ذلفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
دو دن پہلے مجھے بہت ہی اہم تجربہ ہوا۔ میرے گھر دو مختلف کلچر سے تعلق رکھنے والے مہمان آئے ہوئے تھے۔ وہ دونوں لیفٹ کی سیاست کرنے والی عوامی ورکر پارٹی کے اہم عہدیداران تھے۔ ایک کا نام بخخشل تھلو ہے جس کا تعلق سندھ سے ہے اور دوسرا عاصم سجاد جس کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے ہے۔
دونوں سیاست میں بہت ایکٹو ہیں اور اپنے تئیں سماج کو بدلنے کیلئے بہت کمٹڈ ہیں لیکن دونوں کا مزاج بہت مختلف ہے۔
بخشل کے مزاج میں ثقافتی رنگ زیادہ نمایاں ہے۔ وہ لوکل شاعری، لطیفے، فوک وزڈم اور لطافت کا پہلو واضح نظر آتا ہے۔ وہ لیفٹ کی بھاری بھرکم اصطلاحات سے گُریز کرتا ہے اور پُر اُمید نظر آتا ہے۔ جبکہ عاصم نے لیفٹ کی سیاست کو ہی اوڑھا ہوا ہے۔ وہ دنیا اور لوکل سیاست کو سوشلزم کی کسوٹی پر پرکھتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات اس کی باتوں میں سٹیریو ٹائپ سوچ کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے۔۔! دونوں کے مزاج میں اتنا فرق کیوں ہے ؟ اس سوال کا جواب ہمارے ثقافتی پس منظر سے جُڑا ہوتا ہے۔ اس لئے ثقافتی پہلو کو سیاست سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو کمیونٹی اپنی ثقافتی جڑوں سے کٹ جاتی ہے اس کے رویے اور انداز سیاست پھوڑ پن کا شکار ہو جاتا ہے ۔ وہ اپنے علم کو کمیونٹی کی سطح پر ٹرانسلیٹ کرنے میں دقت محسوس کرتی ہے ۔ ایسی کمیونٹی کے سیاست دانوں میں سیاسی تضادات واضح طور پر محسوس کئے کا سکتے ہیں ۔
ان دونوں دوستوں کے ساتھ مختلف سیاسی ایشوز پر بات ہو رہی تھی اور اچانک انڈیا کا ذکر آیا تو عاصم نے اس معاملے پر بہت ہی ایکسٹریم پوزیشن لے لی اور کہنے لگے کہ مودی نے انڈیا کو برباد کر دیا ہے ۔انڈیا اب صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داری کا گڑھ بن چُکا ہے وہاں پر اب ہندوازم اپنی فاشسٹ شکل اختیار کر چُکا ہے۔ آسام کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں تیس سے چالیس لوگ روزانہ ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ریاست مروا دیتی ہے۔ یہی حال کشمیر کا ہے۔ ان باتوں سے مجھے ایسے لگا جیسے وہ اردو اور پنجابی اشرافیہ کے بیانیے کا اظہار کر رہے ہوں ۔ انڈیا دُشمنی ہماری مقتدرہ کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور ہماری مقتدرہ کے ثقافتی ڈھانڈھے کہاں ملتے ہیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ویسے پاکستان کے اندر ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کارناموں سے تو وہ خوب واقف الحال تھے اور ان پر اپنی بہتر سیاسی پوزیشن بھی رکھتے تھے مگر عالمی تناطر میں ان کی سیاست مختلف نقطہ نظر اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔ اس کے بر عکس بخشل کے مزاج میں ٹھہراؤ تھا، امپارشیلٹی تھی اور معروضی حالات کو سمجھنے کے چاہ تھی۔ ان دونوں شخصیات کے اس پہلو پر میں رات کو کافی دیر تک سوچتا رہا تو مجھے اندازہ ہوا کہ سندھ خطہ دھاڑیل طبقات کے خلاف جو مزاحمت کی بہت بڑی تاریخ رکھتا ہے وہ ان کی ثقافت کا حصہ بن چُکی ہے جس کی وجہ سے ان کو سیاست کرنے کا ڈھنگ بہتر طریقے سے آتا ہے جبکہ دوسری طرف ثقافتی رنگ ماند پڑنے اور ثقافتی لگیسی سے لا تعلق ہونے کی وجہ سے تھوڑی سی فرسٹریشن کا رنگ زیادہ نمایاں تھا۔ مگر دونوں اپنے اپنے تئیں اپنے کاز کے ساتھ بہت کمٹڈ اور ڈیوٹڈ تھے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ