا وزن وفاق پاکستان کے پلڑے میں ڈالا، کیوں؟
اس سوال کا جواب پیپلزپارٹی ہی دے سکتی ہے
ویسے جو لوگ پی پی پی پر مشرقی پاکستان کے سقوط کا الزام دھرتے ہیں وہ ہی بتادیں موقع ملنے کے باوجود پی پی پی نے سندھو دیش کیوں نہ بننے دیا؟
پیپلزپارٹی آبپارہ و بنی گالہ اور جاتی امرا شریف کے محبوں کے نزدیک آجکل اندرون سندھ کے چند اضلاع کی جماعت ہے،
حیرت ہے چند اضلاع کی جماعت کے خلاف یہ سارے صبح سے شام تک دشنام طرازی اور ڈیل ڈیل کے الزامات لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔
بینظیر بھٹو نے اپنی جدوجہد، صبر اور استقامت سے خود کو ملکی سطح کا رہنما منوایا۔ بین الاقوامی سطح پر انہیں ایک مدبر دانشور کا درجہ حاصل ہوا۔
ان کا سفاکانہ قتل درون سینہ راز نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں
’’مجھے ڈرایا دھمکایا گیا لیکن میں فیصلہ کرکے آئی ہوں کہ اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کے ساتھ جیوں اور مروں گی‘‘
اس اعلان کے کچھ دیر بعد انہیں لیاقت باغ کے باہر ماردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author