گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے اخباری کالموں ۔کتاب کی تصنیف اور فیس بک کی اردو تحریروں میں سرائیکی زبان کے کچھ الفاظ استعمال کرتا ہوں۔میرے بعض احباب میری اس عادت سے جھنجلا کر خفہ سے ہوتے ہیں۔ اب خبر آئی ہے کہ انگریزی زبان کی ڈکشنری میں نئے معروف اردو الفاظ باقاعدگی سے شامل کیے جا رہے ہیں کہ یہ زندہ بانوں کے لیے ضروری ہے ورنہ یہ زبانیں ختم ہو سکتی ہیں۔اسی طرح سرائیکی زبان میں بھی دوسری زبانوں کے معروف الفاظ بولنے اور شامل کرنے میں کوئ حرج نہیں ورنہ پرانے متروک الفاظ تو سمجھ بھی نہیں آتے۔ اب دیکھیں حال ہی میں اردو زبان کا لفظ "اچھا” بھی انگلش ہوگیا۔ اچھا ۔کو کیمبرج انگلش ڈکشنری میں شامل کر لیا گیا ہے.اس کی اصل اردو یا ہندی بتانے کی بجائے اسے انڈین انگلش کا لفظ کہا گیا ہے.
ابّا، اماں، گلاب جامن ، مرچ مسالہ، قیمہ، چمچہ، چڈی وغیرہ پہلے ہی آکسفورڈ اور دوسری انگلش ڈکشنریز میں شامل ہیں.
الفاظ کا یہ اضافہ ایک مسلسل عمل ہے. مثلاً آکسفورڈ ڈکشنری کے مرتبین سال میں چار بار نئے الفاظ شامل کرنے کیلئے میٹنگ کرتے ہیں۔
برطانیہ میں اس کے تمام سابق غلام ممالک کے لوگ آباد ہیں. کاروبار بھی کررہے ہیں. اپنی زبانیں بھی بولتے ہیں، جن کے الفاظ غیر محسوس طریقے سے سب کی vocabulary میں شامل ہورہے ہیں. ایسے الفاظ کو انگریزی بھی گود لے لیتی ہے. آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے صرف ایک ایڈیشن میں ایسے 900 نئے الفاظ شامل کئے گئے۔ جن میں اردو، ہندی ، تیلگو، تمل اور گجراتی کے 70 الفاظ بھی تھے.
اِدھر ہماری طرف یہ حال ہے کہ کوئی اردو تحریر یا گفتگو میں سندھی، پنجابی، سرائیکی یا کسی اور پاکستانی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرلے تو اہلِ وطن اسے جاہل، اجڈ قرار دے دیتے ہیں. ایک دوست کا تو اصرار تھا کہ مہمل بھی اردو کے مخصوص استعمال کئے جائیں یعنی کتاب شتاب، نقل شقل غلط ہیں، کتاب وتاب، نقل وقل بولنا چاہیے.
حالانکہ اردو تو بنی ہی میل جول کے قدرتی عمل سے ہے. اس طرح شدھ رکھنے کی ایسی کوشش کسی بھی زبان کو سنسکرت بناسکتی ہے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ