حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجئے 25دسمبر 1958ء کی صبح سے شروع ہوا سفر حیات 25دسمبر 2021ء تک آن پہنچا۔ پچھلے 63برس کیسے بیتائے، لمبی کہانی ہے۔
چند محبوب دوستوں اور برادرانِ عزیز کے مسلسل اصرار پر سپر ڈالتے ہوئے ’’زنداں کی چیخ‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی تحریروں کو ازسرنو ترتیب دے کر سوانح عمری کی صورت میں لکھ رہا ہوں۔ روزگار کے غم اور کبھی حوادث زمانہ دونوں کے حملوں سے ربط ٹوٹ جاتا ہے۔
کچھ روایتی سستی بھی ہے وہی ازلی جو ہم ملتانیوں کے بارے میں مشہور ہے۔
سستی ہی ہے کہ دو کتابوں ’’قیدی کے خطوط‘‘ اور ’’میر مرتضیٰ بھٹو دہشت گرد یا انقلابی‘‘ کے نظرثانی شدہ مسودے اشاعت کے لئے تیار ہیں۔ کبھی حالات نے ہمیں آڑے ہاتھوں لیا کبھی پبیلشر۔ (برادر عزیز علی ابو تراب خان) کی مصروفیات اور علالت آڑے رہی اب ارادہ یہی ہے کہ دونوں کتابیں اپریل سے قبل شائع ہوجائیں۔
پھر باقی کا کام حسب وعدہ شروع کروں۔ لکھنے لکھانے کے حوالے سے ہوئی وعدے خلافیوں پر دوست ناراض کیا برہم ہیں۔ ان کا حق ہے۔
برہمی درست بھی ہے ادھر وقت تیزی کے ساتھ مٹھی سے پھسل رہا ہے۔ کس سمے زندگی کی شام آنگن میں اتر آئے کیا معلوم اس لئے پختہ ارادہ ہے ادھورے کام کرلئے جائیں۔
جو دیکھا سنا بھگتا وہ تاریخ کا حصہ ہے اسے نئی نسل کے سپرد کردیا جائے۔
63برس جو گزار آیا ہوں بہت دلچسپ کڑوے کسیلے اور تھکادینے والے تھے۔ سفید پوش والدین کی اولاد کو زندگی بھر جدوجہد ہی کرنا پڑتی ہے۔
پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں منظر در منظر سفر حیات کی فلم شروع ہوجاتی ہے۔
اس فلم میں درجنوں کردار ہیں ایک سے بڑھ کر ایک اُجلا کردار انہی کی وجہ سے تو سفر طے ہوپایا۔
کیا ماہ و سال تھے جب چوتھی جماعت میں پڑھتے بچے کو گھر سے بھاگنے کی سوجھی اور وہ سکول کے بستے میں دو جوڑے کپڑے لئے ماں باپ کے آنگن سے تپتی دوپہر میں نکل کھڑا ہوا۔
بھلا یہ بھی کوئی بھاگنے کی عمر تھی۔ جانا کہاں ہے، تب ہم نے کراچی میں مقیم چند رشتہ داروں سے یہ سن رکھا تھا کہ کراچی بڑا دیالو شہر ہے تعلیمی ادارے صبح و شام کھلے رہتے ہیں۔
ایک وقت میں محنت کرو دوسرے وقت پڑھو، یہی اس شہر کا پہلا تعارف تھا۔
گھر سے نکلے قدرت مہربان ہوئی، آپا سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ کی آغوش میں پہنچ گئے۔ آپا نے پالا پوسا پڑھایا اور تربیت کا حق ادا کیا۔
ان کا خاندان بٹوارے کے وقت حیدر آباد دکن سے اٹھ کر کراچی آن بسا تھا۔ میاں وفات پاچکے تھے۔ اولاد ہماری صورت میں مل گئی ان کی ممتا کو قرار آگیا۔
گھر سے بھاگا بچہ خرکاروں کے ہاتھ چڑھنے سے بچ کر ایک ماں کی آغوش میں سماگیا۔ محنت مزدوری اور حصول تعلیم، خود سے کیا وعدہ ہم نے بھی پورا کیا۔
ایک طویل داستان ہے سوانح عمری میں پڑھ لیجئے گا۔ زندگی کے رولے رپے بہت ہیں دوست ہمیشہ اچھے اور مہربان ملے، بھلے اور آڑے وقت میں انہوں نے بھرپور ساتھ دیا۔
آپا کی تربیت نے قدم قدم پر رہنمائی کی اب بھی کبھی پریشان ہوتا ہوں تو آنکھیں بند کرکے اپنی آپا کے آنگن میں پہنچ جاتا ہوں۔
بہت حوصلہ ملتا ہے تازہ دم ہوکر سفر حیات کے میدان میں پھر سے اتر آتا ہوں۔
فقیر راحموں کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ خوبیاں، آپا، امڑی، اساتذہ، دوستوں اور کتابوں کی دین ہیں خامیاں ہم نے خود کمائیں اپنے زور بازو سے اس لئے کسی سے شکوہ نہیں۔
شکوہ ہو بھی تو کیوں۔ لکھنے پڑھنے کی دنیا میں اپنے شوق سے ہی آئے تھے۔ ان ماہ و سال میں لکھنا پڑھنااور صحافت نظریہ ہوتے تھے۔
دھندہ تو بعد کے برسوں میں بنا یہ سب خصوصیات جنرل ضیاُ الحق کے دور میں پیدا ہوئیں اور پروان چڑھیں ۔ عجیب عہد ستم تھا کیسے کیسے نابغوں کو کھاگیا کڑیل جوان دار پر جھولے۔ سیاسی کارکن، صحافی اور دانشور ٹکٹکی پر باندھے گئے۔
انہیں کوڑے مارے گئے۔ کوڑوں کی سزا دینے والے سمجھتے تھے ملک انہوں نے کاندھوں پر اٹھارکھا ہے۔ یہ نہ ہوتے تو پتہ نہیں کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی۔
یہ اور بات کہ ان کے ہوتے ہوئے بھی قیامتیں ٹوٹیں۔ چار بار مارشل لائوں کی صورت میں اور کئی بار ان کے تجربوں کے شوق نے قیامتیں توڑیں۔
ہم جب جوانی اور شعور کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے تو اس پر خوش ہوتے تھے کہ 25 دسمبر جناب مسیحؑ اور جناح صاحب کا یوم ولادت ہے اور ہمارا بھی۔ جناح صاحب سے زیادہ ہمیں جناب مسیحؑ نے متاثر کیا، کیوں؟ اب پوچھ نہ لیجئے گا۔
خیبر بات 25دسمبر کی ہورہی تھی ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ اداکارہ نیلی بھی 25دسمبر کو دنیا میں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد امین نے حوصلہ دیا شاہ فکر نہ کر میں بھی 25دسمبر والا ہوں پھر ایک دن یہ ہوا کہ 13اگست والے محمد نواز شریف نے وزیراعظم بنتے ہی اپنی تاریخ پیدائش 13اگست کی بجائے 25دسمبر کرالی۔
میاں صاحب کا کہنا تھا والدین نے غلطی سے جنم دیہاڑ غلط لکھوادیا۔
فقیر راحموں نے کہا ’’شاہ جی ہن سنائو کیاحال ہے‘‘۔ حال کیا ہونا تھا ہمارے محبوب کامریڈ میاں محمد نوازشریف کو ثانی قائداعظم بننے کا شوق تھا وہ بن گئے پتہ نہیں جیل کیوں گئے۔ جناح صاحب تو جیل سے دور ہی رہتے رہے۔
جب سے میاں صاحب 13اگست کو چھوڑ کر 25دسمبر میں داخل ہوئے ہیں جناب مسیحؑ اور جناح صاحب بھی سوچتے تو ہوں گے کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔
خیر وہ آپس میں نبڑلیں گے ہم اپنی باتیں کرتے ہیں۔
اب تک کا سفر اچھا ر ہا۔ اپنی تلخیوں اور مصائب کے باوجود ، باقی کتنا بچا ہے یہ معلوم نہیں۔ چلیں جتنا بھی ہے طے تو کر ہی لیں گے رونے دھونے کا فائدہ۔
لکھنا پڑھنا اور پھر قلم مزدوری (صحافت) یہ خالص اپنا شوق تھا پھر روزگار کا ذریعہ بن گیا۔
چوک خونی برج ملتان کے محلہ اسحٰق پورہ سے بی بی وعظ والی سیدہ عاشو بی بی رح کے آنگن سے اٹھے پھر شہر شہر رزق سے بندھی ہجرتوں کی بدولت گھومے۔ آج کل لاہور میں ڈیرے ہیں
اپنے حصے کا رزق پشاور اور ملتان سے آتا ہے۔ شب و روز کا زیادہ حصہ اپنی لائبریری میں گزر جاتا ہے۔
کتابوں کے اوراق الٹے، کچھ مزدوری کی، فقیر راحموں سے نونک جھونک، دوست و احباب ملنے آئے تو محفل سجالی۔ آخری خواہش فقط اتنی ہے کہ سانسوں کی ڈرو کٹ جائے تو اپنی امڑی کے قدموں کی طرف سلادیا جائوں۔
پتہ نہیں یہ خواہش بھی پوری ہوگی یا نہیں ، پیچھے رہ جانے والوں کو آخری خواہش کا احترام تو کرنا چاہیے۔ گزرے ماہ و سال کا سارا حساب صاف سامنے ہے۔
ملال رتی برابر بھی نہیں۔ ملاکھڑے ہم نے اپنی مرضی سے کئے۔ پھڈے بھی مرضی سے مول لئے۔ اس سفر حیات کی کمائی کیا ہے۔ دوست، کتابیں، اور بیٹیاں۔ ہمیں تینوں سے محبت ہے۔
دشمن بھی خوب بنائے افسوس کہ انہوں نے حق دشمنی ادا نہیں کیا۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے یہ سب کیوں لکھا، ضرورت کیا تھی۔ ہمارے خیال میں آج کے دن یہی باتیں ہونی چاہئیں۔
عجیب سی بات ہے سیاسی نظریات اور خاندانی عقیدے دونوں میں سے اپنے حصے میں کچھ نہیں آیا بلکہ ہم نے دونوں کے معاملے میں اپنی الگ دنیا آباد کی اسی پر خوش ہیں۔
ساعت بھر کے لئے رک کر یہ جان لیجئے کہ ہم عقیدے کو فرد کا ذاتی معاملہ جانتے سمجھتے ہیں۔ سیاسی نظریات کو تعصب کا تڑکہ لگانے کی بھی ضرورت نہیں۔
ملتان ہمارا جنم شہر ہے ہماری امڑی کا شہر بھی یوں یہ شہر ہمیں جنت معلیٰ سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
ویسے شہر کوئی بھی برا نہیں ہوتا مگر امڑی کا شہر تو جنت نشان ہی ہوتا ہے۔
پچھلے 63 برسوں میں جہاں بھی رہے ملتان ہمارے اندر آباد رہا۔ اب بھی پوری آب و تاب سے آباد ہے۔
حرف آخر یہی ہے۔
’’طمع کے گھاٹ پر اترنے کا وقت ہی نہیں ملا، مشکل آئی تو دوستوں نے جی جان سے مدد کی۔ خواہشوں کے بے لگام گھوڑے پر سواری ہلاکت کا سامان کرتی ہے یہ بہت پہلے سمجھ لیا تھا۔ اسی لئے من مرضی کرتے یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ دوست ہمیشہ مہربان رہے اس لئے منشی بننے سے بچ گئے۔ جو لکھتے لکھاتے بولتے رہے اس کی قیمت بھی خوب ادا کی۔ کتابیں اور دوست سلامت ہمیں ڈر کاہے کا‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ