مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سنگھڑ ساگا،لوک رس تونسہ شریف از پروفیسر محمد خان ملغانی||فضیل اشرف قیصرانی

امیر شاہ کے میلے پر تاش کی گڈیاں کیونکر نظر آتی ہیں اور اسکا ساہوکاری نظام سے کیا تعلق ہے،دم بہا الحق کیا ہے،آجڑی حبیب کون ہیں اور خواجہ نظام کو ہندو ، نظام پیر کہتے ہوۓ کیوں بچھ بچھ جایا کرتے تھے۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اپنی جنم بھومی کو کیسے دیکھتا ہوں؟
میرے نزدیک میری جنم بھومی کی تعریف اور اسکا تعارف کیا ہے؟
میں کس تہذیب کا فرزند ہوں ؟ میری شناخت کیا ہے؟
یہ اور ان جیسے کئ دقیق اور مشکل سوال ہر مقامی فرد کے ذہن میں اس کی جنم بھومی اور تہذیب کو لے کر کہیں نا کہیں اسکے لا شعور میں ضرور موجود ہوتے ہیں۔اپنی جنم بھومی کو لے کر فرد اپنے گرد و نواح کو مد نظر رکھتے ہوۓ اپنے طور پر اپنی جنم بھومی اور تہذیب کا کوئ نا کوئ خاکہ ضرور کشید کرتا ہے کہ وہ خاکہ اپنی بنیاد اور اساس میں فرد کی جنم بھومی اور تہذیب کا وہ تعارف ہوتا ہے جس کی ایک چھاپ فرد خود اپنی شخصیت پر بھی ضرور محسوس کرتا ہے۔۔
ایسا ہی کچھ معاملہ ہماری جنم بھومی تونسہ شریف اور اسکی تہذیب کے ساتھ بھی ہے کہ کہیں تو تونسہ کا تعارف “سُتا ہویا محل اے”تو کہیں تونسہ کی دھرتی کو” سجاگ دھرتی “جانا جاتا ہے۔کہیں تونسہ کی فکر کا نام “فکر تونسوی “ہے تو کہیں کلمہ چوک پر ٹہلتے بٹیر باز تونسہ کے افکار کا پرتو نظرآتے ہیں۔کہیں تونسہ،”خواجہ تونسے والا “ کے تیور اور کومل سُر محسوس ہوتے ہیں تو کہیں تونسہ،تونسہ شریف نہیں بلکہ تونسہ ،”تونسہ مونسہ “ بن جاتا ہے۔
مگر تونسہ کے ساتھ جڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ تونسہ کی بنیادی فکر تونسہ کے ہر فرد پر اپنے کسی نہ کسی رنگ میں واضح عیاں نظر آتی ہے۔تونسہ کے مقامیوں پر جس بنیادی فکر کی سب سے گہری چھاپ ہے وہ تونسہ کا کثیر الثقافتی ہونا اور یونان صغیر کہلانا اور کہلوانا ہے۔اس بنیادی فکر پر اگر کسی کو گفتگو جچتی ہے تو وہ ایسا فرد ہی ہو سکتا ہے کہ جو تعلیم سے وابستہ ہو اور پھر تعلیمی میدان میں بھی جس کا مضمون اور نفس مضمون ثقافت اور ثقافت کی پرتیں ہوں۔۔۔
سو تونسہ کی خوشبختی ، کہ تونسہ کی داستان لکھنے کو جب پہلا قلم زینت قرطاس ہوا تو وہ پیشے کے لحاظ سے معلم اور ذات کے محقق کا قلم ہے۔ پروفیسر محمد خان ملغانی کی تصنیف “سنگھڑ ساگا،لوک رس تونسہ شریف “ مقامی وطن واس کی اپنے وطن سے ملاقات کا حال ہے۔
تو احباب!
پروفیسر صاحب کو ایک کریڈٹ جو تاریخ دے گی وہ تو اس کتاب کا ہے کہ تونسہ پر مستقبل میں جتنی بھی تحقیق ہوئ وہ سنگھڑ ساگا کے بنا ادھوری ہی شمار ہو گی کہ سنگھڑ ساگا تونسہ پر ریفرنس بک کا درجہ رکھتی ہے۔یہ سوال کہ زمین کس کی ہے کا جواب ہمیشہ سے زمین زاد یہی دیتے آۓ ہیں کہ زمین ،زمین زادوں کی ہے زور آوروں،حملہ آوروں کی نہیں۔اسی طرح سنگھڑ کس کا ہے اور یہ جواب کہ سنگھڑ سانگھڑیوں کا ہے ، مقامیت کا وہ حسن ہے جسے پروفیسر محمد خان صاحب نے سنگھڑ ساگا میں خوب نھبایا ہے۔
لوک رس ،مقامی فرد (سانگھڑی) کا ، جو موجودہ ریاستی و سیاسی نظام میں شناخت کو لے کر مسلسل استحصال کا شکار چلا آ رہا ہے کا اپنے استحصال کنندہ کو جواب ہے کہ حضور مقامی (سانگھڑی) صرف مسلہ نہیں بلکہ وسیلہ ہے۔مقامی (سانگھڑی) صرف مسائل کا منبع نہیں بلکہ وسائل بھی مقامی (سانگھڑی) ہی کی ملکیت ہیں۔سو مقامی سانگھڑی is part of solution not a part of problem or problem itself.
سالہا سال سے جس استحصال کو مقامی (سانگھڑی) نے اس بات کی بابت اپنے کردار پر ایک توہمت کے سہا ہے کہ مقامی (سانگھڑی) “کال کریہہ” کا مارا رزق کی خاطر گوادر سے گلگت مارا مارا پھرتا رہا ہے،وہ مقامی سانگھڑی صرف بنجارہ نہیں بلکہ سنگھڑ کے “تل “کا وہ “تل وطنی “ہے جو گو پردیس میں مسافر ہے مگر “در ملکِ سنگھڑ او مسافر پادشاہ باشد”۔۔۔۔
سنگھڑ ساگا توہمت لگانے والے زور آور کو وہ کرارا جواب ہے جس کی توقع شاید توہمت لگانے والے نے بھی استحصال کرتے ہوۓ نہیں کی تھی۔ہم یہ جانتے ہیں کہ تہازیب کی پیدائش اور افزائش پانی کی گزرگاہوں پر ہوئ مگر جو بات پروفیسر صاحب نے کہی وہ بڑی دلچسپ ہے کہ ،” گو ہم گریٹ وادی سندھ کا حصہ ہیں مگر ہماری تہذیب سندھ دریا کے ساتھ ساتھ،سنگھڑ کی بھی ہے جو اپنے جوبن میں سندھ دریا کا رخ موڑنے پر بھی قادر ہے ( یاد رہے رود سنگھڑ جس مقام پر سندھ میں گرتا ہے،اپنی زور آوری سے شیر دریا سندھو کا رخ موڑ دیتا ہے)۔مقامی کا نوحہ یہ ہے کہ صرف دریا پر پلتی تہازیب ہی تہذیب نہیں بلکہ اپنے حجم میں چھوٹے بڑے ذخیرہ آب پر جنم لیتی مقامی تہازیب بھی تہازیب ہی ہیں۔
مقامیت تفاخر یا غرور کا نام نہیں بلکہ حقائق کو بطور حقائق پیش کرنا اور تسلیم کرنا مقامیت کی اصل روح ہے۔سنگھڑ ساگا داستان ہے سنگھڑ کی تہذیب کی کہ جو کم و بیش معلوم تاریخ کے ابتدائ دور کی ہم سن ہے۔یہاں جس اہم امر کی جانب سنگھڑ ساگا اشارہ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ سنگھڑ ایک جغرافیائ شناخت کا نام ہے اور اب کے وہ شناخت جغرافیائ سے قومی شناخت میں تبدیل ہونے کے مرحلے سے گزر رہی ہے ۔یہ باور کرانے کے بعد لوک رس بتاتا ہے کہ سنگھڑ کے باسی اپنے شناختی ارتقا کے اس مقام پر ہیں جہاں گزشتہ جغرافیائ شناخت قائم ہے مگر نئ قومی شناخت گزشتہ شناخت کی جگہ لینے کے سفر میں اب اپنی بنیاد مستحکم کرنے کو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگھڑ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سنگھڑ بیک وقت گوپالی سماج (مالداری سماج) اور زرعی سماج کا ان داتا اور پالن ہار چلا آ رہا ہے۔سنگھڑ کے کناروں پر جن دو مختلف سماجوں نے جنم لیا سنگھڑ ساگا دراصل ان دو سماجوں ( گوپالی اور زرعی سماج) کی ثقافتی،تاریخی ، لسانی اور سیاسی سٹڈی ہے۔ سنگھڑ ساگا سانگھڑیوں کو انکی بابت یہ بتاتا ہے کہ یہ دو سماج کب ملے ،انکی جڑت کے نتائج اور اثرات کیا ہوۓ،کہاں یہ سماج باہم مدغم نظر آے،کہاں یہ متحارب ہوۓ،کب ان میں متصادم رنگ نظر آیا اور کہاں یہ ضم ہوۓ اور کہاں یہ جدا نظر آۓ۔
ساگا تہذیب کے ارتقائ رنگ دکھاتے ہوۓ قاری کو بطور معلم یہ درس دیتے ہوۓ آگے بڑھتا ہے کہ دیکھو تم اس عظیم تہذیب کے وارث ہو جہاں مسلمانوں کے شہر منگڑوٹھہ کے میلے میں اونٹ افغانستان کے مسلمان تب لاتے تھے جب ہندوں کا تہوار دوسہرا منایا جاتا تھا،زندہ پیر کے میلے میں پانی کی کرامت سے فیض یاب ہونے والوں میں اشنان کرتے لوگ مسلمان ہوا کرتے تھے تھے،سنگھڑ کا نام بذات خود کسی بہت اپنی مگر اب بیگانی زبان کی نشانی ہے،تونسہ کی سانگھڑی زرعی تہذیب کو رنگ گوپالی سماج کے فرزند شاہ سلیمان کے عوض لگا،کال،ڈکال اور کریہہ کیا ہیں اور ان بلاؤں کے رد کو مقامی بلا تخصیص مذہب کس چیز کا سہارا لیا کرتے تھے،امیر شاہ کے میلے پر تاش کی گڈیاں کیونکر نظر آتی ہیں اور اسکا ساہوکاری نظام سے کیا تعلق ہے،دم بہا الحق کیا ہے،آجڑی حبیب کون ہیں اور خواجہ نظام کو ہندو ، نظام پیر کہتے ہوۓ کیوں بچھ بچھ جایا کرتے تھے۔
سا نگھڑی تہذیب کی رواداری کی داستان سنگھڑ کے وارثوں کو منتقل کرتے سنگھڑ ساگا آگے بڑھ جاتا ہے۔آگے بڑھتے ساتھ ہی ساگا اپنے عظیم المرتبت فرزندوں یوسف خان قیصرانی، اسلم خان ملغانی اور کوڑا خان قیصرانی کو آج کے سانگھڑیوں سے متعارف کراتا ہے کہ اصل تو وہی تھے اور ساگا آج کے سانگھڑیوں کو بتاتا ہے کہ آج کی عقل یہی ہے کہ اپنے پرکھوں کی نقل کو آج کا اصل مان لیا جاۓ کہ اسی نقل میں ہی اصل پنہاں ہے۔
بطور عمرانی علوم کے ماہر کے پروفیسر محمد خان ملغانی نے اپنی تصنیف میں جس منفرد بات کی نشاندہی کی ہے وہ عظیم تہذیب کے دامن میں پلتی ذیلی تہذیب کی شناخت کی ہے،یعنی عظیم وادی سندھ کی تہذیب کے ساتھ پھلتی، پھولتی اور پھیلتی سانگھڑی تہذیب۔۔۔۔
پروفیسر محمد خان ملغانی کو مبارکباد اور ہدیہ تبریک کہ انہوں نے وطن واسیت کا حق ادا کرتے ہوۓ اپنے وطن کے اس مقام کا تعارف آج کے وطن واسوں کو اس نیت سے کرایا کہ شناخت کے جس بحران سے وہ گزر رہے ہیں،سانگھڑیوں کی نسلیں کم از کم اس بحران سے نہ گزریں۔
سو،
سنگھڑ رہے ہمیش آباد
سنگھڑ رہے ہمیش رواں، کہ سنگھڑ کی روانی سانگھڑیوں کے سانسوں کی روانی سے مترادف ہے۔۔۔۔
May be an image of 2 people and people standing

%d bloggers like this: