رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خستہ حال معاشرے اور کمزور ریاست میں صرف چوروں کے وارے نیارے ہیں۔ اگر چوروں کی مختلف اقسام کی فہرست بنائی جائے تو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میدان میں شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہمارے قریب سے بھی گزر سکے۔ بات سادہ سی ہے۔ اگر اوپر والے لوٹ مار کرکے ریاستی اداروں کو کمزور کر دیں‘ لٹھ بردار پولیس پر حملے کرکے انہیں شہید کرتے رہیں اور معافی تلافی ہو جائے اور دہشتگردوں کے ساتھ معاملات اس طور طے ہوں کہ جو فساد پھیلاتے اور پاکستان کے شہریوں کا قتلِ عام کرتے رہے‘ وہ آزاد پھریں تو چوروں کی پکڑ دھکڑ تو کیا‘ ان سے کوئی سوال کرنا ہی مشکل ہو گا۔ یہ سب ریاست کے عروج اور طاقت کی نہیں‘ زوال اور کمزوریوں کی نشانیاں ہیں۔ اب شنید ہے کہ محترم خان صاحب پنجاب میں ایک ایسی نئی مذہبی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کے بارے میں سوچ رہے ہیں‘ جس کا نظریہ‘ سوچ اور تحریک سانحہ سیالکوٹ کے محرکات میں سے ہے۔ ایسی جماعتیں جناب عالی ایک غبار کی طرح اٹھتی اور بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ خان صاحب جانیں اور ان کی مخصوص دانش مندی جانے۔ ہمارا خیال تھا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق کی مذہب کو استعمال کرنے کی پالیسی سے کچھ سیکھا ہو گا۔ لگتا ہے‘ وہ بھی مذہبی کارڈ کھیلنے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں‘ اور ویسے وہ ”ریاست مدینہ‘‘ کی باتیں کر کے اس کا آغاز پہلے سے کر چکے ہیں۔ بہرحال لوگ موجودہ صورت حال سے کچھ زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے۔ اللہ خیر کرے‘ ہم کہاں جا رہے ہیں‘ نہ کوئی سمت‘ نہ کوئی قبلہ‘ بس وہی پُرانی نعرے بازی‘ خود فریبی‘ اور اصل مسائل پر کوئی توجہ نہیں۔
ملکی حالات ہمارے یا کسی اور ملک کے ایسے ہو جائیں‘ تو جہاں کہیں کوئی چور چھپا ہوا ہے‘ وہ دلیر ہو کر دن دہاڑے ڈاکے ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ جب سیاسی قیادت تضادات کا شکار ہو تو نوکر شاہی اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیتی ہے۔ سنا ہے عمران خان صاحب ایمان دار ہیں‘ اور ابھی تک اس درویش کو یقین ہے کہ جو دھندا سیاسی گدی نشین نصف صدی تک کرتے رہے ہیں اور پاکستان کو موجودہ صورت حال تک پہنچایا ہے‘ وہ ایسا نہیں کریں گے‘ مگر ان کی حکومت میں مرکز اور پنجاب میں جو کچھ ہوتا دیکھ رہا ہوں‘ وہ گزشتہ ادوار سے مختلف نہیں۔ یہ بھی میں یقین کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ذاتی تجربہ‘ مشاہدہ اور معتبر لوگوں سے بات چیت کا نتیجہ ہے۔ دیگر واقعات کی تفصیل کبھی وقت آنے پر لکھوں گا۔ اس وقت ایک تازہ واقعہ ذہن میں ہے اور اس کا تعلق ہماری قومی معیشت‘ سماجی ناہمواری اور ریاستی استعداد سے ہے۔ گھر میں مہمان آئے تو ہمیشہ کی طرح خورونوش کا اہتمام کرنا ہماری ذمہ داریوں میں سے ہے۔ ہمارے ہاں بھی بھیڑ چال کا رواج ہے کہ کوئی قلفی والا‘ مٹھائی‘ مچھلی تلنے اور صبح سویرے سری پائے بنانے والے مشہور ہو جائے تو وہاں لائنیں لگ جاتی ہیں کہ اس سے بہتر نہ کسی نے کوئی چیز بنائی ہے اور نہ ایسا کرنا ممکن ہے۔ مجھے بھی ایک مخصوص دکان سے گاجر کا حلوہ لینے کے لیے دوڑایا گیا تھا۔ وہاں چھوٹی سی دکان میں تقریباً دس کے قریب مرد اور عورتیں ٹکٹکی باندھے مٹھائی تولنے والے کو دیکھ رہے تھے کہ اسے فرصت ہو تو اس کی آنکھیں انہیں دیکھ اور اس کے کان ان کے آرڈر کو سن سکیں۔ سوائے اس درویش کے کسی نے اس بھیڑ میں ماسک نہیں پہنا ہوا تھا۔ آخر ہماری باری آئی‘ سوچا پھر نہ چکر لگانے پڑیں‘ دو ایک اور چیزیں بھی خرید لیں۔ ہرجانہ ساڑھے تین ہزار روپے کے قریب تھا۔ جیسا کہ اپنا دستور ہے‘ درخواست کی کہ رسید دے دیجیے گا۔ کچھ سوچ میں پڑنے کے بعد کیش رجسٹر سے رسید بادلِ نخواستہ نکل ہی آئی۔ دیکھا‘ اس میں دو سو روپے کے قریب ٹیکس تھا۔ باہر نکل کر کھڑا ہو کر ہر خریدار سے سوال پوچھا ”رسید لی ہے؟‘‘ سب نے حیرت سے جواب دیا ”نہیں‘‘۔ ایک نے کہا: رسید لینا کوئی ضروری ہے‘ ہم نے مٹھائی لی‘ اس کو پیسے دے دیے‘ رسید وسید کے چکر میں پڑنا کوئی ضروری ہے؟ ایک خاتون کے نوکروں نے دو ٹوکرے مٹھائی کے اٹھا رکھے تھے۔ حلیہ دیکھ کر اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی آزمائی۔ مطلب یہی تھا کہ رسید تو لی ہو گی؟ ان کے چہرے پر حیرت کئی گنا زیادہ دیکھی۔ یاد پڑتا ہے کہ چھ لوگوں سے یہ مختصر انٹرویو اتنے ہی منٹوں میں کیا ہو گا۔ چونکہ حلوائی کا کارندہ یہ ڈرامہ دیکھ رہا تھا‘ تو ذرا خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں کسی کو دھکا نہ دے دے‘ چنانچہ بھاگنے کی راہ لی۔
حلوائی کی یہ مشہور دکان اسلام آباد میں قلفی بنانے سے شروع ہوئی تھی۔ لوگوں نے جب قلفی کو پسند کیا تو حلوائی نے برفی بھی سجا دی۔ وہ بکنے لگی تو گلاب جامن‘ لڈو اور نہ جانے کیا کیا شیلفوں پہ نظر آنے لگا۔ شہر کے دو تین بڑے مراکز میں اب حلوائی کی سویٹس کی برانچیں ہیں۔ خوشی ہو گی کہ وہ مزید پھولیں پھلیں‘ مگر چوری سے نہیں‘ دیانت داری اور واجب ٹیکس گزاری سے۔ جو میں دس پندرہ منٹوں میں اندازہ لگا سکا ہوں‘ اس محدود وقت میں تیس ہزار کے لگ بھگ مٹھائی فروخت ہوئی ہو گی‘ اور رسید صرف ہماری خرید کے لیے جاری ہوئی‘ کہ ہم کسی اور تہذیب کی مخلوق ہیں۔ ہر دن لاکھوں کا کاروبار ہے‘ مگر وہ آمدنی دستاویزی نہیں‘ سب کیش سے چلتا ہے کہ دولت سرکار کے کھاتے میں ظاہر نہ ہو جائے۔
حلوائی جیسے کئی چور بازاروں میں بیٹھے ہیں۔ کسی کو کوئی پروا نہیں کہ ٹیکس کے محکمے بھی تو چوروں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس افراتفری کے عالم میں غریبوں اور ملک کا کون سوچتا ہے؟ چند ہفتے ہوئے‘ اسلام آباد کے کسی اور ہرے بھرے بازار میں تقریباً ایک لاکھ سے کہیں زیادہ سینیٹری کے سامان کی خریداری کی۔ دکان دار سے کہا کہ چیک لے لو یا ڈیبٹ کارڈ سے وصولی کر لو۔ جواب ملا: بالکل نہیں‘ ہم تو کیش پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کام بھی روزانہ لاکھوں میں ہے۔ کس کس اور کہاں کہاں کی بات کروں۔ ایسا لگتا ہے‘ ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقہ ہی ادا کرتا ہے۔ وہ بھی ہماری مجبوری ہے کہ ہر ماہ ٹیکس نکال کر ادارے کو جمع کرا دیا جاتا ہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ ہمارے ہر شہر کے بازاروں میں اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے‘مگر سب کیش پر۔
کتنی حکومتیں آئیں اور سمیٹ کر رخصت ہو گئیں‘ مگر معیشت کو دستاویزی نہ بنا سکیں۔ کالا دھن‘ اور متوازی چلتی معیشت ایسے ایک دن میں تو پیدا نہیں ہوئے۔ آہستہ آہستہ سب کچھ بگڑتا چلا گیا۔ کسی کو شک ہے تو خود تجربہ کر کے دیکھ لے‘ یا کچھ یاد کرے کہ کب کوئی رسید طلب کی تھی۔ ہم بھی تو جہاں لاکھوں کا سامان خرید کرتے ہیں‘ وہاں چند ہزار ٹیکسوں کی مد میں دینے کے لیے تیار نہیں۔ چور تو پھر ایسے پیدا ہوتے رہیں گے‘ ارتکازِ زر بڑھتا رہے گا‘ اور عدم مساوات معاشرے میں پنپتی رہے گی۔ ہم نے تو صرف کمزور ریاست اور معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کی نشان دہی کے لیے ٹیکس چور حلوائی اور سینیٹری والے کی آپ بیتی سنائی ہے۔ یہ تو ریاست کا کام ہے کہ کاروباری سرگرمیاں دستاویزی ہوں اور چوری کرنے والے کو پکڑا جائے۔ ہم کس کس کی شکایت کریں‘ کس کس کے بارے میں دہائی دیں‘ کدھر ہے وہ تبدیلی سرکار؟ شہرِ اقتدار میں چور بازاری زوروں پر ہے‘ باقی شہروں کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ