گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹیشن کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں پچھلے 74 سال میں ہم نے زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھے ۔غربت ۔بے روزگاری ۔پسماندگی بھی تھی مگر لوگوں کے اندر چھوٹی چھوٹی خوشیاں انہیں جوڑ کے رکھتیں ۔ نہ شوگر اور دل کے امراض تھے نہ روزانہ دوائیاں کھانے کا رواج تھا ۔غذا سادہ تھی ۔ہم عام نلکے hand pump کا پانی پیتے تھے کوئ آلودگی کا خطرہ نہیں تھا آج فلٹر کا پانی بھی آلودہ ہوتا ہے۔ ہم بچوں کے پاس جاپانی کھلونے نہیں تھے مگر ہمیں مٹی اور لکڑی سے بنی گاڑیاں میسر تھیں جنہیں کھینچ کے ہم شھزادے لگتے۔ آج دامان کے گاٶں کوٹ موسی سے ہمارےسکول ٹیچر دوست محمد اقبال نے پکی ہوئ گھنگھڑیاں کی تصویر بھیج دی جو آج وہاں پکائ گئیں اور شاگرد ان کے لیے لے آیا تو مجھے پرانا ویلا یاد آگیا۔ اس سادہ غذا میں اتنے منرلز اور وٹامنز ہیں کہ ہماری صحت بہترین تھی ۔آج ہمارے بچے پیزا ۔برگر کھا کے کمزور سے لگتے ہیں ۔ ہم نے جو ترقی کی وہ دوسرے ملکوں سے قرضے لے کر اپنی تہذیب و ثقافت کو تباہ کر کے کی ۔آج ہماری ملک کی آمدن کا 85% قرضوں اور سود پر چلا جاتا ہے ہماری معیشت غیروں کے کنٹرول میں ہے جو رات دن ہمیں اذیت دیتے ہیں۔ میں سوچتا ہوا کیا یہی ترقی ہے جس کے خواب دیکھے گیے؟ ہم مٹی کے کھلونوں اور سادہ غذا کھا کے سکون میں تو تھےہماری عدالتیں انصاف فراہم کرتی تھیں ۔کرپشن بڑے پیمانے پر نہ تھی۔
اب ہر بندہ ڈیپریشن کا مریض ہے۔سرائیکی کا شعر ہے ؎
واہ جو پیار کتوئ۔رول ڈتوئ ۔
واہ او سجن تیڈے وعدے
واہ او سجن تیڈی یاری۔
گلزار احمد
اے وی پڑھو
اُچ ڈھاندی ڈیکھ تے چھوراں وی وٹے مارے ہن۔۔۔|شہزاد عرفان
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو