جام ایم ڈی گانگا
03006707148
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین کرام،، بلاشبہ ضلع بہاول نگر سرائیکی وسیب کے ڈویژن بہاول پور کا قدیمی حصہ ہے.نئی اور پرانی آباد کاری کے نتیجہ میں یہاں پر یقینا ماضی کی نسبت ڈیموگرافی خاصی تبدیل ہو چکی ہے. جس طرح کچھ عرصہ سے ضلع بہاول پور کی تحصیل یزمان اور تقریبا پورے روہی چولستان کی ڈیمو گرافی کو سرکاری سرپرستی میں بڑی مہارت و چالاکیوں کے خاصا تبدیل کیا جا چکا ہے اور مزید کوششیں ہنوز جاری ہیں.ٹبہ سمیجہ والا کا واقعہ کل کی بات ہے.جعلی کلیموں اور بوگس الاٹ منٹوں کی داستانیں اور بڑے بڑے شراکت داروں کے کرتب عوام نہ سہی لیکن بہت سارے لوگ جانتے ہیں.بس ظلم دے اگوں زاری یا وت کجھ مفاد دے پجاری بیڑہ غرق کیے ہوئے ہیں. کسی خطے کی کسی ظاہری و باطنی مصلحت، سمجھوتے کے تحت یا جبرا ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کے اکثر جگہوں پر نتائج فوری اور بظاہر ترقی و خوشحالی کا رخ اور چہرہ پیش کرتے ہیں مگر کچھ ناعاقبت اندیش، تنگ نظر، تنگ دل، احساس فراموش، عدم برداشت کی سوچ کے حامل گروہوں، لالچ و بعض بھرے دماغوں کی وجہ سے حالات آہستہ آہستہ بتدریج خراب ہونے لگتے ہیں.چند حریص اور مفاد پرست لوگوں کی وجہ سے پورے علاقے، وسیب اور دیس کا ماحول بگڑنے لگتا ہے.حملہ آورز کے روپ میں آنے والے، تجارت کے روپ میں آنے والے،مہاجرین کی شکل میں آنے والے، آباد کاری کے روپ میں آنے والے، کسی جگہ یہ نئے آنے والے صاحبان کا اس نئی دھرتی کی مٹی میں جذب نہ ہونا، وہاں کی تہذیب و ثفافت،رسم و رواج، زبان و ادب سے اُوپرے پن کی وجہ سے باہم جو خلیج سی رہ جاتی ہے.وہ اندرونی فاصلوں اور دوریوں کا باعث بنتی رہتی ہے. بھائی چارے کو جب تعصب کی نظر لگتی ہے تو بھائی ختم اور باقی چارہ رہ جاتا ہے.چارہ ہضم پیچھے بے چارگی رہ جاتی ہے. یہ خلیج ایک معمولی اندرونی زخم کی مانند آہستہ آہستہ بڑھتی رہتی ہے بلاآخر ایک ناسور اور کینسر کی شکل اختیار کر لیتی ہے. سیاسی ہوں یا سماجی، معاشرتی ہوں یا معاشی الغرض یہ تفریق، زخم اور خرابی چاہے کسی بھی قسم کی ہو ابتدا میں طرفین کے روادار، معتدل اور مثبت سوچ کے حامل لوگوں کی بروقت توجہ سے ٹھیک ہو جاتے ہیں. چھوٹے چھوٹے انتظامی، معاشرتی و سماجی مسائل عدم توجہی اور لاپرواہی کی وجہ ایک گھمبیر شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں. جسم کے معمولی زخم کی طرح ناسوری کیفیت تک پہنچنے پر پورے جسم کو متاثر کرتے ہیں نقصان دیتے ہیں کئی مزید بیماریوں اور خرابیوں کا باعث بنتے ہیں. کسی بھی معاشرے اور ملک میں اس قسم کی سوچ اور رویے یقینا بڑے بڑے سانحات کا سبب بن جاتے ہیں. تعصب کی ہوا بڑی تند و تیز ہوجاتی ہے نفرتیں پھیلاؤ اختیار کرکے قبیلوں و قوموں،مذہب و مسلک، تہذیبوں وغیرہ کے ٹکراؤ کا باعث بن جاتی ہیں. یہ کوئی مبالغہ آرائی والی بات ہرگز نہیں ہے. اتنی لمبی تمہید کے بعد میں آگے جو اہم مسئلہ آپ سب کے ساتھ شیئر کرنے جا رہا ہوں اس پر غیر جانب داری اور تحمل کے ساتھ سے غور کرنے کی ضرورت ہے. اقتدار و طاقت کے بل بوتے پر اور قبضہ گیری کی سوچ کے غالب ہو جانے کی وجہ سے اندھے پن کا مظاہر یقینا مستقبل میں ہم سب کو کسی سانحے کی طرف لے جا سکتا ہے.ذرا تاریخ کے چند اوراق دیکھ اور پڑھ لیں پسماندگی کا شکار بنگالی بھائیوں کے بارے میں یہاں کیا کیا کہا جاتا تھا. آج بھی یہ آوازیں آخر کیوں آنے لگی ہیں کہ سرائیکیوں کے ساتھ بنگالیوں والا سلوک نہ کریں.اگر آج اس سوچ کا تدارک اور علاج نہ کیا گیا تو یہ سفر کرتے کرتے کہاں تک پہنچ سکتی ہے. میری باتیں یقینا بہت سارے لوگوں کو جذباتی اور تلخ سی لگ رہی ہوں گی.میں یقین کامل کے ساتھ کہہ رہا کہ یہ سچائی کی علامت ہے اور ماں دھرتی سے محبت کا ثبوت ہے. یہ توڑنے والوں کے مقابلے میں جوڑنے والی سوچ ہے.
محترم قارئین کرام،، میں آپ کے ساتھ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین بہاول نگر شعبہ سرائیکی کی لیکچرار مس شگفتہ ناز کی 12دسمبر2021ء کو ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز بہاول نگر کو دی جانے والی ایک درخواست کا مکمل متن آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں. جس کی کاپیاں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب لاہور، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کیمشن ساؤتھ پنجاب ملتان، ڈی پی آئی کالجز پنجاب لاہور اور ڈائریکٹر ایجوکیشن کولجز بہاول پور کو بھی بھیجی گئیں ہیں. ملاحظہ فرمائیں
ُ ُ گزارش ہے کہ زیر دستخطی گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین بہاولنگر میں بطور لیکچرار سرائیکی دسمبر 2017ءسے تعینات ہے. کالج میں طالبات سرائیکی پڑھنا چاہتی ہیں اور ہمیشہ سرائیکی رکھتی رہی ہیں. کالج پراسپیکٹس میں بھی سرائیکی کا مضمون ظاہر کیا گیا ہے لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ کالج انتظامیہ کی طرف سے اے. ڈی پی.، کی طالبات کو الگ سے لسٹ دی گئی جس میں سرائیکی کا مضمون شامل نہیں کیا گیا اور انہیں اسی لسٹ میں سے مضمون کا انتخاب کرنے کا کہا گیا ہے جب کہ پچھلے اے ڈی پی کے دوسرے سمسٹر میں سو (100) طالبات نے سرائیکی مضمون کا انتخاب کیا تھا
مزید برآں فرسٹ ائیر کی طالبات جھنوں نے سرائیکی رکھی ہے انہیں مضمون تبدیل کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے اور طالبات کے علم میں لائے بغیر ان کا مضمون تبدیل کر دیا گیا ہے. اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے زیر دستخطی کا ورک لوڈ ختم کیا جا رہاہے کہ زیر دستخطی کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور سرائیکی کی سیٹ کو ختم کرنے کا جواز بنایا جا سکے. مزید یہ کہ اس رویے سے لسانی تعصب کو ہوا مل رہی ہے اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کالج انتظامیہ سرائیکی زبان کے خلاف ہے اور نہیں چاہتی کہ پنجابی علاقے میں سرائیکی پڑھائی جائے. میری آپ سے استدعا ہے کہ کالج انتظامیہ کا یہ عملMisconduct کے زمرے میں آتا ہے. لہذا پرنسپل گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین بہاول نگر کے خلاف کارروائی کی جائے
آپ کی عین نوازش ہوگی. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، کالج انتظامیہ اور پرنسپل بتائے. کہ کالج مذکورہ میں طالباب کو علیحدہ لسٹ دینے کا کیا مطلب ہے. اس لسٹ میں سرائیکی مضمون کو ڈراپ یا غائب کرنے کی آخر منطق اور حکمت کیا ہے آخر عوام کو کالج انتظامیہ کے اس فیصلے اور عمل کے فوائد کے بارے میں بھی علم ہو سکے.خطہ سرائیکستان کی پرامن و خوشحال دھرتی کے فراغ دل و سخی لوگوں نے اسلام، بھائی چارے اور پاکستان کے نام پر جو قربانیاں دی ہیں. جس خلوص و محبت اور ایثار کے جذبے کا مظاہرہ کیا ہے اس پر کالم تو کیا بڑی کتاب لکھی جا سکتی ہے.کونسی زبان، تہذیب و ثقافت کتنی پرانی و قدیمی ہے.بڑی ہے یا چھوٹی ہے. اس بحث میں اب جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے.سرائیکی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کی قدامت مسلمہ حقیقت ہے. سرائیکی وسیب کی دھرتی پر اب سرائیکی پنجابی بھائیوں کی باہم رشتے داریاں ماضی کی نسبت خاصی بڑھ چکی ہیں شراکت داری سے کاروبار چلائے جا ریے ہیں باہم مل کر سیاست سیاست بھی کھیلی جا رہی ہے. لوگ ایک دوسرے کی شادیوں غمیوں میں دھرتی اور سانجھ کے احساس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ایسے ماحول میں ضلع بہاول نگر میں یہ کون فتنہ پرور اور سازشی لوگ ہیں جو سرائیکی پنجابی کا مسئلہ پیدا کرنے کا ایک نیا محاذ کھولنے جا رہے ہیں.ایسا تو کوئی رنجیت سنگھی سوچ حامل گروہ ، حملہ آور اور قبضہ گیر ہی کر سکتے ہیں. جو کسی علاقے اور خطے کی زمین اور دھرتی پر قابض ہونے کے بعد سب سے پہلے ان کی تاریخ کو مسخ، زبان و ادب کو ختم کرتے ہیں.گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین شعبہ سرائیکی کی لیکچرار مس شگفتہ ناز کی درخواست کو قطعا عام نہ سمجھا جائے بلکہ اس سازشی تھیوری و پریکٹیکل کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے اور اس کے پیچھے بیٹھے سازشی عناصر کو بے نقاب کیا جائے جو سرائیکی وسیب میں تعصب کی فضا اور نفرتوں کے مزید بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں.بہاول نگر میں اگر ہماری سرائیکی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ پنجابی بولنے والی بیٹیاں سرائیکی مضمون پڑھ رہی ہیں اور مزید پڑھنے چاہتی ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے. جو خلیج کو کم کرنے اور نفرتوں کو ختم کرنے کا باعث بنے گی. صرف بدبخت فسادی قسم کے لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگ رہی ہوگی.
محترم قارئین کرام،، میں یہاں پر آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری مادری زبان سرائیکی ہے. ایف اے میں پنجابی میں میں اپنے خواجہ فرید کالج کو ٹاپ کیا تھا.میرے استاد محترم چودھری احمد علی گورایہ صاحب کا کل کی طرح آج بھی میرے دل میں احترام و مقام اور عزت نہ صرف موجود ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ہے. مجھے بے باک قسم کا کالم نگار بنانے میں اپر پنجاب سے تعلق رکھنے والے محترم چودھری امتیاز احمد گھمن صاحب جہاں اور جس ادارے میں بھی ہوں میرے دل میں ان کا بڑا مقام و مرتبہ ہے.
وزیر اعظم پاکستان عمران اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کو چاہئیے کہ وہ گورنمنٹ خواتین کالج بہاول نگر میں کالج انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی سازشی حرکت کا سختی سے نوٹس لیں متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرکے ذمہ داران کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کے احکامات جاری کریں. بہاول نگر سے پروفیسر مس شگفتہ ناز کا بروقت آواز اٹھانا ایک درست عمل ہے سرائیکی وسیب کے علمی و ادبی حلقوں میں بہاول نگر کے معاملے کے بعد اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ نہ جانے اور کتنے کالجز میں سرائیکی مضمون کے خلاف اس قسم کی گھناؤنی و سازشی حرکتیں کی جا رہی ہوں گی.حکومتِ وقت کے ذمہ داران کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس ابتدائی زخم کو کینسر ہرگز نہ بننے دیں فوری توجہ اور بہتر علاج سے اسے ٹھیک کریں اسی میں ہی ہم سب کی بھلائی اور خیر ہے.
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر