ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تم سی آر تھے اور اناٹومی کے پروفیسر راجہ صاحب تبدیل ہو کر جا رہے تھے جن کی الوداعی پارٹی نشتر میڈیکل کالج کے ” کواڈرینگل ” میں ہونا تھی مگر میں مردم بیزار اس پارٹی میں شمولیت سے گریزاں بلکہ انکاری تھا، کسی نے تمہیں بتا دیا کہ مرزا نہیں آ رہا۔ تم خاص طور پر قاسم ہال میں میرے کمرے میں آئے اور ڈانٹ کے کہا کہ تم پندرہ منٹ میں نہ صرف پہنچ رہے ہو بلکہ الوداعی نظم بھی پڑھ رہے ہو۔ میں ہکا بکا مگر تم سرائیکی میں ” ہوج اے ” کہہ کے نکل گئے۔ میں نے :
راجہ ہیں راجہ راجان جہاں کے راجہ
نظم گھسیٹی اور تمہاری ہوچ یعنی حجت پوری کی۔
تم کپڑے بہت اچھے پہنتے تھے۔ میں نے پوچھا یار یہ ٹرینڈی کپڑے کہاں سے لیتے ہو۔ تم نے کہا لنڈے سے۔ میں سمجھا مذاق کر رہے ہو۔ یہ تو بہت بعد میں جب تم انگلستان سے پلاسٹک سرجن بن کے نشتر ہسپتال میں کام کرنے لگے تو مجھے تم نے اپنے کرائے کے گھر کی چھت پہ رات کو چارپائیوں پر لیٹ کے داستان سنائی تھی کہ تم کس طرح مشکل سے نہ صرف اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرتے بلکہ بوڑھے پنشنر والد کی بھی مدد کرتے تھے اور یہ کہ وہ بھڑکداد لباس واقعی سیکنڈ ہینڈ ہوتے تھے جنہیں تم آلٹر کروا کے پہنتے تھے۔
پھر تم نے داستان سنائی تھی کہ کس طرح تم ملازمت کے لیے عراق گئے کہ جنگ ہو گئی اور تم کن راستوں سے کیسے نکل کے لوٹے تھے اور پھر اپنے قصبہ جلال پور پیرووالہ میں سرجری کی پریکٹس کرنے لگے تھے جو بہت ہی اچھی چلنے لگی تھی۔ پھر تمہارا بیاہ ہو گیا اور تم اپنے ہم زلف ڈاکٹر افتخار کے اصرار پر انگلستان سدھارے اور کس شوق سے تم نے پلاسٹک سرجری میں تخصص حاصل کیا۔
میرے بائیں ہاتھ کی پشت پر ” گینگلیان ” ابھر آیا تھا۔ تم نے ملتان کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں اس کی جراحی کی۔ اتنی مہین جراحی کہ چند ماہ بعد نشان تک باقی نہ رہا۔ تم نے یہ معمولی آپریشن ” بائر بلاک ” لگوا کے کیا تھا۔ جس میں بازو کو اوپر سے سختی سے جکڑ کے بیہوش کرنے کی دوا کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ بازو سن ہو جاتا ہے۔ میں چونکہ وہمی ہوں۔ یہ بھی پڑھا ہوا تھا کہ اگر بییوشی کے ٹیکے کی دوا دل تک پہنچ جائے تو مہلک ہوتی ہے۔ جب ہم دونوں ہسپتال سے باہر نکلے تو میں نے کہا،” ابرار میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔ کہیں دوا دل تک تو نہیں جا پہنچی۔ تم نے مجھے دو چار سنائیں اور جوس لے کے دیا کہ پیو تاکہ تمہارا مزاج بحال ہو۔
پھر میں تمہیں ابوظہبی میں ملا۔ تمہارے ہاں مہمان ہوا۔ ہم نے وہ رات نشتر کے طالبعلموں کی طرح گذاری تھی۔ کچن سے کچھ لینا چاہا تو تم بولے یار گھر کے اصول تو پامال نہ کرو۔ اگلے روز تم نے اپنے ہسپتال سے نہ صرف میرا چیک اپ کروایا بلکہ پراسٹیٹ کے لیے مہنگی دوا بھی اپنے ہسپتال سے اپنے نام پر لے کر مجھے دی تھی۔ اگلے روز جب میں دبئی واپس جانے لگا تو تم نے مجھے پانچ سو ریال دیے اور کہا جا مزے کر۔
پھر تم سعودی عرب میں متعین تھے۔ میں 2013 میں حج پہ گیا تو تم سے رابطہ ہوا مگر تم دور کے شہر دمام میں تھے اور ملنے نہیں آ سکتے تھے۔ میں تو تھا ہی حج کے ویزہ پر، مکہ مدینہ سے نہ نکل سکتا تھا۔
2016 میں ملتان میں تمہاری اس کوٹھی، جو تم نے شوق سے اور محنت کی کمائی سے تیار کروائی تھی، کے لان میں ہم چار کلاس فیلوز نے بیٹھ کے چائے پی اور سنیکس لیے تھے۔ تم نے میری جان عذاب میں ڈال دی تھی کہ کیوں تمہارا کوئی اپنا گھر نہیں ہے۔ میرا گھر چونکہ نہ تھا اور ہونے کی توقع تھی تو میں نے تمہیں بے نقط سنا کے جان چھڑائی تھی۔
جب جانے کے لیے گیٹ سے باہر نکلے تو تم نے بانہیں پھیلا کے مجھے کہا ،” یار مرزا گلکھڑی پا متاں نہ ملوں” ( یار مرزا گلے لگو شاید نہ مل پائیں)۔ میں تمہاری بات سن کے پریشان ہوا تھا اور تمہیں گالی دے کے گلے لگا تھا۔
میں 2019 میں پھر سعودی عرب گیا مگر تم وہاں سے جا چکے تھے۔ تم نے مجھ سے 2020 میں رابطہ کیا اور بتایا کہ تمہاری اہلیہ ملتان کی اسی کوٹھی میں اپنی ضعیف مریض والدہ کی دیکھ بھال کے لیے جا چکی ہے۔ تم سعودی عرب سے ملازمت ختم کرکے انگلستان پہنچ گئے ہو مگر ایپسوچ والے اپنے گھر کی بجائے لندن میں بیٹی کے ساتھ مقیم ہو۔۔ اور یہ کہ تم نے پیشہ تبدیل کر لیا ہے اور پلاسٹک سرجری کی بجائے جلد کے کینسر کی سرجری کرنے لگے ہو جو آسان بھی ہے اور پیسے بھی اچھے ملتے ہیں ۔
تین چار ماہ سے تمہارا کوئی فون نہیں آیا تھا اور میں تو فون کرنے کے معاملے میں ویسے ہی سست ہوں۔ کل دن کے گیارہ بجے کلاس فیلو وٹس ایپ گروپ کھولا تو احسان نے تمہاری اچانک رحلت بارے خبر دی ہوئی تھی۔ دل حلق میں آ اٹکا۔ یقین نہیں آ رہا تھا جب تک کہ میں نے تمہارے بڑے بھائی عرفان کو فون کرکے تصدیق نہیں کر لی۔
تم اپنی چاروں بیٹیوں سے بے حد پیار کرتے تھے مگر اطلاع کے مطابق جب تمہارے مضبوط دل نے، اس بارے میں تم اکثر بتاتے تھے، یک لخت رک جانے کے فیصلے پہ عمل کر دیا تو تمہارے پاس کوئی بھی نہیں تھا کیونکہ تم کینٹربری کے ہسپتال جہاں تم سرجن تھے، کی رہائش گاہ میں تھے۔ کہتے ہیں کہ تم فون پر بیٹی سے بات کرتے کرتے سب سے منہ موڑ گئے۔
حد ہے بھئی ” تم تو کہتے تھے بہار آئی تو لوٹ آوں گا”، ہم جماعت دوستوں نے مارچ کے وسط میں تمہاری اس کوٹھی کے پاس جس کو تعمیر کروا کے بھی تم اس میں نہ رہ سکے، نشتر میڈیکل کالج میں ملنے کی ٹھانی ہے۔ اب تو وہاں تمہارا نوحہ ہی پڑھا جائے گا۔
الوداع جانی !
۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر