ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی کی دہائی میں نشر ہونے والا ڈرامہ “ماما سیمیں” دیکھا تو بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے نقطۂ نظر کو جانچنے کے لئے تھا لیکن احساس کا کوئی لمحہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے پہ مجبور کر گیا۔
“کیا ہمارے بچوں نے بھی یہی سوچا ہو گا؟ اسی طرح ماما طاہرہ کو برا بھلا کہا ہو گا جب وہ کبھی ہسپتال، کبھی سہیلیوں سے ملاقات اور کبھی دوسرے ملکوں کو روانہ ہو جایا کرتی تھیں”۔
بیسویں صدی غروب ہونے کو تھی کہ صاحب کی پوسٹنگ ملتان بیس پہ ہوئی۔ ہمیں اپنی فکر چرائی کہ پنجاب حکومت سے وفاداری کا دم بھرتے ہوۓ سول ہسپتال مری میں مسیحائی میں مصروف تھے۔ پنجاب سیکرٹریٹ کے کچھ دھکے کھانے کے بعد نشتر ہسپتال کا پروانه پوسٹنگ ملا۔
اجنبی شہر اور نئے ماحول میں بچی کے سکول، ہسپتال، اور گھر سے نبرد آزما ہونے کی رسہ کشی جاری تھی۔ ابھی تک ہمسایوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں ملی تھی۔ برابر والے گھر میں کوئی میجر صاحب مقیم تھے جن کے بچے اکثر باہر کھیلتے نظر آتے، تین لڑکے اور ایک لڑکی۔ بچی ہماری صاحبزادی کی ہم عمر تھی سو کچھ دن کی اجنبیت کے بعد برف پگھلی اور دونوں نے مل کے کھیلنا شروع کر دیا۔
ان دنوں ہمارے پاس لال رنگ کی سوزوکی مہران ہوا کرتی تھی، گاڑیوں میں ہماری پہلی محبت۔ بعد کے برسوں میں اس سے بہت بہتر گاڑیاں ملیں لیکن وہ نازنین ابھی بھی محو یادداشت نہیں ہوئی۔ شاید زندگی میں آنے والی ہر پہلی محبوب چیز کا نقش رہتی عمر تک ساتھ رہتا ہے۔
تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ہر صبح ماہم کو گاڑی میں بٹھاتے اور سکول چھوڑتے ہوئے نشتر ہسپتال پہنچ جاتے۔ واپسی میں بھی یہی ترتیب دہرائی جاتی لیکن اس میں راستے میں آنے والے کینٹ بازار سے کھائی جانے والی آئس کریم یا رضوان دہی بھلا ہاؤس کے دہی بھلے شامل ہوتے۔ گاڑی میں اونچی آواز میں میوزک بجتا، تیزرفتاری سے کینٹ کی سڑکوں پہ گاڑی بھگاتے گھر پہنچتے جہاں میز پہ چنا ہوا گرما گرم کھانا ہمارے انتظار میں ہوتا۔
دھوپ ڈھل رہی ہوتی جب ماہم اپنی سائیکل اٹھا کے باہر نکل جاتیں کہ ان کی نئی نویلی دوست انتظار میں ہوتیں۔
کچھ ہفتے ایسے ہی بیت گئے کہ ایک دن جب ہم شام کی چائے پی رہے تھے، بیٹ مین نے ہمیں بتایا کہ ساتھ والے گھر سے میجر صاحب کی بیگم ہم سے ملنے آنا چاہتی ہیں۔ ہم نے فوراً ہی جوابی پیغام بھجوایا کہ جب وہ چاہیں تشریف لا سکتی ہیں۔ وقت ملاقات اگلے دن کا طے ہوا۔
پرکشش، پرخلوص خاتون، چار بچوں کی ماں، مزے سے چائے پی گئی۔ رخصت سے پہلے بولیں، اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں،
“جی فرمائیے”
” جس دن سے آپ ہمارے ہمسائے میں آئی ہیں، ہمارے گھر ایک عجیب سی مصیبت کھڑی ہو گئی ہے “
ہمارا دل دھک سے رہ گیا
” جی، وہ کیسے؟”
“میری بیٹی سونیا نے گھر میں ایک قیامت کھڑی کر دی ہے”
” میں سمجھی نہیں “
“وہ ماہم کے ساتھ کھیلتی ہے، آپ کے شب وروز دیکھتی ہے اور اسے اب آپ جیسی ماں چاہیے”
” معاف کیجیے گا، میں اب بھی نہیں سمجھی”
” وہ مجھ سے دن رات سوال کرتی ہے کہ میں ماہم کی ماما کی طرح گاڑی نہیں چلاتی؟ میں ماہم کی ماما کی طرح ڈاکٹر کیوں نہیں؟ میں ماہم کی ماما کی طرح تیار ہو کے ہسپتال کیوں نہیں جاتی؟” وہ پژمردہ سی بولیں،
“ارے بس اتنی سی بات! آپ اسے سمجھائیے کہ ماہم کی ماما ہونا کافی مشکل بات ہے۔ جب سونیا آپ کے گلے میں بازو ڈال کے سوتی ہے اس وقت ماہم کی ماما رات کی ڈیوٹی کرتی ہیں اور ماہم کو کبھی پاپا اور کبھی آیا کے ساتھ سونا پڑتا ہے۔ صبح سکول جاتے سمے اسے ناشتہ بھی خود ہی کرنا ہوتا ہے اور تیاری میں بھی مدد نہیں ملتی کہ صاحب خود دفتر کے لئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے خود موزے اور جوتے پہنتی ہے۔ شام کو ہوم ورک میں اس کی ماما مدد نہیں کرواتیں کہ وہ خود پڑھ رہی ہوتی ہیں۔ اور اس کی پسند کے کھانے ماما کے ہاتھوں بننا تو ناممکن سی بات ہے”
ہم نے جلدی جلدی سارے ممکنہ منفی پہلو گنوا دیئے۔وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں،
”میں اس سے کہیں زیادہ بچی کو کہہ چکی ہوں مگر اسے ہر صورت ماہم کی ماما جیسی پروفیشنل عورت جیسی ماں چاہیے۔ اپنی مرضی کی مالک، زمانے کے ساتھ چلتی ہوئی اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتی ہوئی۔ وہ ہر شام گھر آکے روتی ہے اور میرے پاس اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں”
” آپ اسے بتائیے کہ گھر میں رہنے والی ماما کے بھی بہت سے کام ہوا کرتے ہیں جو اسی طر ح محنت طلب ہوتےہیں ” ہم نے ایک طریقہ بتایا
” سب کر چکی ہوں، وہ سب کھانے جو میں اس کے لئے بناتی ہوں، وہ سب کہانیاں جو میں اسے سناتی ہوں اس کے لئے بے معنی ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک ہی رٹ ہے کہ آپ ڈاکٹر کیوں نہیں بنیں؟ “
یہ آگہی کا وہ لمحہ تھا جو کم عمر سونیا نے ایک دوست کی ماں کو دیکھ کے محسوس کیا تھا اور اب اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کے خواب بننا چاہتی تھی۔
ہماری بیٹی کچھ بڑی ہوئی تو ہم نے ایک دن اس سے یہ سوال داغ ڈالا،
” کبھی تمہیں لگا کہ اگر ماما پروفیشنل نہ ہوتیں تو تمہیں زیادہ مزا آتا”
ایک لمحے سے بھی پہلے جواب آیا،
” ہرگز نہیں، آپ کے پروفیشن اور آپ کی مصروفیات نے مجھے زندگی معنی سے گزارنے کا سبق دیا ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ مجھے ماما کی طرح اپنی پہچان بنانی ہے جہاں ماما صرف میری ماں اور بیوی ہی نہیں، ان کی ذات بھی وجود رکھتی ہے۔ اور ہاں یہ بتاتی چلوں سکول میں میری سب دوست مجھ پہ رشک کرتی ہیں کہ میری ماں کا معاشرے میں ایک علیحدہ سے مقام ہے”
بڑی بیٹی کی یہ باتیں تو قصہ پارینہ بن چکیں، سو سوچا چھوٹی ہی سے پوچھ لیں کہ اس کے بچپن میں ہم نے بہت بین الاقوامی سفر کیے اور اس نے بہت وقت ہمارے بغیر گزارا۔ ہمارا سوال سن کے وہ بہت ہنسی اور کہنے لگی
“آپ جب بھی دنیا کے کسی بھی ملک جاتی تھیں میں اپنی سہلیوں کو بتاتی کہ میری ماما ساؤتھ افریقہ گئی ہیں یا ماما اس وقت اٹلی کے شہر روم میں موجود ہیں۔ سب بچے رشک کرتے اور ہمیشہ مجھے کہتے کہ تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمہاری ماں دنیا کی حقیقت تم پہ کھولتی ہیں۔ پھر آپ ہمارے لئے جو بھی تحفے لے کر آتیں، وہ اور آپ کی تصاویر ساری کلاس میں گردش کرتیں جنہیں دیکھ کے ہر بچی اپنی آنکھ میں ویسا بننے کے خواب سجاتی”۔
جواب خوش کن تو بہت تھے لیکن “ماما سیمیں” کی روشنی میں ہماری تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ ڈرامے میں دکھائی دینے والے بچے کی ہڑک اور بچے کا ہیروا کرنے کے ڈائیلاگ، سارے خاندان کا ماں اور بچے کے پیار کے گیت اور بچے کے گرد پروانہ بن جانے کی نصیحتیں اور بچے کی محرومی!
“یا خدا، کہیں ہمارے بچے کھسکے ہوئے تو نہیں ہماری طرح” ہم نے سوچا۔
حیدر میاں ان سوال و جواب سے بچ گئے تھے سو سوچا کہ ان پہ قسمت آزمائی جائے۔ حیدر بہت چھوٹے تھے تو ہمیں ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ایک ہسپتال میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنا کے بھیج دیا گیا تھا۔ ہم وہاں پورا ہفتہ گزارتے تھے اور ویک اینڈ پہ گھر آتے تھے۔ حیدر کی عمر ڈرامے میں دکھائے جانے والے بچے سے کچھ کم ہی تھی۔
” مجھے علم تھا کہ آپ اپنا کام کرنے گئی ہیں۔ میں تھوڑا اداس تو ہوتا تھا لیکن ہم سب کو بہت اچھا لگتا تھا کہ آپ نے اپنی زندگی اور اپنی ذات کو صرف ہمارے لئے مخصوص نہیں کر دیا۔ آپ اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہیں۔ آپ کی بہت سی باتوں نے مجھے عورت کا وہ روپ دکھایا ہے جو شاید میں ویسے نہیں دیکھ پاتا۔ ماما مجھے آپ سے کبھی کوئی گلہ نہیں ہوا۔ کھانا اور یونیفارم تو ہمیں نسیم آنٹی دے دیتی تھیں”
یہ سب کچھ لکھنا اور آپ تک پہنچانے کا مقصد اپنی قصیدہ گوئی ہرگز نہیں بلکہ یہ گوش گزار کرنا مقصود ہے کہ ماما سیمیں ڈرامے نے معاشرے کی عورت کو سجھایا کہ عورت وہی بہترین جو گھر رہتے ہوئے پروانے کی طرح بچے کے گرد گھومے، اس کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے اور اس کے ننھے منے ذہن میں وہ خواب تعمیر نہ کر سکے جو اسے زندگی کی وسعتوں میں آگے کی طرف بڑھنے کو اکسائیں۔
یہ ایک ایسا خیال تھا جو پدرسری نظام کی بدصورتی کا عکس تھا اور اس خیال کو راسخ کرنے میں ان ادیبوں کا بہت بڑا حصہ تھا جو ضیا دور کی مائنڈ انجینئرنگ کا نصب العین تھا۔
یاد رکھیے، ہر بچے کو پروفیشنل ماں میسر نہیں ہوتی جو اس کے ذہن کی کھڑکیاں کھول کے باہر کی تازہ ہوا کو اندر داخل ہونے کی اجازت دے۔ جو اپنے نقش قدم سے ثابت کرے کہ وہ کسی طور مرد سے کم نہیں اور وہ بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ ہر وہ کام کرنے کی اہل ہے جو من چاہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ ممتا محض چوبیس گھنٹے بچے کو پچکارنے اور سہلانے کا نام نہیں، بچے کی بلندیوں پہ پرواز کی اہلیت کو جلا بخشنا ماں اور باپ مل کے کیا کرتے ہیں اور اس میں دونوں کا فعال ہونا بچے کے لئے نئے افق تراشنا ہے۔
آگہی اور دانائی کے یہ موتی بکھیرنا اور معاشرے کی نیو سیدھی رکھنا ان دانشوروں کے ہاتھ میں ہوا کرتا ہے جن کی بات معاشرے کے ہر گھر تک ان کے قلم کے ذریعے پہنچتی ہے اور کورے کاغذ سے ذہنوں پہ دیرپا نقش قائم کرتی ہے۔ پدر سری نظام کی فرسودہ روایات کو توڑنے کے لئے ہمیں ایسے دانشوروں کی تلاش ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر