ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مدعا بیان کرنے کو کسی بھی زبان کے اڑھائی سو سے تین سو الفاظ درکار ہوتے ہیں۔ بول چال کی زبان میں یہی الفاظ مستعمل ہوتے ہیں۔ اگر آپ کچھ اضافی اصطلاحات یا چند محاوروں میں موجود گنجلک یا متروک الفاظ کو بھی شامل کر لیں، تب ساڑھے تین سو سے چار سو الفاظ ہو جائیں کے یا بہت ہوا تو پانچ سو آگے تو ہرگز نہیں بڑھ پا سکیں گے۔ اخباری مضامین کے لیے انہیں الفاظ کا استعمال کافی ہوتا ہے۔ البتہ جو لیکھک اخباری مضامین میں ادبی گلکاری کرنے کے عادی ہوں وہ قارئین کی اکثریت کو ما فی الضمیر سمجھنے کی مشکل میں مبتلا کر سکتے ہیں، یہ اور بات کے اخباری مضامین میں استعمال کیے جانے والے ان کے ذخیرہ الفاظ کا حجم باقیوں کی نسبت ایک ڈیڑھ سو الفاظ زیادہ ضرور ہو جائے گا۔
مدعا بیان کرنے کی خاطر حاشیہ آرائی درکار نہیں ہوتی۔ سیاست ہو یا معاشرت، معاملات بہت سیدھے ہوتے ہیں اور سیدھے سادے طریقے سے بیان ہو سکتے ہیں مگر ایسا کیا جانا وہاں سہل ہوتا ہے جہاں سیاست دیانتدارانہ ہو اور معاشرہ مہذب و متمدن۔ جہاں آپ کو سب اچھا یا زیادہ اچھا دکھانے کو کہا جائے، کچھ کم برا دکھانے کا ذکر بھی کر دیا جائے وہاں آپ کو افسانوی یا علامتی زبان استعمال کرنا پڑ جاتی ہے۔ جس روز سے میڈیا کے عمل سے متعلق ایک مقتدر نے نصیحت کی تب سے میرا تو کچھ لکھنے کو جی نہیں کر رہا۔ میں فیس بک پر شذرے لکھ کر لکھنے کی ٹھرک پوری کر رہا ہوں۔
بات یہ نہیں کہ زبان بندی ہے مگر فرمائش پر نہ لکھا جا سکتا ہے نہ ہی صحافت ہو سکتی ہے۔ اگر یار لوگ ایک سو چینلوں کے لیے موبائل فون کے کیمرے یا وڈیو کیمرے پکڑ کر تصویر کشی کرنے اور تاثر اور موقف پوچھنے کو صحافت سمجھتے ہوں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک طرح سے زبان بندی بھی ہے۔ سب اچھا لکھنے اور دکھانے کی تلقین کے بعد میرا اسی معاملے بارے لکھا طنزیہ مضمون اخبار میں جگہ نہیں پا سکا۔
میری اپنی طبع ہے اور ہر ایک کی اپنی ہوتی ہوگی، میں مصالحت تو کر سکتا ہوں لیکن اپنے مفاد کی خاطر جو تعلقات بنانے سے کمانے تک ہو سکتے ہیں، مصلحت سے کام نہیں لے سکتا۔ ریڈیو ماسکو نے جب اپنی ویب سائٹ پر مضامین کا سلسلہ شروع کیا تو مجھے ریڈیو کا ملازم ہوتے ہوئے بامعاوضہ مضامین لکھنے کی رعایت دی تھی۔ معاوضہ بھی مناسب تھا۔ پاکستان کی طرح نہیں کہ پہلے سات آٹھ سال مفت مضمون لیتے چلے جاؤ اور ہم جیسے مادھو لکھنے کی ٹھرک میں دیتے چلے جائیں، پھر جب مہربانی کرنا چاہیں تو اونٹ کے منہ میں زیرہ دے دیں۔ خیر میرے دو تین مضمون ہی اس ویب سائٹ پر بامعاوضہ جگہ پا سکے تھے کہ بڑے پیار سے مضامین کا فارمیٹ تبدیل کرنے کو کہا گیا۔ یہ کوئی بری بات بھی نہیں تھی اور نہ ہی بڑی بات مگر مجھے اپنا لکھنے کا انداز تبدیل کرنا پسند نہیں تھا چنانچہ مضامین لکھنا چھوڑ دیے۔
پاکستان میں کچھ بھی اچھا ہوگا تو کوئی بھی ملک دشمن تھوڑا ہے، وہ ضرور لکھے گا اور ضرور دکھائے گا مگر جو اتنا برا ہوئے چلا جا رہا ہے اس سے آنکھیں تو نہیں موندی جا سکتی نا۔ کوئی دس بارہ سال پیشتر جب دہشت گردی اور افغانستان سے ہیروئن کی سمگلنگ زیادہ ہو رہی تھی تو میرے ملک کی مستعد ایجنسی نے ایک افسر کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ خوب بحثیں ہوئیں ،موصوف نے چائے کافی پلانے میں بخل نہیں کیا۔ میں نے ان سے عرض کی کہ ” توارش ” یعنی کامریڈ اگر دہشت گردی یا منشیات سے متعلق مجھے علم ہوگا تو میں ان دونوں کا مخالف ہوتے ہوئے آپ کو خود مطلع کر دوں گا مگر میں آپ کے کام کا آدمی نہیں ہوں کیونکہ میں کچھ بھی پیٹ میں نہیں رکھ سکتا۔
اب مجھے اور باقیوں کو کہا جا رہا ہے کہ بہت کچھ پیٹ میں رکھو۔ کم از کم مجھ سے تو ایسا نہیں ہوگا۔ دیکھیے روس میں بھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہے۔ روس کے چینلوں، سرکاری اور نجی دونوں ہی پر روس کی سیاست بارے بات سب اچھا کی صورت میں ہی ہوتی ہے مگر سماجی اور معاشی معاملات میں خرابیوں سے متعلق سب سے جاندار اور منفی رپورٹنگ سرکاری چینلوں پر ہوتی ہے۔ شاید آپ جانتے ہوں کہ روس میں معیشت ہو یا سماجی مسائل سب کا تعلق حکومت سے بنتا ہے۔ حکومت خود چاہتی ہے کہ جو معلومات اس تک اپنے طریقوں اور ذرائع سے نہیں پہنچ پاتیں میڈیا ان کو اجاگر کرکے اسے متوجہ کرے۔
مہنگائی، غربت، بیروزگاری، جہالت، بنیاد پرستی، مذہبی جنونیت، برا نصاب، غیر متوازن طریق تعلیم، صحت کی سہولتوں کا فقدان، تعلیم اور صحت کی سہولتوں تک لوگوں کی رسائی ممکن نہ ہونا اور اسی طرح کے بہت زیادہ مسائل تو ویسے ہی اظہر من الشمس ہیں، ان کے لیے بھی اگر میں عام استعمال کےاڑھائی تین سو الفاظ استعمال نہ کر پاؤں تو میرا لکھنا تو بس لکھنے کی ٹھرک ہی ہوگا۔ ٹھرک کا مطلب ہی ناآسودگی کے باعث کیا گیا ادھورا اور معیوب عمل ہوتا ہے۔
زرداری، فریال، نواز، مریم، سعد رفیق، علیم خان، جہانگیر ترین سب نے لوگوں کی یا ملکی دولت لوٹی ہوگی، ایسے لوگ مجھے بھی کیوں اچھے لگیں گے مگر آپ پہلے مضبوط اور جھٹلائے نہ جانے کے قابل ثبوت تو اکٹھے کریں تاکہ عدالت ان کو عمر قید اور تمام دولت جائیداد کی قرقی کی سزا دے۔ خواہ مخواہ کی شوبازی تو نہ کریں کہ الٹا لوگ انہیں کو لیڈر سمجھنے لگیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر