کراچی آنے سے پہلے میں نے وی سی آر پر صرف دو ڈھائی فلمیں دیکھی تھیں۔ جتندر کی قیدی، جیکی شیروف کی ہیرو اور علی اعجاز، ننھے اور انجمن کی سالا صاحب۔ 1985 میں کراچی آنے کے بعد پہلی فلم قسم پیدا کرنے والی کی دیکھی۔ اس کے بعد کئی سال تک بنگالی بابو متھن کی کوئی فلم نہیں چھوڑی۔ امیتابھ بچن کی پہلی فلم مرد دیکھی۔ اس کے بعد امیتابھ کی گن گن کر تمام فلمیں دیکھ ڈالیں۔
اس زمانے میں انچولی میں فلموں کے ویڈیو کیسٹ کرائے پر دینے والی کئی دکانیں تھیں۔ انھیں ویڈیو سینٹر کہا جاتا تھا۔ انچولی کی مرکزی شارع پر این کے سینٹر، شہنائی اور ثنا ویڈیو کی دکانیں تھیں۔ دو تین دکانیں النور پر تھیں لیکن میں صرف این کے سینٹر جاتا تھا۔
لیکن پھر اس سڑک پر، جہاں ہمارا گھر تھا، ایک نیا ویڈیو سینٹر کھل گیا۔ میں کئی سال تک وہیں سے فلمیں لیتا رہا۔ وہ ویڈیو سینٹر سلیم بھائی نے اپنے گھر کی ایک دکان میں کھولا تھا۔
سلیم بھائی کا تعلق امروہے سے ہے۔ میانہ قد، مضبوط جثہ، سانولا رنگ اور نشیلی آنکھیں۔ اب بہت موٹے ہوگئے ہیں لیکن اس وقت بھی بھاری تھے۔ محلے داروں کا لحاظ کرتے تھے لیکن متھا گھوم جاتا تو پھر ہتھ چھٹ تھے۔ سنی دیول جیسا ڈھائی من کا گھونسا جس کے پڑجاتا، اسے کلمہ پڑھنے کا موقع بھی نہیں ملتا تھا۔
سلیم بھائی کی والدہ ہماری ممانی کی دوست تھیں۔ سب کے سامنے دوسروں ہی کی نہیں، اپنے بچوں کی بھی عزت افزائی کردیتی تھیں۔ ان کے والد بھی غصے والی شخصیت تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ہر وقت جلال میں رہتے تھے۔ آئے دن لڑکے بتاتے کہ اس بار سلیم بھائی کے والد نے کس کو کس برے طریقے سے دھویا۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا، ایک بار بھی نہیں کہ انھوں نے مجھے کچھ کہا ہو۔ انکل اور آنٹی دونوں نے ہمیشہ مجھ سے پیار سے بات کی۔
سلیم بھائی بھی محبت کرنے والے آدمی تھے۔ میں جب ان سے فرمائش کرتا کہ کرائے کا وی سی آر چاہیے تو وہ اسے بغل میں دباکر اور دو تین فیملی موویز کے کیسٹ لے کر گھر چھوڑنے آتے۔ بہت قاعدے سے ہماری امی اور نانی اماں کو سلام کرتے۔ میرے چہرے پر کئی تل ہیں۔ وہ مجھے تل کا لڈو کہہ کر بلاتے تھے۔
سلیم بھائی کو پڑھنے وڑھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ لڑکپن میں لڑائیاں کرنے کے شوقین تھے۔ تمیزداروں سے تمیز سے بات کرتے اور دوستوں یاروں سے گالی گفتار سے۔ اب ان کے سامنے کون زبان کھولے۔ کسی نے مار کھانی ہے کیا!
سلیم بھائی کے دوست بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے ویڈیو سینٹر کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا تو دوستوں سے رائے لی کہ نام کیا رکھیں۔ ایک ستم ظریف دوست نے سنجیدگی سے مشورہ دیا کہ اینیمل ویڈیو نہایت مناسب نام رہے گا۔ سلیم بھائی نے مشورہ قبول کرلیا۔ وہ تو شکر ہے کہ سائن بورڈ بنوانے سے پہلے کسی مہربان نے انھیں اینیمل کا مطلب بتادیا ورنہ بعد میں مشورہ دینے والے کا کریاکرم ہوجاتا۔
سلیم بھائی کے ویڈیو سینٹر میں دوسری دکانوں کی طرح فلموں کے پوسٹر لگے رہتے تھے۔ تمام ریکس میں بھارتی فلموں اور عمر شریف کے اسٹیج ڈراموں کے کیسٹ سجے رہتے تھے۔ ہر کیسٹ پر فلم کے نام اور کاسٹ کا اسٹیکر لگا ہوتا تھا۔ شیشے کے کاؤنٹر میں جو کیسٹ رکھے ہوتے تھے، ان پر کرکٹ میچوں کے اسٹیکر ہوتے تھے۔
میں کرکٹ کا شوقین تھا۔ اس دور میں اسپورٹس چینل نہیں ہوتے تھے۔ دوسرے ملکوں میں کھیلے جانے والے میچ پی ٹی وی پر براہ راست نہیں آتے تھے۔ بہت دنوں بعد کسی کسی ویڈیو سینٹر پر کسی کسی میچ کی جھلکیاں مل جاتی تھیں۔
ایک دن میں نے سلیم بھائی سے کہا کہ آج فلم نہیں دیکھوں گا۔ کرکٹ میچ دیکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا، میرے پاس کوئی کرکٹ میچ نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سامنے کاؤنٹر کے اندر اتنے بہت سے میچوں کے کیسٹ ہیں۔ کوئی سا بھی دے دیں۔ وہ معنی خیز انداز میں ہنسے اور کہا، تل کے لڈو! چلو بھاگ جاؤ یہاں سے۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ کرکٹ میچوں کے اسٹیکر والے کیسٹوں میں فلمیں صرف بالغان کے لیے ہوتی تھیں۔
سلیم بھائی کو بیرون ملک جانے کا شوق تھا۔ انھوں نے انگلینڈ کے ویزے کی درخواست دی اور وہ منظور ہوگئی۔ سلیم بھائی انگریزوں جیسا ہیٹ پہن کر محلے بھر میں پھرے کہ میں بھی انگریز بننے والا ہوں۔ سب دوست حیران تھے کہ سلیم لندن جاکر انگریزی بولے گا تو کیسا لگے گا۔ وہ لندن پہنچے اور محنت مزدوری کی۔ محنتی وہ ہمیشہ سے تھے۔ کسی اسٹور پر ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ان کے چھوٹے بھائی قیصر بھی انگلینڈ پہنچ گئے۔ سلیم بھائی نے قیصر کو ساتھ ملازم رکھوادیا۔
لندن سے آئے ایک دوست نے بتایا کہ وہاں کئی علاقوں میں سیاہ فام نوجوانوں کا راج ہے۔ ان کے گینگ ہوتے ہیں جو لوٹ مار کرتے ہیں۔ کوئی مزاحمت کرے تو سب مل کر مارتے ہیں۔ ایک دن چند نوجوان اس اسٹور پر آئے جہاں سلیم بھائی اور قیصر کام کرتے تھے۔ کچھ لوٹ مار کرنا چاہی۔ دوست نے بتایا کہ سلیم اور قیصر نے ان چار چھ غنڈوں کی اتنی ٹھکائی کی اور سڑک پر گھسیٹ گھسیٹ کر اتنا مارا کہ انھیں نانی یاد آگئی۔ شہر بھر کے لفنٹروں نے انھیں داتا مان لیا۔
سلیم بھائی جب کراچی میں تھے تب انچولی میں بھی ایک یادگار پھڈا ہوا تھا۔ لیکن اس میں ہیرو سلیم بھائی نہیں تھے۔ میں وہ واقعہ کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر بیان کرچکا ہوں۔ اسے ہی کاپی پیسٹ کردیتا ہوں۔
ایک دن میری آنکھ چیخ پکار سے کھلی۔ چوکنا ہوا تو احساس ہوا کہ شور باہر سڑک پر مچا ہوا ہے۔ موٹی موٹی آوازوں میں موٹی موٹی گالیاں دی جارہی تھیں۔ ہم کارنر کے مکان میں پہلی منزل پر کرائے دار تھے۔ چاروں جانب کھڑکیاں تھیں۔ گلی محلے کی آوازیں صاف سنائی دیتی تھیں۔
میں نے جھانک کر دیکھا، سڑک پر اک ہجوم تھا۔ کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کون تماشا ہے اور کون تماشائی! اتنے میں دور سے ایک شخص بھاگتا ہوا نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں لمبا سا چھرا تھا۔ میں اپنے گھر میں اور پہلی منزل پر کھڑا تھا لیکن اسے دیکھ کر گھبرا گیا۔ خیال آیا کہ آج اپنی آنکھوں کے سامنے ایک قتل ہوتے ہوئے دیکھوں گا۔
یہ تیس سال پرانا واقعہ ہے۔ ہم کراچی کے علاقے انچولی میں رہتے تھے۔
جس شخص کے ہاتھ میں چھرا تھا، میں اسے جانتا تھا۔ وہ محلے کے چھ نامی گرامی بھائیوں میں سے ایک تھا۔ ایک یا دو بھائی پولیس میں تھے۔ باقی بھی چھٹے ہوئے فنکار تھے۔ ان کا سب سے چھوٹا بھائی بعد میں ”ڈابرا گروپ‘‘ میں شامل ہوا جو دہشت ناک لڑاکا نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ پھر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوا اور شاید آج تک جیل میں ہے۔
اس واقعے سے کچھ عرصہ پہلے یہ بھائی ایک اور جھگڑے میں نام کماچکے تھے۔
ان کے گھر کے قریب ہمارے رشتے دار رہتے تھے۔ وہ بھی ماشا اللہ چھ بھائی ہیں۔ چار بھیا امروہے کے بالوں کی طرح سیدھے سادے ہیں اور ان میں سے ایک اب میرے بہنوئی ہیں۔ لیکن دو بھائی بھرپور جوانی میں ہتھ چھٹ تھے۔
چنانچہ امروہے کے ایک بالے کا انچولی کے نامی گرامی سے مچیٹا ہوگیا۔ نامی گرامی نے چھرا نکال کر بالے کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ پورا محلہ اکٹھا ہوگیا۔ بالے کو پہلے تھانے لے کر گئے، پولیس کو زخم دکھایا، پھر اسپتال جاکر علاج شروع ہوا۔ مشکلوں سے جان بچی۔ نامی گرامی خاندان کے شانے چوڑے ہوگئے۔ مونچھیں تیل میں بھیگ گئیں۔
اس ماحول میں کوئی نامی گرامی بھائی ہماری سڑک پر آن نکلا۔ وہاں غالباً ایک لڑکی پر جملہ کسا۔ لڑکی نے ان حضرت کو ڈرائی کلین کردیا۔ کسی نے جاکر گھر اطلاع فراہم کی اور سارے بھائی دوڑتے بھاگتے، چھرے لہراتے ہماری سڑک پر پہنچ گئے۔
جسے چھیڑا گیا تھا، وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی۔ اس کے بھی (سلیم بھائی سمیت) پانچ بھائی تھے۔ وہ سب بھائی موقع پر موجود بھی تھے۔ لڑکی کے والد بھی کم نہیں تھے۔ والدہ بھی تنہا پوری فوج کو ٹھکانے لگانے کی اہلیت رکھتی تھیں۔
لیکن میری آنکھوں نے یہ واقعہ دیکھا کہ ایک کڑیل گھبرو جوان ہاتھ میں یہ ڈھائی فٹ کا چھرا لے کر دوڑتا ہوا آیا اور اس سے پہلے کہ ٹھہر کے پوچھتا کہ یہ کس کے گھونپوں، اس نامہربان لڑکی نے ایک بینچ اٹھاکر اس کے سر پر دے ماری۔ میں نے خون کا فوارہ ابلتے، مضروب کو مچلتے اور تماشائیوں کو اچھلتے دیکھا۔
قسم غازی عباس کی، اس کے بعد انچولی میں پستول اور بندوقیں بہت دیکھیں، چھرا سوائے شب عاشور کے کبھی نہیں دیکھا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ