دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دسمبر رواں دواں ہے!||ظہور دھریجہ

بلوچستان کے بڑے شہر کوئٹہ اور سوئی میں ابھی گیس نہیں آئی تھی مگر پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے گیس پر تھے ۔گیس قومی دولت ہے مگر اسے بیدردی سے خرچ کیا گیا ۔ اب بھی فواد چودھری کی بات بیان کی حد تک ہے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر کا مہینہ رواں دواں ہے ۔ سردی بھی عروج پر ہے ، گیس کی لوڈشیڈنگ بھی بڑھ گئی ہے ۔وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ ملک میں اگلے چند سالوں میں گیس ختم ہو جائے گی ۔ ہر سال9 فیصد گیس کم ہو رہی ہے ۔

بڑے شہروں کے لوگ جو سستی گیس کے عادی ہو چکے ہیں انہیں عادتیں بدلنا ہوں گی۔ فواد چودھری کی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ گیس کی بچت ہونی چاہیئے ۔ مگر یہ بھی دیکھئے کہ گیس بلوچستان کی معدنی دولت ہے اور اس کا مرکز سوئی کے مقام پر ہے اسی بناء پر اسے سوئی گیس بھی کہا جاتا ہے ۔

بلوچستان کے بڑے شہر کوئٹہ اور سوئی میں ابھی گیس نہیں آئی تھی مگر پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے گیس پر تھے ۔گیس قومی دولت ہے مگر اسے بیدردی سے خرچ کیا گیا ۔ اب بھی فواد چودھری کی بات بیان کی حد تک ہے ۔

قومی دولت کو بچانے کیلئے اقدامات کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ فواد چودھری صاحب دسمبر کی سردیوں میں بھی لطیفہ نما ٹھنڈے بیان دیتے رہتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہے مگر اس کا اثر پاکستان نہیں پہنچا ۔یہ کیسا اثر ہے کہ اضافے کا اثر فوراً سے بھی پہلے پہنچ جاتا ہے جبکہ کمی کا اثر پاکستان پہنچنے سے پہلے دم توڑ جاتا ہے ۔ فواد چودھری صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا رونا رویا جاتا ہے اگر تین روپے والی گولی سات روپے ہو گئی ہے تو کون سی قیامت آ جائے گی ۔

چودھری صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ قیمتیں کم ہو رہی ہیں آلو،ٹماٹر کے ریٹ نیچے آ گئے ہیں۔سوال یہ ہے کیا اشیائے ضرورت صرف آلو،ٹماٹر کا نام ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کم ہے مگر دوسرے ملکوں میں فی کس آمدنی کا بھی تو موازنہ ہونا چاہیئے۔فواد چودھری کہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے جبکہ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق صرف نومبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح11.5فیصد بڑھی ۔

دسمبر کی جہاں دیگر ستم گریاں ہیں ان میں اس طرح کے بیانات عوام پر مزید ستم ڈھانے کے مترادف ہیں۔ دسمبر کی ستم ظریفیوں میں ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر پی ڈی ایم کے وہ رہنما بھی آئے ہوئے تھے ، جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا نظریہ ’’ نظریہ ضرورت ‘‘ بن چکا ہے ۔ دسمبر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انگریزی کیلنڈر میں دسمبر اور دیسی کیلنڈر میں پوہ منگھر جسے ہم سرائیکی میں ’’پوہ مانگھ‘‘ کہتے ہیں، کو یادوں کو مہینے کہا جاتا ہے۔

جونہی یہ مہینے شروع ہوتے ہیں، سرد ہوائیں چلتی ہیں تو ہر انسان یادوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید نے کہا’’اج مانگ مہینے دی یارہی وے ،کیوںبیٹھیں یار وساری وے‘‘ اس مفہوم یہ ہے کہ آج منگھر کی گیارہ تاریخ ہو گئی ہے تو نے اپنے محبوب کو کیوں بھلایا ہوا ہے۔ اسی طرح سرائیکی دھرتی کے ایک اور عظیم شاعر محسن نقوی نے اردو میں کیا خوب کہا۔ ٹھنڈی ہوائیں کیا چلیں مرے شہر میں محسن ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا یہ ٹھیک ہے کہ 25 دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش بھی ہے اور کرسمس کا تہوار بھی ، مگر دسمبر بہت ستم گر ہے، اس کی یادیں خوشگوار نہیں کہ اسی مہینے سقوط ڈھاکہ ہوا ، لاکھوں لوگ مارئے گئے اور ہم اپنے لخت جگروں کے ساتھ آدھے ملک سے بھی ہاتھ بیٹھے، اسی مہینے سندھ ماں دھرتی کی عظیم بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کی لاش گڑھی خدا بخش پہنچی۔

اسی مہینے سانحہ پشاور پیش آیا ،جس کے نتیجے میں ہمارے سینکڑوں لخت جگر ہم سے جدا ہوئے ، اسی موقع پر کہا گیا کہ ’’ جنازوں پر پھول ہمیشہ دیکھے ، مگر پھولوں کے جنازے پہلی مرتبہ دیکھے ۔‘‘ صحافت کے طالب علم اور محرومی کا شکار’’ پس افتادہ‘‘ سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کی حیثیت سے پاکستانی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو کوئی لمحہ، کوئی دن اور مہینہ ایسا نہیں جو زخموں سے چور لہورنگ نہ ہو لیکن آج دسمبر ہے تو کیوں نہ اس کی یادیں تازہ کریں۔ دسمبر کی دوسری بے شمار ستمگریوں میں ایک19 دسمبر 1984ء کو کرایا جانیوالا ضیا الحق کا ریفرنڈم بھی تھا، اس فراڈ ریفرنڈم میں یہ نہ پوچھا گیا کہ صدر کون ہو؟

بلکہ ایک سوال نامہ جاری کیا گیا جس کا ’’ ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ میں جواب دیناتھا، ریفرنڈم میں واضح کیا گیا تھا کہ’’ہاں‘‘ کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آئندہ پانچ سال کیلئے ضیاء الحق آئینی طور پر ملک کے منتخب صدر ہوں گے۔ سوال یہ تھا کہ’’کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کے قوانین کو قرآن حکیم اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے شروع کیا ہے‘‘ پاکستانی عوام نے جنرل ضیاء الحق کے’’فراڈ‘‘ کو مسترد کیا اور وہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہی نہ گئے اور سرکاری اہلکاروں نے پرچیوں پر مہریں مارنے کا فریضہ سرانجام دیا،

یہ اس جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم تھا جو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 کے الیکشن میں ’’جھرلو‘‘ کے الزام میں برطرف کیا تھا۔دسمبر کے ہزاروں دکھ ہیں ، کس کس کا ذکر کریں ، معروف شاعر عرش صدیقی کا بیٹا اسی مہینے جدا ہوا تو انہوں نے ایک خوبصورت نظم لکھی۔ نظم کا عنوان ہے ’’ اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے ‘‘ ۔ آپ بھی ملاحظہ کریں : اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گھپا میں ڈوب جائے گا اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا مگر جو خون ہو جائے گا جسموںمیں نہ جاگے گا اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں شگونے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے اسے کہنا گر سورج نہ نکلے گا تو کیسے برف پگھلے گی اسے کہنا لوٹ آئے دسمبر آ گیا ہے

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author