حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوادر کو حق دو تحریک (دھرنے) کے مطالبات پر تو بلوچ قوم پرست اور ترقی پسند سبھی متفق ہیں البتہ دھرنے قائد مولانا عطاء الرحمن اور ان کی جماعت، جماعت اسلامی کے حوالے سے ان کے تحفظات ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ جس صوبے میں چُن چُن کر ان لوگوں کو کئی برسوں سے مارا جارہا ہو جو اپنے عصری شعور کے ساتھ زندہ رہنے کا حق مانگتے ہوں وہاں اچانک جماعت اسلامی کا ایک عام رکن ’’خاص‘‘ رہنما کیسے بن گیا؟
کیا اس کے پیچھے یہ منصوبہ بندی ہے کہ گوادر سیاسی طور پر جماعت اسلامی کے حوالے کردیا جائے؟ ان کے خیال میں جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی ساتھی جماعت ہے اس نے سابق مشرقی پاکستان میں بھی عوام کے حقوق کی تحریک کے خلاف ’’البدر اور الشمس‘‘ جیسی تنظیمیں بنائی تھیں۔ اس جماعت کا ماضی اور حال دونوں رجعت پسندی سے عبارت ہیں۔
سوالات اور بھی ہیں اور تحفظات بھی اور یہ بہرطور بلوچوں کا حق ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ گوادر کو حق دو کی تحریک سے جُڑے رہنا الگ ہونے سے بہتر ہے۔
یہ تحفظات بلاوجہ ہیں نہ سوالات، فوری وجہ تو یہ ہے کہ پچھلے چند دنوں سے بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے میں بلوچ خواتین کا بھی ایک دھرنا جاری ہے۔ خواتین کا یہ احتجاج ان اہلکاروں کے خلاف ہے جو انہیں لکڑیاں اکٹھی کرنے کے دوران ہراساں کرتے ہیں۔
بلوچوں کا کہنا ہے کہ سوئی گیس جس صوبے میں پیدا ہوتی ہے اس صوبے کے لوگ اس سے محروم ہیں اس پر ستم یہ کہ خواتین کو لکڑیاں چننے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ان کے دھرنے کا کسی سطح پر نوٹس نہیں لیا گیا۔
بلوچ دوست کچھ اور مسائل اور مشکلات کا بھی ذکر کرتے ہیں انہیں یہ بھی شکوہ ہے کہ اردو میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) بلوچوں کے مسائل پر بات نہیں کرتا اس کا رویہ بھی کالونیل سسٹم کے اجارہ دار جیسا ہے۔
یہ شکوہ اپنی جگہ اس لئے درست ہے کہ ذرائع ابلاغ بہرطور وہی دیکھاتا ہے جس کی جتنی اجازت ہے مثلاً گزشتہ شب (اس تحریر کے لکھے جانے سے قبل) ذرائع ابلاغ نے سندھ کے بلدیاتی نظام کے حوالے سے بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کا ایک مخصوص حصہ دیکھایا مگر ایم کیو ایم کے عامر خان کا پورا تاریخی بھاشن سنوایا جو رجعت پسندی اور تاریخ کے نام پر جھوٹ سے عبارت تھا۔ خیر ہم گوادر کو حق دو پر بات کرتے ہیں۔
یہ تحریک ایک ماہ مکمل کرچکی۔ مولانا عطاء الرحمن اچانک سامنے آئے اور تحریک کے قائد بن گئے۔ ایک ماہ قبل تک انہیں جماعت اسلامی کے اندر بھی بہت کم لوگ جانتے تھے اب وہ شہرت کے عروج پر ہیں۔
کیا واقعی کسی منصوبے کے تحت انہیں آگے لایا گیا کہ رائے عامہ میں اپنے مسائل و مشکلات کے حوالے سے جو لاوا پک رہا ہے وہ پھٹے تو اس سے جنم لینے والے ردعمل (کسی تحریک) کی قیادت ترقی پسندوں یا بلوچ قوم پرستوں کے پاس نہ ہو؟
یہ سوال بہت اہم ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں کم از کم پچھلے دو عشروں سے سیاسی عمل صرف دکھاوا ہو وہاں ایک احتجاجی تحریک کو مہینہ بھر سے برداشت کرلینا عجیب ہی لگتا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں یہ باتیں اور سوالات سازشی تھیوریوں سے گندھے ہوئے ہیں لیکن سوال پوچھنے والوں کی زبان بندی مکمن ہے نہ ہی تحفظات ظاہر کرنے والوں کی گوشمالی درست۔
گوادر کو حق دو تحریک کی دوسری ممتاز شخصیت مائی زینی ہیں 70سال کی عمر والی یہ بہادر خاتون اس وقت گوادر کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی آواز ہیں۔
دھرنے کے شرکاء کے لئے کھانا ان کی نگرانی میں تیار ہوتا ہے وہ اپنی مادری زبان میں تقریر کرتے ہوئے صرف دو جملے اردو میں ادا کرتی ہیں میری عمر ستر سال ہے، میری آواز پر خواتین گھروں سے نکل آتی ہیں۔
مائی زینی بھی قدیم مقامی ماہی گیروں کے خاندان کی فرد ہیں ماہی گیروں کے درد کو ان سے بہتر شاید ہی کوئی سمجھ سکتا ہو۔ وہ بولتی ہیں تو ان کے الفاظ سننے والوں کے دلوں پر دستک دیتے ہیں۔
زبان سے ناآشنائی کے باوجود ان کے الفاظ اور چہرے کے تاثرات سننے والوں کی آنکھوں میں نمی دوڑادیتے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے گوادر دھرنا نظم و ضبط سے جاری ہے۔
دھرنے والوں کے 14 مطالبات پچھلے کالم میں تحریر کرچکا ان میں سے ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں جس سے یہ تاثر ابھرے کہ شرکا ریاست یا کسی ادارے سے تصادم کے خواہاں ہیں۔
اہم ترین مطالبات میں ایک چیک پوسٹوں کے جنگل کا خاتمہ اور دوسرا منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کو روکنے کے لئے ہے۔ منشیات کی سمگلنگ اور فروخت سے پیدا شدہ مسائل سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت کو سوچنا ہوگا کہ اس حوالے سے جن لوگوں کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہ احتساب سے ماورا کیوں ہیں۔ بالفرض منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کے حوالے سے دھرنے والوں کا الزام درست نہیں تو پھر سمگلروں اور ایجنٹوں کے خلاف کارروائی میں امر مانع کیا ہے۔
کیا حکومت کے مقابلہ میں سمگلر زیادہ طاقتور ہیں؟ دھرنے میں شریک خواتین کا موقف ہے کہ ہمارے بچوں کو جان بوجھ کر منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے تاکہ وہ دنیا سے کٹ کر سماج پر بوجھ بن جائیں۔
گوادر جہاں جدید بستیوں کے نام پر سرمایہ کاری ہوئی،اراضی خریدی گئی یہاں اگر قدیم آبادی کو جدید سہولتیں فراہم نہیں کی جاسکتیں تو کل کلاں جب نئی بستیاں تعمیر ہوں گی تو سہولتیں کہاں سے آئیں گی؟
وزیراعظم نے کہا تو ہے کہ ٹرائلز کے ذریعے غیرقانونی ماہی گیروں کا نوٹس لیں گے۔ لیکن متعلقہ حکام پچھلے دس برسوں سے اس دادا گیری پر چپ کیوں ہیں؟
بعض بلوچ دوست کہتے ہیں حکومت گوادر کو حق دو تحریک کو اس لئے نظر انداز کررہی ہے اگر ان کے مطالبات مان لئے گئے تو یہ تحریک بلوچوں کی سیاسی تحریک کا ابتدائیہ بن جائے گی۔ کیا واقعی ایسا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ بات کا تذکرہ ضروری ہے سوشل میڈیا پر گوادر کو حق دو تحریک کے مطالبات کی حمایت کو اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی قرار دینے والے بھی سرگرم ہیں ان کے سوالات اور اعتراضات میں نفرت بھری ہے۔ کیا ان سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ جو ہزاروں مردوزن اور بچے دھرنے میں شریک ہیں وہ سارے اسٹیبلشمنٹ کے ٹائوٹ ہیں؟
ایک طرف یہ شکوہ ہے کہ مظلوموں کی حمایت نہیں کی جاتی۔ ہمیں مساوی شہری نہیں سمجھا جاتا دوسری طرف حمایت کرنے والوں پر الزامات کی بوچھاڑ ہے۔
یہ رویہ ان لوگوں کا ہے جن کا خیال ہے کہ ’’پورا سچ صرف وہی بولتے ہیں‘‘ میری دانست میں ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان کی صورتحال پر ملک کے دوسرے حصوں سے بساط کے مطابق لوگ بات کرتے اور سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔
الزام تراشی کرنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ان کے بارے میں کچھ لوگ یہ رائے ر کھتے ہیں کہ (الزام تراش) اصل میں پرامن تحریک کو تصادم میں تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ الزامات کی جگالی یا جواب آں غزل تحریر نویس دونوں سے متفق نہیں۔
البتہ یہ سوچنے والی بات ہے کہ جس شہر میں عام ترقی پسند بلوچ کے لئے اظہار رائے کی آزادی کا استعمال گھاٹے کا سودا بنادیا گیا ہو وہاں جماعت اسلامی کو کھلا میدان دینے کا یہ مطلب تو نہیں کہ گوادر کی مقامی سیاست محفوظ ہاتھوں میں رہے تاکہ آگے چل کر اس شہر میں ترقی پسند تنظیموں کو مختلف حلقوں میں کام کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے؟
حرف آخر یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر دھرنے کے مطالبات تسلیم کرے اور اہل گوادر کو ان کا وہ حق دے جو حقیقت میں ان کا حق ہے۔
کیا اس کے پیچھے یہ منصوبہ بندی ہے کہ گوادر سیاسی طور پر جماعت اسلامی کے حوالے کردیا جائے؟ ان کے خیال میں جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی ساتھی جماعت ہے اس نے سابق مشرقی پاکستان میں بھی عوام کے حقوق کی تحریک کے خلاف ’’البدر اور الشمس‘‘ جیسی تنظیمیں بنائی تھیں۔ اس جماعت کا ماضی اور حال دونوں رجعت پسندی سے عبارت ہیں۔
سوالات اور بھی ہیں اور تحفظات بھی اور یہ بہرطور بلوچوں کا حق ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ گوادر کو حق دو کی تحریک سے جُڑے رہنا الگ ہونے سے بہتر ہے۔
یہ تحفظات بلاوجہ ہیں نہ سوالات، فوری وجہ تو یہ ہے کہ پچھلے چند دنوں سے بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے میں بلوچ خواتین کا بھی ایک دھرنا جاری ہے۔ خواتین کا یہ احتجاج ان اہلکاروں کے خلاف ہے جو انہیں لکڑیاں اکٹھی کرنے کے دوران ہراساں کرتے ہیں۔
بلوچوں کا کہنا ہے کہ سوئی گیس جس صوبے میں پیدا ہوتی ہے اس صوبے کے لوگ اس سے محروم ہیں اس پر ستم یہ کہ خواتین کو لکڑیاں چننے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ان کے دھرنے کا کسی سطح پر نوٹس نہیں لیا گیا۔
بلوچ دوست کچھ اور مسائل اور مشکلات کا بھی ذکر کرتے ہیں انہیں یہ بھی شکوہ ہے کہ اردو میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) بلوچوں کے مسائل پر بات نہیں کرتا اس کا رویہ بھی کالونیل سسٹم کے اجارہ دار جیسا ہے۔
یہ شکوہ اپنی جگہ اس لئے درست ہے کہ ذرائع ابلاغ بہرطور وہی دیکھاتا ہے جس کی جتنی اجازت ہے مثلاً گزشتہ شب (اس تحریر کے لکھے جانے سے قبل) ذرائع ابلاغ نے سندھ کے بلدیاتی نظام کے حوالے سے بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کا ایک مخصوص حصہ دیکھایا مگر ایم کیو ایم کے عامر خان کا پورا تاریخی بھاشن سنوایا جو رجعت پسندی اور تاریخ کے نام پر جھوٹ سے عبارت تھا۔ خیر ہم گوادر کو حق دو پر بات کرتے ہیں۔
یہ تحریک ایک ماہ مکمل کرچکی۔ مولانا عطاء الرحمن اچانک سامنے آئے اور تحریک کے قائد بن گئے۔ ایک ماہ قبل تک انہیں جماعت اسلامی کے اندر بھی بہت کم لوگ جانتے تھے اب وہ شہرت کے عروج پر ہیں۔
کیا واقعی کسی منصوبے کے تحت انہیں آگے لایا گیا کہ رائے عامہ میں اپنے مسائل و مشکلات کے حوالے سے جو لاوا پک رہا ہے وہ پھٹے تو اس سے جنم لینے والے ردعمل (کسی تحریک) کی قیادت ترقی پسندوں یا بلوچ قوم پرستوں کے پاس نہ ہو؟
یہ سوال بہت اہم ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں کم از کم پچھلے دو عشروں سے سیاسی عمل صرف دکھاوا ہو وہاں ایک احتجاجی تحریک کو مہینہ بھر سے برداشت کرلینا عجیب ہی لگتا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں یہ باتیں اور سوالات سازشی تھیوریوں سے گندھے ہوئے ہیں لیکن سوال پوچھنے والوں کی زبان بندی مکمن ہے نہ ہی تحفظات ظاہر کرنے والوں کی گوشمالی درست۔
گوادر کو حق دو تحریک کی دوسری ممتاز شخصیت مائی زینی ہیں 70سال کی عمر والی یہ بہادر خاتون اس وقت گوادر کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی آواز ہیں۔
دھرنے کے شرکاء کے لئے کھانا ان کی نگرانی میں تیار ہوتا ہے وہ اپنی مادری زبان میں تقریر کرتے ہوئے صرف دو جملے اردو میں ادا کرتی ہیں میری عمر ستر سال ہے، میری آواز پر خواتین گھروں سے نکل آتی ہیں۔
مائی زینی بھی قدیم مقامی ماہی گیروں کے خاندان کی فرد ہیں ماہی گیروں کے درد کو ان سے بہتر شاید ہی کوئی سمجھ سکتا ہو۔ وہ بولتی ہیں تو ان کے الفاظ سننے والوں کے دلوں پر دستک دیتے ہیں۔
زبان سے ناآشنائی کے باوجود ان کے الفاظ اور چہرے کے تاثرات سننے والوں کی آنکھوں میں نمی دوڑادیتے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے گوادر دھرنا نظم و ضبط سے جاری ہے۔
دھرنے والوں کے 14 مطالبات پچھلے کالم میں تحریر کرچکا ان میں سے ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں جس سے یہ تاثر ابھرے کہ شرکا ریاست یا کسی ادارے سے تصادم کے خواہاں ہیں۔
اہم ترین مطالبات میں ایک چیک پوسٹوں کے جنگل کا خاتمہ اور دوسرا منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کو روکنے کے لئے ہے۔ منشیات کی سمگلنگ اور فروخت سے پیدا شدہ مسائل سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت کو سوچنا ہوگا کہ اس حوالے سے جن لوگوں کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہ احتساب سے ماورا کیوں ہیں۔ بالفرض منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کے حوالے سے دھرنے والوں کا الزام درست نہیں تو پھر سمگلروں اور ایجنٹوں کے خلاف کارروائی میں امر مانع کیا ہے۔
کیا حکومت کے مقابلہ میں سمگلر زیادہ طاقتور ہیں؟ دھرنے میں شریک خواتین کا موقف ہے کہ ہمارے بچوں کو جان بوجھ کر منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے تاکہ وہ دنیا سے کٹ کر سماج پر بوجھ بن جائیں۔
گوادر جہاں جدید بستیوں کے نام پر سرمایہ کاری ہوئی،اراضی خریدی گئی یہاں اگر قدیم آبادی کو جدید سہولتیں فراہم نہیں کی جاسکتیں تو کل کلاں جب نئی بستیاں تعمیر ہوں گی تو سہولتیں کہاں سے آئیں گی؟
وزیراعظم نے کہا تو ہے کہ ٹرائلز کے ذریعے غیرقانونی ماہی گیروں کا نوٹس لیں گے۔ لیکن متعلقہ حکام پچھلے دس برسوں سے اس دادا گیری پر چپ کیوں ہیں؟
بعض بلوچ دوست کہتے ہیں حکومت گوادر کو حق دو تحریک کو اس لئے نظر انداز کررہی ہے اگر ان کے مطالبات مان لئے گئے تو یہ تحریک بلوچوں کی سیاسی تحریک کا ابتدائیہ بن جائے گی۔ کیا واقعی ایسا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ بات کا تذکرہ ضروری ہے سوشل میڈیا پر گوادر کو حق دو تحریک کے مطالبات کی حمایت کو اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی قرار دینے والے بھی سرگرم ہیں ان کے سوالات اور اعتراضات میں نفرت بھری ہے۔ کیا ان سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ جو ہزاروں مردوزن اور بچے دھرنے میں شریک ہیں وہ سارے اسٹیبلشمنٹ کے ٹائوٹ ہیں؟
ایک طرف یہ شکوہ ہے کہ مظلوموں کی حمایت نہیں کی جاتی۔ ہمیں مساوی شہری نہیں سمجھا جاتا دوسری طرف حمایت کرنے والوں پر الزامات کی بوچھاڑ ہے۔
یہ رویہ ان لوگوں کا ہے جن کا خیال ہے کہ ’’پورا سچ صرف وہی بولتے ہیں‘‘ میری دانست میں ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان کی صورتحال پر ملک کے دوسرے حصوں سے بساط کے مطابق لوگ بات کرتے اور سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔
الزام تراشی کرنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ان کے بارے میں کچھ لوگ یہ رائے ر کھتے ہیں کہ (الزام تراش) اصل میں پرامن تحریک کو تصادم میں تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ الزامات کی جگالی یا جواب آں غزل تحریر نویس دونوں سے متفق نہیں۔
البتہ یہ سوچنے والی بات ہے کہ جس شہر میں عام ترقی پسند بلوچ کے لئے اظہار رائے کی آزادی کا استعمال گھاٹے کا سودا بنادیا گیا ہو وہاں جماعت اسلامی کو کھلا میدان دینے کا یہ مطلب تو نہیں کہ گوادر کی مقامی سیاست محفوظ ہاتھوں میں رہے تاکہ آگے چل کر اس شہر میں ترقی پسند تنظیموں کو مختلف حلقوں میں کام کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے؟
حرف آخر یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر دھرنے کے مطالبات تسلیم کرے اور اہل گوادر کو ان کا وہ حق دے جو حقیقت میں ان کا حق ہے۔
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ