گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوراخ سے باربار ڈسا شخص ۔
4 اگست 2011ء کو لندن میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد ہنگامے شروع ہوۓ جو پورے ملک میں پھیل گیے اور ایک ہفتہ جاری رہے ۔ اس میں شاپنگ مال اور دکانیں لوٹنے ۔جلاو گھیراو ۔ریپ کےسیکڑوں واقعات ہوۓ۔ ان جرائم میں ملوث تمام افراد کو جدید ٹکنالوجی کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ججوں نے چھٹیاں منسوخ کیں ۔دن رات عدالتیں لگیں اور مجرموں کوعبرتناک سزائیں ملیں ۔اس کے بعد ایسے واقعات دیکھنے میں نہیں آے۔
برطانوی حکومت نے اس کے بعد ایک کمیشن بنایا اور ان واقعات کے پس پردہ عوامل کا جائزہ لیا۔ سرفہرست عوامل میں سوشل ایکسکلیوزن/ سماجی اخراج کو سرفہرست رکھا گیا کہ یہ لوگ خود کو معاشرے کے ساتھ مربوط نہیں کرسکے۔ اس میں ایک طرف امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ، بے روزگاری اور معاشی ناہمواری وغیرہ کو قرار دیا گیا تو دوسری طرف اسے ایک ایسی نوجوان نسل سمجھا گیا جو ایک الگ ہی دنیا میں رہتی ہے اور خود کو معاشرے کی مین سٹریم سے جوڑنے سے قاصر رہتی ہے اور اکثر ترقی یافتہ قوم میں ایسا ایک گروپ ہوتا ہے۔ بروکن broken فیملی یا میل رول ماڈل کا سامنے نہ ہونا بھی اس قسم کے گینگسٹر کلچر اور کرمینل سوچ کی ایک وجہ قرار دیا گیا۔ دو ہزار آٹھ کی عالمی کساد بازاری کے اثرات سے نمٹنے والی معیشت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کو بھی ایک وجہ سمجھا گیا جس کی وجہ سے حکومتی ویلفئیر بجٹ میں کٹوتی اور اس کا براہ راست لوگوں پر پڑنے والا اثر تھا جس علاقے سے یہ فساد شروع ہوئے اسے لندن میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح والا علاقہ سمجھاجاتاہے۔
ایک اور اسٹڈی کے مطابق اس میں ایک فیکٹر جرم یا فساد ایک فن یا تھرل کے طور پر کرنے والے بھی شامل تھے جن میں معاشی طور ہر خوشحال فیملیز کے بچے بھی شامل تھے۔گینگسٹر کلچر کا فروغ اور نوجوانوں میں اس کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ایک وجہ سمجھی گئی۔ ایک اور وجہ کرائم کرنے کا رجحان اور لالچ قرار دی گئی جو موقع ملتے ہی حاوی ہوکر اس طرح کے فساد اور لوٹ مار کی وجہ بنی۔ ایک اور وجہ عموماً اس طرح کے کرائم کیسز میں کم سزا یا نرم سزاؤں کا ہونا قرار پایا جو لوگوں کو جرم کرنے سے روکنے میں ناکام رہیں۔
آج 16 دسمبر ہے اس دن ہمارے ساتھ دو بڑے سانحے ہوۓ ۔ہم نے ان سے کوئی سبق سیکھا؟
آج پاکستان میں وہ سارے عوامل نظر آتے ہیں جو برطانوی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں واضع کیے ہیں ۔ کیا آج ہم توبہ تائب ہو کر ملک میں سماجی انصاف کا نظام قائم کرنے کو تیار ہیں ؟یا گلشن کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر