نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ کے غیر سندھی بولنے والے سندھی کامریڈ|| حسن مجتبیٰ

مومن خان کہتے ہیں کہ انہوں نے ‘ڈال ڈیڈر’ سمیت ٹھیٹھ تلفظ سے سندھی بولنا ‘چچا میاں’ یعنی عزیز سلام بخاری سے سیکھی۔ علی مختار رضوی (جی ایم سید اور جیے سندھ تحریک سے انتہائی وابستہ) اور سید اختر رضوی جنہوں نے ایم کیو ایم اور اس کے سربراہ کو ان کی پارٹی کا مقصد سندھی مہاجر اتحاد پر ہونا چاہیے کے اسباق دیے اور زیر معتوب ٹھہرائے گئے

حسن مجتبیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدرآباد کے قریب آموں کے باغوں میں گھرے ایک مشہور گاؤں ٹنڈو قیصر میں سرسبز کھیتوں کے بیچ قبرستان میں سنگ مرمر کے ایک چبوترہ نما مزار کی قبر ہے جس پر شاہ عبداللطیف کے سندھی بیت (اشعار) کنندہ ہیں۔ اس گاؤں کے لوگ اس قبر میں مدفون کو ‘پوڑھو’، ‘چچا میاں’ یا ‘کامریڈ’ جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ہر برس اس کی برسی کے موقع پر اس کے ساتھی اور ساتھیوں کی اولادیں اکٹھی ہو کر اس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ قبر بائیں بازو کے مشہور کامریڈ عزیز سلام بخاری کی ہے جن کا اصلی وطن الہٰ آباد (بھارت) تھا جہاں سے تقسیم کے وقت وہ نقل وطنی کر کے کراچی آئے تھے۔ اداکار پرتھوی راج کے ساتھ سٹریٹ تھیٹر میں کام کرنے اور کتھک رقص سیکھنے والے عزیز سلام بخاری (جو بتایا کرتے تھے کہ اس تھیٹر میں لڑکی یا ہیروئن کا کردار بھی کیا کرتے تھے) کی مادری زبان تو اردو تھی لیکن انہوں نے سندھ کی سرزمین، لوگوں کے ساتھ اپنے تعلق، سندھی زبان، سندھی ثقافت اور خاص طور سندھ کے ہاریوں اور محنت کش لوگوں کے حقوق کی جدوجہد کو تاعمر اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنایا ہوا تھا۔

فیض احمد فیض نے حیدرآباد سندھ میں اپنی قید کے دوران کہا تھا:

فیض اوج خیال سے ہم نے
آسمان سندھ کی زمیں کی ہے

عزیز سلام بخاری شروع شروع میں تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے منسلک تھے جس نے قیام پاکستان کی حمایت کی تھی اور پھر وہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جو ‘پارٹی’ کے حکم پر نئے ملک میں بسنے اور سیاسی کام کرنے آئے تھے۔ یہ زیادہ تر یو پی اور سی پی کی ریاستوں سے آئے تھے۔ کسی نے ازراہ تفنن کہا کہ تقسیم کے وقت آنے والے مہاجروں نے تو املاک کا کلیم داخل کیا تھا لیکن کچھ ایسے بھی دیوانے تھے جنہوں نے نئے ملک میں ‘انقلاب’ کا کلیم داخل کیا تھا۔ سجاد ظہیر، حسن ناصر، سبط حسن، حسن عابدی اعزاز نذیر، علی مطاہر جعفری، سائیں عزیزاللہ، سید رشید احمد اور بھی کئی۔

حیرت ہے کہ پیارا پاکستان جس کی اب دوستی چین کے ساتھ ہمالیہ سے بھی اونچی کہی جاتی ہے لیکن انقلاب چین سے بھی ڈیڑھ سال قبل اس کے حق میں ‘انقلاب چین زندہ باد’ کے نام سے شائع ہونے والے پمفلٹ کو حکومت پاکستان نے ظبط کیا تھا۔ اورایسا پمفلٹ چھاپنے والے پریس کے خلاف کارروائی کی تھی۔ یہ کہانی افضل قریشی نے پاکستان میں بندش شدہ کتابوں پر اپنے مضمون میں بھی لکھی ہے۔ پمفلٹ چھاپنے والے پیپلز پبلشنگ ہاؤس لاہور کے مالک رؤف ملک اپنی خود نوشت ‘سرخ سیاست’ میں لکھتے ہیں کہ ‘انقلاب چین زندہ باد’ پمفلٹ کے مصنف سبط حسن تھے۔

پھر چینی، روسی کے نام پر پاکستان کے بائیں بازو اور اشتراکیوں میں اختلاف ہوئے۔

قصہ مختصر، عزیز سلام بخاری بھی چین کے حمایتی دھڑے میں ہو گئے لیکن انہوں نے اپنا عوامی کام جاری رکھا۔عزیز سلام بخاری نے اپنی پارٹی قیادت سے کہا تھا کہ اگر ہم انقلابی ہیں اور سندھی عوام میں کام کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں سندھی زبان سیکھنا ہوگی بلکہ خود کو بھی سندھ کی ثقافت و طرز زندگی میں ڈھالنا ہوگا۔ عزیز سلام بخاری کی اس بات پر ان کی پارٹی نے ان کو پارٹی سے خارج کر دیا لیکن انہوں نے پھر اپنی پارٹی قائم کر کے سندھ کے ہاریوں (کسانوں)، مزدوروں، اساتذہ، اور نوجوانوں میں اپنا کام جاری رکھا۔ وہ پارٹی میں بھی کل وقتی تھے جہاں ان کو سندھ کے ہاریوں کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاالحق، دونوں ادوار میں آخری دم تک وہ زیر زمین یا روپوش رہے لیکن انہوں نے بھیس بدل کر اپنا کام جاری رکھا۔ وہ سندھ میں اپنے مداحوں اور ساتھیوں میں ‘پوڑھو’ اور ‘مولانا’ کے نام سے مشہور تھے۔ عزیز سلام بخاری انگریزی اخبار ڈان میں اقتصادی اور بزنس صفحات کے سابق ایڈیٹر اور سینیئر صحافی جاوید بخاری کے والد تھے لیکن انہوں نے تازندگی اپنے ساتھیوں اور اندرون سندھ کے لوگوں کو اپنی فیملی بنائے رکھا۔ میرے دوست اور سینیئر صحافی مسعود حیدر بھی عزیز سلام بخاری کے نظریاتی ساتھی رہے تھے۔ وہ عزیز سلام بخاری کے ساتھ اپنی رفاقت یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں “وہ ہر ماہ کی شروعاتی تاریخوں میں آتے اور چندہ لے جاتے۔ کوئی نئی نظریاتی کتاب دے جاتے، کوئی پمفلٹ۔ کامریڈ عزیز سلام سے اپنی فیملی کے لوگ یا دیگر لوگ بھی ملنے سے کتراتے تھے کہ کہیں وہ حکومت کی طرف سے عتاب میں نہ آ جائیں۔” ان کے بیٹے ان کے ساتھیوں سے پوچھتے “ہمارے والد کے کیا حال ہیں؟”

عزیز سلام بخاری نے بائیں بازو کے نظریات اور سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نسلیں نظریاتی طور تیار کیں۔ جن میں مزدوروں کی یونینوں میں کام کرنے والے بھی شامل تھے، تو اساتذہ کی تنظیموں میں پرائمری تا کالجوں اور یونیورسٹی سطح تک، اور نوجوان و طلبہ بھی تو صحافی بھی۔ اپنا کام وہ بہت ہی رازداری اور بغیر کسی تشہیر کے کرتے رہے تھے۔ ان کے نظریاتی شاگرد پلیجو کی عوامی تحریک سے لے کر ایم کیو ایم تک، عوامی نیشنل پارٹی تک، سندھی پرائمری ٹیچرز اسوسی ایشن تک انفرادی یا اجتماعی سطح تک آج بھی موجود ہیں۔ سندھ کے دو اہم دانشور محمد ابراہیم جویو اور معروف تعلیم و فلسفہ دان حیدر علی لغاری بھی ان کے مداحوں میں سے تھے۔

عزیز سلام بخاری نے وصیت کی تھی کہ انہیں سندھ میں ان کے ساتھیوں اور ہاریوں کے گاؤں ٹنڈو قیصر میں دفنایا جائے۔ حیرت ہے کہ ٹنڈو قیصر جہاں کی سرزمین نے کئی بڑے لوگ پیدا کیے ہیں، جہاں جدید بلوچ قوم پرستی کے نظریہ دانوں میں سے ایک قادر بخش نظمانی پیدا ہوئے تھے۔ جو 1973 سے 90 کی دہائی تک لندن میں خود ساختہ جلاوطنی میں رہے، اپنی وصیت کے مطابق لیاری میں میوا شاہ قبرستان مین دفن ہوئے اور عزیز سلام بخاری ٹنڈو قیصر میں۔

سید جمال الدین بخاری

1900 میں احمدآباد گجرات کے پیر گھرانے میں پیدا ہونے والے سید جمال الدین بخاری کسی بھی صورت میں قبل از تقسیم آل انڈیا سطح کے رہنماؤں میں سے ایک تھے جو بیسویں صدی کے شروعاتی دو عشروں میں ابھر رہے تھے۔ ان کا خاندان احمدآباد میں ایک پیر گدی و درگاہ اور کافی زمینیں رکھتا تھا۔ سید جمال الدین کو تعلیم کے لئے الہٰ آباد بھجا گیا جہاں انہوں نے سینیئر کیمبرج کیا۔ جس کے بعد علی گڑھ کالج گئے۔ علی گڑھ کالج میں ہی ان کی دوستی سندھ کے بعد میں بننے والے وزیر اعلیٰ قاضی فضل اللہ اور پیر الٰہی بخش سے ہوئی۔

خلافت تحریک اور روسی انقلاب بیسویں صدی کی شروعات کے دو ایسے بھونچال تھے جنہوں نے اپنے جھٹکے برصغیر ہندوستان کی سرزمین کو بھی دیے جس سے نسلیں متاثر ہوئیں۔ سید جمال الدین بھی اپنی مہم جو، متجسس طبعیت، مطالعاتی اور متشکک ذہن، جو خدا کے وجود سے لے کر سادہ لوح عوام کے توہمات، ان کی غربت اور درگاہوں اور پیروں پر ان کی اعتقاد پرستی پر سوالات اٹھانے کے سبب جلاوطنی میں کابل جانے والے مہاجرین کے قافلوں کیساتھ ہو لیے۔ سید جمال الدین کا یہ سفر احمدآباد سے پشاور اور کابل تک سفر اور وہاں سے نوزائیدہ سوویت یونین تلے سنٹرل ایشیا میں تاشقند و بخارا تک ایک فلم اور ناول کی قسط وار کہانی کی طرح کھلتا ہے۔ کہیں خچروں پر تو کہیں پیدل خلافت تحریک کے جلاوطنی میں جانے والے کارکنوں کے قافلوں کے ہمسفر سید جمال الدین کابل پہنچے۔ تاریخ دان و مصنف راحل سنکرتیانن جنہوں نے ان کو لال ایس ڈانگے اور شیخ عبداللہ کی صف میں کھڑا کیا تھا، لیکن اس نوجوان سید جمال الدین بخاری کے ذہن میں منزل ماسکو اور وہاں آنے والے بولشویک انقلاب کا مشاہدہ کرنا تھا۔ وہ شکارپور کے سندھی تاجروں کے قافلوں کے ساتھ سمرقند و تاشقند تو پہنچے۔ ان تاجروں کو فکر اپنے ان روبیلوں کی تھی جو روس میں انقلاب کے بعد اپنی قدر و قیمت گنوا بیٹھے تھے۔ سندھی تاجروں کے ایسے قافلوں کے ساتھ جمال الدین بخاری غالباً 1924 میں کراچی پہنچے۔

لیکن ان کے بیٹے مکرم بخاری کا کہنا ہے کہ وہ مولانا محمد علی جوہر کی ہدایات پر لاڑکانہ میں سندھ خلافت کانفرنس میں شرکت کرنے آئے تھے۔ اور علی برادران کے خلاف کراچی خالق دینا ہال مین چلنے والے مقدمے کے متعلق مضمون لکھنے پر ان کو چھ ماہ جیل بھی ہوئی تھی۔

کراچی میں بندرگاہ پر وہ مزدور بھرتی ہوئے اور پھر گودی مزدوروں کی یونین میں سرگرم ہو گئے۔ کسی طرح سید جمال الدین بخاری مال بردار بحری جہاز پر فائر مین بھرتی ہو گئے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا قائم کرنے والے بانی ممبروں میں سے ایک تھے۔ اور انہیں 1940 میں ہی سندھ کمیٹی کا رکن بنا دیا گیا تھا۔ وہ 1948 کی CPI یعنی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی اس کانگرس میں سندھ کمیٹی کے سیکرٹری کی حیثیت سے شریک تھے جب سجاد ظہیر و دیگر رہنمائوں کو پاکستان نقل وطنی کر کے نئی کمیونسٹ پارٹی میں جا کر کام کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ لیکن سید جمال الدین بخاری نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کی پارٹی کے اندر نئے پاکستان میں مقامی کامریڈوں میں سے پارٹی کے لوگ چنے جائیں۔ جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی ڈالی اور سندھی ہندو رہنماؤں اور کارکنوں کو جبراً ملک چھوڑنا پڑا تو پارٹی کی فنڈر اور تین عمارتیں جن میں ایک پریس بھی شامل تھا۔ سندھی ادیب اور CPI کے سرگرم کارکن گوبند مالہی جمال الدین بخاری کے حوالے کر گئے تھے۔ لیکن جمال الدین بخاری کا کوئی گھر نہیں تھا اور پارٹی کے بندر روڈ پر دفتر میں ہی اپنی بیوی شانتا بائی زیب النِسا کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ شانتا بائی زیب النِسا نے بھی شانہ بشانہ ان کے اور مزدوروں کے ساتھ تحاریک میں کام کیا۔

سید جمال الدین بخاری مشہور اخبار الوحید، آزادی اور نیو ایج کے مدیر رہے۔

وہ 1950 کی دہائی میں قاضی فضل اللہ کے مشورے اور مدد سے لاڑکانہ آ کر آباد ہوئے۔ جہاں انہوں نے ‘انصاف’ پریس اور اخبار سنبھالا۔

ان کے بیٹے مکرم بخاری کا کہنا ہے کہ شاہ نواز بھٹو سیاست میں نووارد نوجوان بیرسٹر بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کو جمال الدین بخاری کے پاس لے آئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو سید جمال الدین بخاری سے اپنے سوشلزم کے نعرے سمیت دیگر مسائل پر اکثر مشاورت بھی کرتے رہتے تھے۔

سید جمال الدین بخاری اگرچہ سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنی صحافیانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اور 14 فروری 1984 کو برصغیر سطح کے یہ انقلابی رہنما لاڑکانہ میں انتقال کر گئے اور قبرستان قائم شاہ بخاری لاڑکانہ میں مدفون ہیں۔

سید جمال الدین بخاری 1927-28 میں جب مسلم ہندو پیکٹ ہوا تو سندھ کی بمبئی سے آزادی کے لئے ہونے والی اس تحریک کے دستخط کنندگان میں سے تھے۔ نیز 1920 کی ہی دہائی میں جب سندھ میں ہاری یا کسان تحریک کے لئے قائم کی جانے والی معرکتہ الآرا پارٹی سندھ ہاری کمیٹی کا خیال پیش کرنے والوں میں سے تھے۔ وہ جی ایم سید، جمشید نسروانجی مہتا اور عبدالقادر ایم خان اور عبدالقادر بلوچ کے ساتھ سندھ ہاری کمیٹی کے بانی کاروں میں سے تھے۔ 1940 کے ہی عشرے میں حیدر بخش جتوئی کو ڈپٹی کلکٹری کا عہدہ چھوڑنا کا کشور بھی سید جمال الدین بخاری نے ہی دیا تھا۔ حیدر بخش جتوئی سندھ کی ہاریوں کی تحریک سے جڑ گئے اور بابائے سندھ کہلائے۔ سید جمال الدین بخاری سندھ کی بمبئی سے آزادی اور ون یونٹ مخالف تحاریک میں انتہائی سرگرم رہے۔ وہ 1960 میں ون یونٹ کے خلاف تحریک میں لاڑکانہ سے گرفتار ہوئے تھے۔

1943 میں جب ان کی پارٹی زیرِ زمین تھی تو وہ کراچی میں گرفتار ہو گئے تھے۔ سید جمال الدین بخاری نے کئی مزدور انجمنیں اور یونینیں منظم کیں جن میں گودی کے مزدور بھی شامل ہیں جہاں آگے چل کر مشہور جہازیوں کی بغاوت ہوئی تھی۔ جمال الدین بخاری کے ساتھ کام کرنے والوں میں مشہور مزدور لیڈر بیچر، سوبھو گیان چندانی، بھارت کے سابق وزیر اعظم اندر کمار (آئی کے) گجرال، اے کے ہنگل، جو بعد میں بھارت کے مشہور اداکار بنے، بھی شامل تھے۔ ان کے انتہائی قابل ذکر کارناموں میں کراچی کی آرام گاہ عید گاہ میں بغاوت کے حق میں احتجاجی جلسہ بھی ہے جس میں ہزاروں مزدوروں نے شرکت کی تھی۔

اماں شانتا

شانتا زیب النِسا باالمعروف اماں شانتا سید جمال الدین بخاری کی بیگم تھیں جنہیں نہ فقط ان کے بچے بلکہ سندھ ہند کے تمام مزدور تحاریک کے کارکن اور عام مزدور بھی اماں ہی کہتے تھے۔ اماں شانتا کا تعلق گجرات، بھارت کے علاقے جھالا واڑ کے انتہائی غریب خاندان سے تھا۔ شانتا بائی قریبی بڑے شہر میں ایک کپڑے کے کارخانے ٹیکسٹائل مل میں کام کرنے لگیں اور وہ مزدوروں کے تلخ ایام سے اتنی بہرہ ور ہو گئیں کہ ان کے حقوق کی جدوجہد یعنی ٹیکسٹائل ورکرز احمد آباد یونین میں سرگرم ہو گئیں۔ تب 1945 میں احمد آباد ہی کے ایک مزدوروں کے بڑے جلسے میں ان کی ملاقات سید جمال الدین سے ہوئی۔ ان کی یہ ملاقات رومانس اور پھر شادی میں تبدیل ہوئی۔ مزدوروں کی جدوجہد میں کبھی جمال الدین بخاری جیل میں تو کبھی اماں شانتا جیل میں ہوا کرتے۔ اماں شانتا اور جمال الدین بخاری 1946 میں کراچی آئے اور بندر روڈ پر پارٹی کے ہی دفتر میں رہائش اختیار کی۔ کراچی کے باہر سے آنے والے کامریڈوں کا ٹھکانہ بھی یہی دفتر ہوا کرتا جہاں قیام کرنے والوں کو دو روپے میں رہائش اور کھانا مہیا ہوتا اور پھر یہ تمام رقم پارٹی کے فنڈ میں جمع ہوتی۔ ان کے بیٹے اور کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اماں شانتا نے جمال الدین بخاری کے ساتھ شادی کے بعد اسلام قبول کیا اور ان کا اسلامی نام زیب النِسا تھا۔ لیکن کئی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے بس شانتا کے ساتھ اپنا نام زیب النِسا بھی کہلوایا تھا۔

سید جمال الدین بخاری 1949 تک جیل میں رہے۔ ان کی قید کے دوران اماں شانتا اپنے گھر بار اور تحریک کے معاملات بھی سنبھالتی رہی۔ 1950 کی دہائی کی شروعات میں وہ سید جمال الدین بخاری کے ساتھ لاڑکانہ آئیں۔ لیکن 60 کے عشرے تک سید جمال الدین بخاری کا کبھی ریل تو کبھی جیل کا سفر جاری رہا۔

فہمیدہ ریاض

اگرچہ ان کی مادری زبان اردو تھی لیکن جب بھی مجھ سمیت کسی سندھی سے، ملی سندھی زبان میں ہی بات کی۔ تقسیم سے بھی قبل فہمیدہ ریاض کے والد ریاض الدین اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے حیدر آباد سندھ آ کر آباد ہوئے تھے جہاں نور محمد ہائی سکول میں وہ اردو کے استاد تھے۔

1958 میں جب جنرل ایوب خان نے ملک پر مارشل لا مسلط کیا تو ٹکا خان کو حیدرآباد کا سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ ٹکا خان نے حیدر آباد کے سکولوں سے سندھی زبان کا مضمون ختم کیا کیونکہ کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو سندھی زبان کے مضمون میں مشکل پیش آتی تھی۔ ان دنوں انڈس سٹوڈنٹس فیڈریشن نامی ایک طلبہ تنظیم یونس شرر کی سربراہی میں ہوا کرتی تھی جس نے سندھی زبان کو سکولوں سے ختم کرنے کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی تو فہمیدہ ریاض اپنی دیگر دوستوں کے ساتھ اس حتجاج اور احتجاجی جلوس میں شامل ہوئی تھیں۔ اس احتجاج میں اس زمانے میں حیدر آباد کے ڈپٹی کمشنر بھارت کے مشہور شاعر سلام مچھلی شہری کے بھائی ہوا کرتے تھے جن کی ایک بہن بھی اس احتجاج میں شامل تھیں۔

فہمیدہ ریاض کی زبیدہ کالج میں سندھیوں سے دوستی، شاہ لطیف و دیگر کی سندھی شاعری، ان دنوں ایوبی آمریت اور ون یونٹ کے خلاف تحاریک کا گڑھ حیدر آباد ہونے کی وجہ سے فہمیدہ ریاض سندھی حقوق کی تحریک اور سندھی ادب و شاعری کے قریب آئیں۔ فہمیدہ کی ساری بہنوں کی شادیاں بھی سندھیوں سے ہوئی تھیں۔ فمہمیدہ ریاض نے اپنی اردو کی شاعری میں بھی جا بجا نہ فقط سندھی زبان کے الفاظ بلکہ سندھ کے درد و حق تلفیوں کو اپنا موضوع بنایا۔ سندھ اور سندھی زبان و ادب ادیبوں، شاعروں سے ان کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب سندھی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ‘ملکی سالمیت اور مذہب’ کے نام پر چالیس سے زائد سندھی جرائد اور کتابوں پر پابندی لگائی تو فہمیدہ ریاض سندھی ادیبوں کی حمایت میں اٹھنے والی واحد آواز تھی۔ وہ بندش شدہ سندھی کتابوں، ان کے لکھنے اور چھاپنے والوں کے دفاع میں واحد تھیں جنہوں نے اس وقت قاضی محمد اکبر کی سربراہی میں بندش شدہ کتابوں کا جائزہ لینے والے کمیشن کے سامنے دلیرانہ دفاع کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ قاضی محمد اکبر نے بھٹو حکومت کے تحت سندھی کتابوں و جرائد پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھا جو آج بھی برقرار ہے۔

فہمیدہ ریاض نے شیخ ایاز کی سندھی شاعری کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو کتابی صورت میں ‘حلقہ میری زنجیر کا’ کے نام سے شائع ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور جنرل ضیا کے مارشل لا کے دوران فہمیدہ ریاض اور ان کے سندھی شوہر ظفر اجن فوجی آمرانہ حکومت کے عتاب میں آئے۔ ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور فہمیدہ ریاض کی ادارت میں نکلنے والا جریدہ ‘آواز’ ضبط ہوا۔ اس کے باوجود وہ سندھ میں بائیں بازو اور سندھ کے حقوق کی تحریک کے ساتھ سرگرمی سے وابستہ رہیں۔ ان کے شوہر ظفر اجن کا تعلق کا رسول بخش پلیجو کی سندھی عوامی تحریک سے تھا لیکن فہمیدہ ریاض پلیجو کی سندھی عوامی تحریک چاہے بائیں بازو کے لوگوں سے قریبی رہی۔ ضیاالحق کے دور میں مشہور زمانہ مقدمہ جام ساقی کیس میں وہ جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کے دفاع میں گواہ رہی تھیں۔ نذیر عباسی کی تب کرنل امتیاز عرف بلا (بعد میں بدنام زمانہ برگیڈیئر بلا) کی سرکردگی میں تشدد کی ذریعے موت پر نظم لکھی۔

فہمیدہ اور ان کے شوہر ظفر اجن ضیا فوجی عتاب کے سبب جلاوطنی میں بھارت چلے گئے۔ جلا وطنی کے دوران فہمیدہ ریاض نے ایک بیٹے کو جنم دیا اور ایک کتاب لکھی۔ بیٹے کا نام کبیر رکھا۔ اور ان کی انگریزی زبان میں کتاب ‘پاکستان، لٹریچر اینڈ سوسائٹی’ کے نام سے ہے جس میں انہوں نے پاکستانی ادب میں سندھی ادب اور شاعری کو ایک رہنما ستارہ اور مزاحمتی بتایا ہے۔ جب وہ محمد خان جونیجو حکومت میں جلاوطنی سے واپس آئیں تو انہوں نے کہا وہ سندھ اور سندھیوں کے لئے جلاوطنی میں گئی تھیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ سندھی شاعروں اور ادیبوں کے بیچ بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں، سنیں اور سنائیں۔ فہمیدہ ریاض نے اپنے آخری دنوں میں شاہ لطیف کے کلام ‘شاہ جو رسالو’ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔

لیکن ہم سندھی بھی اپنے محسنوں کو یاد رکھنے میں زود فراموش ہی رہے ہیں۔ سندھ اور سندھیوں کی یہ محسنہ اور دوست لاہور میں دفن ہیں۔ جہاں میاں میر جیسا برگزیدہ صوفی بھی دفن ہے جن کا تعلق بھی سندھ سے تھا اور وہ پہلے سندھی شاعر قاضی قاضن کے نواسے تھے۔

سائیں عزیز اللہ

سائیں عزیز اللہ کا اصل تعلق تو بھارت سے پیلی بھیت، اتر پردیش سے تھا۔ وہ تقسیم کے بعد کراچی اور پھر سندھ کے شہر جیکب آباد میں آ کر آباد ہوئے جہاں وہ سندھ کے ہاریوں کو منظم کرنے لگے تھے اور سندھی زبان کو ہی انہوں نے اوڑھنا بچھوڑنا بنایا تھا۔ اسی لئے وہ سندھ کے لوگوں اور اپنے ساتھیوں میں سائیں عزیز اللہ کے نام سے مشہور تھے۔

شعیب حمیدی

شعیب حمیدی بھی بائیں بازو کے ایک گمنام کارکن تھے جو تقسیم کے وقت سندھ کے نوابشاہ ضلع میں سکرنڈ کے قریب آ کر آباد ہوئے تھے جہاں سے نزدیک ساٹھ میل شہر میں ان کے خاندان کو کلیم میں ملی ہوئی زمین تھی۔ شعیب حمیدی ایوبی خانی آمریت اور ون یونٹ کے خلاف متحرک رہے تھے۔ مجھے DSF کے سابق چیئرمین اور مشہور طالب علم رہنما اور اب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ کے کوآرڈینیٹر امدا چانڈیو نے بتایا کہ ایوب خان کے دور حکومت میں یہ شعیب حمیدی ہی تھے جنہوں نے ان سکولی لڑکوں کو اپنے منہ پر سیاہ پٹیاں باندہ کر ملک میں سنسرشپ اور اظہار رائے پر قدغن کے خلاف احتجاج کرنا سکھایا تھا۔

لیکن بدقسمتی سے بعد میں سندھ کے حقوق کے لئے لڑنے والے ایسے انسان کو ان کے کئی مقامی ہاریوں نے ہی زمین کے تنازع پر قتل کر دیا تھا۔

حسن حمیدی

حسن حمیدی کا تعلق بھارت کے شہر پٹنہ، بہار سے تھا جو تقسیم کے وقت سکھر سندھ میں آ کر آباد ہوئے۔ اردو کے ترقی پسند شاعر اور پیشے سے وکیل تھے۔ حسن حمیدی کا تعلق بائیں بازو کی سیاست اور ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ وہ حکومتیں فوجی ہوں کہ سول ان کے تحت سیاسی کارکنوں کے خلاف قائم مقدمات حسن حمیدی عدالتوں میں بغیر کسی فیس کے لڑا کرتے۔ ان کا گھر اور دفتر بائیں بازو کے کارکنوں کی ٹھکانہ اور پناہ گاہ بھی ہوا کرتے تھے۔

ولی خان اور ان کی نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھیوں اور جب بھٹو حکومت میں بلوچ لیڈروں پر شروعاتی طور مقدمہ چلانے سکھر سنڑل میں رکھا گیا تھا۔ جہاں ان کے وکلا میں سے مشتاق راج اور حسن حمیدی بھی شامل تھے۔ ولی خان کی وکالت کرنے کی پاداش میں حسن حمیدی کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قرار بازی کے الزام میں جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ شیخ ایاز ان کے قریبی دوستوں اور پڑوسیوں میں سے تھے۔

حسن حمیدی کی شاعری سندھ کے ہاریوں اور انقلابی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ‘شہر سلاسل’ میں اوپیرا میں ہے جس میں سندھ کے خاتون کسان مائی بختاور اور ہاریوں اور مزدوروں کی کہانی ہے۔ جب کہ جرم آگہی نذیر عباسی کی جدوجہد اور زندان میں ان کے قتل پر ہے۔ اور اس کے علاوہ ان کے اور شعری مجموعے بھی ہیں جن میں ہتھکڑی گنگنائے گی ان کی اور ان کے ساتھیوں کی قید و بند کی کہانی ہے۔

دوست محمد پراچہ

دوست محمد پراچہ جن کی مادری زبان پنجابی تھی کو کئی سندھی قوم پرست حلقے سندھی زبان کا شہید قرار دیتے ہیں۔ دوست محمد پراچہ جو کہ جی۔ایم۔ سید سے سماجی مراسم بھی رکھتے تھے اور انہوں نے سندھی پنجابی سنگت بھی قائم کی ہوئی تھی۔ 1972 میں سندھ میں لسانی فسادات کے دوران جی ایم سید نے سندھ کا دورہ کیا تھا جس میں ان کے ہمراہ ایک بڑا قافلہ گیا تھا۔ ان میں ان کے ساتھی اور کارکن، نوجوان، ادیب اور شعرا، علن فقیر جیسے فنکار بھی تھے تو دوست محمد پراچہ بھی ہمراہ تھے۔ حیدر آباد میں مسلم کالج ہاسٹل گراؤنڈ پر جی ایم سید کے جلسے پر بم پھینکا گیا جس میں دوست محمد پراچہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ ایک اور نوجوان عمر شورو زخمی ہو کر اپنی ٹانگ سے محروم ہو گئے۔ اسی لئے دوست محمد پراچہ کو سندھی قوم پرست سندھی زبان کا پہلا شہید کہتے ہیں۔

برکت علی آزاد

1935 میں جب کوئٹہ میں بہت بڑے زلزلے کے بعد لوگ عمارات اور گھروں کے ملبوں سے قیمتی چیزیں نکال اور ڈھونڈ رہے تھے تو کامریڈ برکت علی آزاد زلزلے زدہ ملبوں میں کتابیں ڈھونڈ رہے تھے۔ کامریڈ برکت علی آزاد ایک عجب آزاد مرد تھے۔

اگرچہ راجپوت نسل کے کامریڈ برکت علی آزاد کا اصل وطن آج کے مشرقی پنجاب میں تھا جہاں ان کے آبا و اجداد پہلوانی کیا کرتے تھے لیکن کامریڈ برکت علی آزاد 1930 کی دہائی میں سندھ آئے تھے جہاں ان کی دوستی سندھ کے اس وقت کے وزیر اعظم اللہ بخش سومرو سے تھی۔ برکت علی آزاد ان دنوں کانگریسی خیالات رکھتے تھے۔ اللہ بخش سومرو نے ان دنوں سندھ میں سماجی اصلاحات کی ایک تنظیم قائم کی ہوئی تھی۔ اس تنظیم کے تحت ان کو سندھ کے دیہی علاقوں میں سکول کھولنے کا کام سونپا ہوا تھا۔ اسی تنظیم کے نائب صدر سیٹھ پیسو مل چند وانی نے سکھر شہر میں معصوم شاہ کے منارہ کے سامنے پی سی ہائی سکول بھی قائم کیا۔ برکت علی آزاد نے دیہی سندھ میں گاؤں گاؤں جا کر سکول قائم کیے۔ یہ ایک سندھ پر بڑا تاریک دور آیا جس میں پہلے حر تحریک اور پھر اللہ بخش سومرو کا قتل ہوا۔ انہی دنوں میں برکت علی آزاد نے ایک روسی انارکسٹ یا نراجیت پسند نظریہ دان پرنس کروپاٹکن کی کتاب ‘نوجوانوں کو اپیل’ کا سندھی میں ترجمہ کیا جو آج بھی انقلابی نظریات رکھنے والے لوگوں میں مقبول ہے۔ برکت علی آزاد کانگرس کی ‘کوئٹ انڈیا موومنٹ’ یا ‘بھارت چھوڑو’ تحریک کے دوران جیل بھی گئے۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد برکت علی آزاد نے پہلے جیکب آباد اور پھر سکھر کو ہی اپنا گھر بنایا جہاں سے وہ ہفت روز اخبار ہی نکالتے رہے لیکن ان کا جو ایک نہایت قابل ذکر کارنامہ ہے وہ یہ ادبی و نظریاتی کتابیں و رسائل جن میں روسی اور چینی نظریاتی ادب کے تراجم بھی ہوتے۔ ان کی گانٹھیں باندھ باندھ کر وہ شہر شہر پہنچاتے رہے۔ جس کا واحد مقصد لوگوں میں مطالعے کا رجحان اور عادت پیدا کرنا تھی۔ یہ کام کتابوں کی فروخت انتہائی سستے داموں اور کہیں کہیں مفت اور عام اور ادھار پر بھی کرتے۔ وہ کتابیں بغیر کسی نظریاتی و سیاسی امتیاز کے لوگوں میں بانٹتے اور فروخت کرتے رہے۔ ان کا انتہائی تنگ مکان جو کہ سکھر کے مہران مرکز میں ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا ان کا گھر بھی تھا، تو لائبریری بھی کتاب گھر بھی جہاں فرش تا چھت کتابیں ہوا کرتی۔ وہ خود بھی ایک طرح کی چلتی پھرتی لائبریری تھے۔

ڈاکٹر اعزاز نذیر

بلا کے مقرر ڈاکٹر اعزاز نذیر اپنی ہر تقریر اردو تلفظ میں شیخ ایاز کے اس سندھی شعر سے شروع کرتے جو کہ ان کی پہچان بن چکا تھا:

پنہجی رت میں گاڑھو جھنڈو ابھ تائیں جھولیندو
اھڑو ڈینھن بہ ایندو ساتھی اھڑو ڈینھن بہ ایندو

(اپنے لہو میی سرخ یہ پرچم امبر تک لہرائے گا
ایسا دن بھی آئے گا ساتھی ایسا دن بھی آئے گا)

اعزاز نذیر ڈاکٹر تو کبھی تھے ہی نہیں اور نہ ہی ان کی ڈاکٹری کی ڈگری تھی لیکن پاکستان کی بائیں بازو کی تحریک کے بڑے ناموں اور کاموں میں سے ایک اعزاز نذیر ساری عمر ڈاکٹر کہلائے۔ ڈاکٹر اعزاز نذیر کا تعلق بھی حیدر آباد دکن سے تھا جہاں ان کے خاندان کی پیری مریدی چلتی تھی لیکن اعزاز نذیر ہندوستان میں بھی تلنگانہ کسان تحریک میں سرگرم، اور اشتراکی خیالات کے شاعر مخدوم محی الدین کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر اعزاز نذیر نے 1950 کی دہائی میں حیدر آباد دکن سے نقل وطنی کر کے پاکستان آ کر کراچی میں سکونت اختیار کی۔ عزیز سلام بخاری ان کے بھی نظریاتی و سیاسی استاد تھے۔ اعزاز نذیر نے کراچی کے لانڈھی کے صنعتی علاقے میں مزدوروں کو منظم کیا۔ ایک وسیع کامیاب ہڑتال بھی کروائی۔ گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے۔ اور وہ خیرپور میرس آ گئے۔

ڈاکٹر اعزاز نذیر 1960 کی دہائی میں سکھر، خیرپور اور روہڑی جو کبھی بڑے صنعتی شہر ہوا کرتے تھے کے مزدوروں کی تحریک کو منظم کرنے میں آگے آگے تھے۔ جہاں انہوں نے نہ صرف صنعتی مزدوروں بلکہ ریلوے سے لے کر تانگے والوں تک کو منظم کیا۔ ڈاکٹر اعزاز نذیر نیشنل عوامی پارٹی سمیت ملک میں بائیں بازو کی بہت سے پارٹیوں کی شراکت اور اتحادوں میں ملک گیر سطح پر بانیوں میں سے ایک ہوا کرتے۔ وہ 1970 میں دائیں اور بائیں بازو کے حزب مخالف اتحاد UDF یا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ میں بھی پیش پیش تھے تو بائیں بازو کے طلبہ مزدور کسان رابطہ کمیٹی منظم کی۔ اس کمیٹی کی طرف سے ملک کے بڑے شہروں میں جمہوری قوتوں کی کانفرنس بھی منعقد کروائیں۔ کچھ دل جلے انہیں ‘ڈاکٹر شومبے’ کہتے۔ شومبے نے 1960 میں کانگو کے پیٹرس لوممبا کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ ضیاالحق کی فوجی آمریت میں وہ زیادہ تر روپوش زیرِ زمین رہے۔ لاہور میں وہ اپنے بھائی کے گھر سمن آباد رہتے تھے اور گھر سے سڑک کے پار پولیس تھانہ تھا۔ گھر پر ٹیلیفون نہیں تھا تو وہ ڈائری ہاتھ میں لیے ہر روز پولیس سٹیشن جاتے اور وہاں سے فون کرتے۔

ڈاکٹر اعزاز نذیر 1998 میں انتقال کر گئے۔

حسن عسکری

ان کا تعلق وہاڑی سے تھا اور مادری زبان پنجابی تھی۔ حسن عسکری جب نوجوانی میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ ہو کر سرگرم ہوئے تو ان کے گھر والوں نے انہیں سانگھڑ سندھ بھیجا جہاں ان کے خاندان کا تھوڑا زمین کا رقبہ تھا۔ حسن عسکری سانگھڑ میں پہلے سے بھی زیادہ سرگرم ہو گئے کہ ان کی دوستیاں یہاں بائیں بازو اور سندھی قوم پرست کارکنوں سے ہوئیں۔ حسن عسکری نے عابد حسین منٹو کی سوشلسٹ پارٹی میں شرکت کی اور نوجوانوں کے کیڈرز تیار کیے۔ حسن عسکری نے نوجوانوں کے لئے سٹڈی سرکلز بھی قائم کیے۔ نیز عابد حسین منٹو سمیت بائیں بازو کے کئی رہنما اور دانشور حسن عسکری کی دعوت پر سانگھڑ آئے۔ سانگھڑ پہلے سے حر تحریک کی آماجگاہ ہونے کی وجہ سے ان کے علاوہ اور کئی نام ہیں جن کے لئے یہ مضمون ناکافی ہوگا۔ جبار خٹک جو نسلی طور پر پشتون ہیں لیکن سندھ اور پاکستانی عوام کے حقوق کے لئے طویل جیلیں کاٹیں۔ خیرپور میرس میں آ کر آباد ہونے والے سید علی مطاہر جعفری وکیل اور ان کے بیٹے سابق جسٹس علی اسلم جعفری تھے۔ ان دنوں میڈیکل سٹور پر کام کرنے سے اعزاز نذیر کا نام ڈاکٹر پڑا۔ مسلم شمیم، سید مظہر جمیل، راحت سعید، بصیر نوید جو آج بھی سندھ کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر رہے اور ہانگ کانگ میں جلاوطنی میں رہتے ہوئے بھی سرگرم ہیں۔ سندھ NSF کی آصفہ رضوی مرحومہ اور محسن زیدی (جو جب ستر کے علاقے میں کراچی میں سندھ کے حقوق کی بات کرتے تھے تو عتاب سے گزرتے تھے، مومن خان جو اب ایم کیو ایم الطاف گروپ میں ہیں لیکن ان کی سندھی کا ‘ڈال ڈیڈر’ اور اس طرح کےاضافی لیکن غیر سندھی کے لئے مشکل تلفظ والے حروف شین قاف کی طرح درست ہیں۔

مومن خان کہتے ہیں کہ انہوں نے ‘ڈال ڈیڈر’ سمیت ٹھیٹھ تلفظ سے سندھی بولنا ‘چچا میاں’ یعنی عزیز سلام بخاری سے سیکھی۔ علی مختار رضوی (جی ایم سید اور جیے سندھ تحریک سے انتہائی وابستہ) اور سید اختر رضوی جنہوں نے ایم کیو ایم اور اس کے سربراہ کو ان کی پارٹی کا مقصد سندھی مہاجر اتحاد پر ہونا چاہیے کے اسباق دیے اور زیر معتوب ٹھہرائے گئے، زاہدہ حنا، کرار حسین، فتح اللہ عثمانی (مصنف خود سوانح ‘نربدا سے سندھو تک’) بابر ایاز، کلیم درانی، انیس ہارون اور ڈاکٹر ہارون احمد ، ڈاکٹر ادیب رضوی، معراج محمد خان، شکیل پٹھان، یوسف راحت اور زلیخا یوسف، معین قریشی، مرغوب راحت، شاعر ثروت حسین، آفاق صدیقی، انتظار زیدی، الیاس عشقی، دو اعزازی سندھی امریکی ایملی ہائوز (جو شاہ لطیف کے رسالو کو ترجمہ کر رہی ہیں اور جسے ہر تیسرا چوتھا سندھی نام سے جانتا ہے) اور پنجابی دانشور احمد سلیم (جنہوں نے نہ فقط شیخ ایاز کی شاعری پنجابی میں ترجمہ کی ‘جو بیجل نے آکھیا’ کی کتابی صورت میں، بلکہ سندھی ادب کو پنجابی اور پنجابی ادب کو سندھی میں متعارف کروایا ہے)، سندھ و ہند کی تاریخ کو نئے زاویوں اور نئی سچائیوں سے پیش کرنے والے ڈاکٹر مبارک علی، سدا سیلانی اور سندھ کے اصل باسیوں، بھٹکتی نسلوں، نام نہاد نچلی ذاتوں کے جپسیوں پر نہ فقط لکھنے والے بلکہ ان کے ساتھ رہنے والے اور ہاریوں میں کام کرنے والے خورشید قائم خانی، پروفیسر فریدالدین، پروفیسر خالد وہاب، ڈاکٹر حسن منظر، ثروت زہرا، حسین صمدانی، احمد رضا، عارف پاشا، علی حسن، شاعر وفا ناتھن شاہی جس کی مادری زبان سندھی نہیں تھی پر سندھی غزل کے اعلیٰ پائے کے شاعر تھے سمیت سندھ ترے جان نثار بے شمار کے مصداق ہیں۔ میں تو رئیس امروہی کو بھی ایسے ہی محبان سندھ کی صف میں سمجھتا ہوں۔ معین قریشی جنہوں نے ضیا الحق کے دور میں لکھا تھا:

سندھو ماتا کا پانی چپکے چپکے
بین کرتا ہے
کہ ٹھوری ریلوے پھاٹک پہ
سنگینوں کا پہرہ بیٹھ جاتا ہے
بھٹائی قتل ہوتا ہے
مگر ہم کچھ نہیں کہتے۔

About The Author