گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ میں سرائیکی زبان میں لٹھا ایک خوبصورت جنگلی کبوتر کو کہتے تھے جو سیاہی مائل قسم کے ہوتے ہیں اور اکثر مزاروں کے گنبد ۔ ویران گھروں اور جنگلی زمینوں اور درختوں پر بسیرا کرتے۔ آپ نے حرم پاک کے قریب کبوتر چوک پر یہ لٹھے دیکھے ہونگے اور مدینہ میں بھی جگہ جگہ یہ نظر آتے ہیں۔ البتہ ہمارے ارد گرد جب کھیتوں میں کاشت کے لیے بیج ڈالا جاتا تو لٹھے چڑیاں لالیاں تلیر کوے بلبلیں اور گیرے یعنی فاختائیں آ موجود ہوتے اور ماحول کو بڑا دیدہ زیب بنا دیتے۔اب نظر نہیں آتے۔ میں نے دیہات میں رہ کر یہ تجربہ کیا ہے کہ اللہ کی ہر مخلوق اپنا رزق ساتھ لاتی ہے اور اب جبکہ ان لٹھوں اور گیروں کو ہم نے شکار کر کے نسل تباہ کر دی تو کسان کے حالات تو پہلے سے بہتر نہیں ہوئے۔ میرا اس بات کا ذاتی مشاھدہ ہے کہ جب ہم گندم کا بیج زمین کے اندر دفن کر دیتے تو اس کو چڑیاں۔لٹھے ۔گیرے۔لالیاں ۔بلبلیں نکال کر کھاتیں۔ زمین کے اندر کے کیڑے مکوڑے۔چیوٹیاں یہ دانے اٹھا لیتیں ۔لیکن پھر بھی فصل کی کونپلیں اس تیزی سے زمین سے نکل آتیں جیسے سانپ زبان نکالتا ہے۔ پھر جب گندم کی کونپلیں دو تین انچ کی ہوتیں تو شھر کے ہمارے کچھ دوست اس کو تھوڑا اوپر سے کاٹ کے لے جاتے اور ان نازک کونپلوں کو سکھا کر کوٹ لیتے۔وہ اس کو سونی بولتے۔ یہ سونی سوھن حلوہ پکاتے وقت دودھ میں ڈالی جاتی۔ خیر ہماری گندم کی کونپلیں پھر کھڑی ہو جاتیں اور تیزی سے پھلتی پھولتی۔پھر جب جانور ہمارے کھیت کے راستے سے گزرتے تو وہ ضرور ان ہری بھری گھاس پر منہ مارتے مگر یہ بڑھتی جاتیں۔جب یہ دو فٹ ک ہو جاتیں تو ان پر گندم کے خوشے اور بالیاں لگتیں جن کے اندر دانے بننا شروع ہو جاتے۔ یہ عمل اکثر جنوری میں شروع ہو جاتا۔ اس موسم میں کبھی کبھی تیز ہوا کے ساتھ بارش آتی اور ہماری فصل کو لٹا دیتی پھر بھی فصل آگے بڑھتی رہتی۔جب دانے موٹے ہو جاتے تو ہم آگ جلا کر یہ سبز سٹے بھون لیتے اور وہ ہم کھاتے بڑے نرم اور لذیذ ہوتے۔اس کو ہم تراڑہ کہتے۔ اپریل میں گندم پک کر تیار ہوتی اور ہم کاٹتے جسے مقامی زبان میں لاو کہتے تو ھزاروں پکے دانے اور سٹے زمین پر گر جاتے۔ خیر گڈیاں بنا کے ہم اسے ایک جگہ جمع کرتے جو بھاجڑ کہلاتا۔ یہاں بھی بارشیں اور اندھیری سے نقصان ہوتا رہتا۔ جب فصل کٹ جاتی تو گاوں کے لڑکے کھیت سے گرے پڑے سِٹے اکٹھے کرتے اس کو ہم ۔۔وَڈ ۔۔چننا کہتے تھے ۔اس کو کوٹنے سے ہر لڑکے کو دوسیر تک گندم حاصل ہوتی جو دکاندار اونے پونے ریٹ پر خرید لیتا۔ جو رقم حاصل ہوتی ہم گاوں کے دوست اکٹھی کر کے دیسی مرغی اور دیسی گھی کی ثوبت پکاتے۔ثوبت کا سالن تو ہم خود چونک پر تیار کر لیتے مگر شام کے بعد ہر لڑکا گھر سے دو مانے یعنی دو توے کی پتلی روٹیاں ساتھ لاتا۔ روٹیاں چونکہ سات آٹھ گھروں سے آتیں وہ ایک ترتیب کی نہیں ہوتیں تھیں۔کوئی بڑی کوئی چھوٹی۔۔ کوئی پتلی کوئی موٹی ۔۔کوئی چٹی کوئی رتی۔ان کے بھورے یعنی ٹکڑے بناتے اور ایک بڑے پتروٹے میں سالن ڈال کر بھگو دیتے۔پتروٹہ مٹی کا بنا ایک تھال ہوتا ہے۔ جب ہم یہ ثوبت کھاتے وہ اللہ کی برکت سے ایسی لذیذ بن جاتی کہ ہم آخر میں انگلیاں تک چاٹتے۔ایسا لذیذ کھانا مجھے نہ یورپ میں ملا نہ مڈل ایسٹ نہ مشرق بعید کے ملکوں میں۔ ادھر بھاجڑ پر گندم کو جانوروں کے ذریعے گہایا جاتا۔ہوا کا انتظار کر کے اوپر اڑا کر دانے اور بھوسہ علیحدہ ہوتا۔جس دن گندم تقسیم ہوتی اس دن نائی۔مراثی۔کٹوال۔لوہار۔درکھان اور مانگنے والے فقیروں کاحصہ علیحدہ ہوتا ۔خمس عشر بھی دیا جاتا اور پھر بھی اتنی گندم بچ جاتی کہ سال کا گزارا چل جاتا۔ اب یہ سارا پراسس اس بات کی شھادت دے رہا ہے کہ اللہ پاک ہی فصل کو پیدا کرتا۔اس کی حفاظت کرتا۔اس میں دانے ڈالتا۔ اس میں برکت ڈالتا اور سب مخلوق کے رزق کا ذمہ دار ہے۔آج کل پڑوسیوں کے گھر سالن کی کٹوری بھی نہیں بھیجی جاتی۔ شام کو وظیفہ وصول کرنے والا مولوی بھی نہیں آتا۔ گندم۔باجرہ کی گھنگھڑیاں بھی نہیں بانٹی جاتیں۔ بچوں کا ہوکا بھی نہیں سنائی دیتا۔۔بال بلوڑو ۔مٹی دے روڑو ۔ساڈے گھروں اللہ دے ناں آلیاں گھنگھڑیاں گھن ونجو۔
دوسری طرف لٹھے کا کپڑا ہم پہنتے تھے اور اس میں رومانس اتنا تھا کہ مشھور گیت بنا ؎
لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ مایا۔
آ باٶ سامنے کولوں دی رُس کے نہ لنگھ مایا۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ