ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا جب عالمی سطح پر دو عسکری بلاک ہوا کرتے تھے۔ ایک نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن اور دوسرا وارسا پیکٹ کے نام سے جس میں تب کی سوویت یونین کے ساتھ مشرقی یورپ کے وہ ملک شامل تھے جو سوشلسٹ بلاک کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ جبکہ نیٹو میں وہ ملک شامل تھے جو اگرچہ جنگ عظیم میں جرمنی، اٹلی اور جاپان کے خلاف جنہیں فسطائی طاقتیں پکارا گیا تھا، مل کر لڑے تھے اور اتحادی کہلائے تھے۔ مگر جب جنگ عظیم کے بعد معاملات طے ہو گئے تو بھی ان ملکوں نے سوشلزم مخالف ہونے کی روش پر گامزن رہنے کا قصد جاری رکھا تھا۔ اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اختلاف نظام معیشت و اقتصادیات پہ تھا۔ نیٹو میں شامل ممالک سرمایہ دارانہ طرز معیشت کے طرفدار تھے اور وارسا پیکٹ میں شامل ملک چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی سوشلسٹ طرز معیشت اختیار کیے ہوئے تھے۔
آگے چلنے سے پہلے، سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں فوجی دستے متعین کیے جانے، افغان جنگ کے اخراجات کے سبب، سوویت یونین پر اقتصادی دباؤ بڑھ جانے کی وجہ سے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل میخائیل گورباچوف کا اپنے پیش رو آندروپوف کی خواہش یعنی سوویت یونین کی معیشت کی تعمیر نو کرنے کی خواہش کو، جو درحقیقت روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بانی ولادیمیر ایلیچ لینن کی انقلاب لائے جانے کے چند سال بعد جاری کردہ نیو اکانومک پالیسی کا، جس پر لینن کے بیمار پڑ جانے کے بعد عمل درآمد سست پڑ گیا تھا اور پھر ان کی رحلت کے بعد روک دیا گیا تھا، کا ایک نظر ثانی شدہ عکس تھا، کو عملی جامہ پہنانے جانے، جس کے سبب سوویت یونین میں پیداوار اور اقتصادیات کا شدید بحران پیدا ہو گیا تھا، کی تفصیل میں جائے بغیر یہ کہے دیتے ہیں کہ اس کشاکش کی وجہ سے سوویت یونین منہدم ہو گیا تھا۔ کئی نئے ملکوں کے منصہ شہود پر آنے کے علاوہ روس ایک فیڈریشن کی شکل اختیار کر گیا تھا، جس سمیت تمام نئے ملکوں میں نظام سرمایہ داری کی ہی کوئی نہ کوئی مسخ شدہ شکل رائج ہو گئی تھی جو بعد میں سنواری جانے لگی۔
روس میں پہلے صدر بورس یلسن کے بحرانی دور کے بعد جب کے جی بی کے ایک سابق لیفٹیننٹ کرنل ولادیمیر ولادیمیرووچ پوتن کو آگے لایا گیا جو سولہ سال سے صدر یا وزیراعظم چلے آ رہے ہیں تو ملک کے معاشی و سیاسی حالات بہتر ہونے لگے تھے۔ اس دوران سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ جس کو توڑے جانے کی دستاویز پر بیلاروس کے ایک قصبہ میں تب روس کے صدر بورس یلسن، یوکرین کے تب کے صدر لیوند کراوچک اور بیلاروس کے تب کے صدر ویاچی سلاؤ ششکیوچ نے دستخط کیے تھے، وارسا پیکٹ خود بخود ختم ہو گیا تھا کیونکہ وارسا پیکٹ میں سوویت یونین شامل تھا نہ کہ روس اور سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والے نئے ملک۔ اس کے برعکس نیٹو برقرار رہی تھی۔
رفتہ رفتہ مشرقی یورپ کے وہ ملک جو پہلے وارسا پیکٹ کا حصہ تھے، نیٹو میں ضم ہوتے چلے گئے۔ نیٹو کے سرغنہ امریکہ کو خدشہ رہا اور ہے کہ روس اس کے مقابلے میں کسی بھی وقت کوئی مضبوط عسکری بلاک کھڑا کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ پہلے روس نے آزاد ملکوں کی کامن ویلتھ یعنی سی آئی ایس بنائی، پھر مشترکہ معاہدے کی دفاعی تنظیم بنائی، پھر شنگھائی تنظیم تعاون کو فروغ دیا اور برک کے نام سے برازیل، انڈیا، جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر کے بھی ایک تنظیم بنا ڈالی۔
چونکہ جنگ اور تجارت کے لیے سمندر بہت اہم ہوتے ہیں۔ بحیرہ اسود وہ سمندر ہے جس کے ساحل پر روس کے علاوہ ترکی، جارجیا اور یوکرین ہیں۔ ترکی تو پہلے سے نیٹو کا حصہ ہے، رہ گئے جارجیا اور یوکرین، ان ملکوں کی براہ راست سرحدیں روس کے ساتھ متصل ہیں چنانچہ یہاں سیاسی شورشیں برپا کروائی گئیں۔ جارجیا اور یوکرین میں رنگین انقلاب برپا کروائے گئے۔ روس مخالف افراد کو برسر اقتدار لانے میں کردار نبھائے گئے۔ روس پر پہلے جارجیا سے حملہ کروایا گیا جس کو روس نے شدت سے پسپا کیا۔
پھر یوکرین میں روس سے ہمدردی رکھنے والے صدر کے خلاف باقاعدہ اسلحہ کا استعمال کر کے صدر تبدیل کروایا گیا۔ روس نے ایک طرف کریمیا میں ریفرنڈم کروا کے اسے اپنے ساتھ ملحق کر لیا، دوسری جانب یوکرین کے مشرقی خطے میں جہاں روسی النسل آبادی زیادہ ہے، مسلح مناقشے میں مددگار ہو کے دو آزاد ریاستیں بنائی گئیں جن کی آزادی کو ابھی تک روس کے علاوہ، تا حتی روس کے اتحادی ملکوں نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔
پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ روس کے لیے بحیرہ اسود اس لیے بے حد اہم ہے کیونکہ یہ روس کے ساتھ وابستہ گرم پانی کا سمندر ہے۔ زار کے ادوار سے کریمیا ہی روس کی بحریہ کا صدر دفتر رہا ہے دوسرے یہ سمندر ہی روس کو بحیرہ سے منسلک کر کے عالمی بحور تک لے جاتے ہیں۔ بحیرہ روم میں روس کے پاس واحد بندرگاہ جہاں اس کے جہازوں کی ضرورت پڑنے پر مرمت ہو سکے اور جہاں بحری جہازوں کا عملہ زمینی استراحت کر سکے، ملک شام کی بندرگاہ طرطوس ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ملکوں نے پہلے شام کو اتھل پتھل کیا تاکہ شام میں حکومت الٹا کر کے اپنی مرضی کا حکمران لا کے روس کو اس واحد سہولتی مرکز سے بے دخل کر دیں مگر روس نے شام میں فوج بھیج دی اور نہ صرف مغرب کی من مانی نہ ہونے دی بلکہ عراق میں داعش کو تہس نہس کرنے میں اہم کردار ادا کیا اگرچہ روسی میڈیا کی عالمی رسائی موثر نہ ہونے کے سبب مغرب نے سہرا اپنے سر کر لیا۔
پھر کورونا کی عالمی وبا نے سبھی کو مصروف بلکہ تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اس وائرس کے خلاف سب سے پہلے روس نے ہی ویکسین تیار کی مگر اس کی ویکسین کو جو 100 کے قریب ملکوں میں استعمال ہو رہی ہے عالمی تنظیم برائے صحت میں ابھی تک رجسٹر نہیں ہونے دیا گیا ہے کیونکہ یہ اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔
امریکہ اور یورپ کورونا سے سنبھلے تو ایک بار پھر روس کو ڈگمگانے کا خیال آنے لگا۔ روس پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ آور ہونے والا ہے بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ وہ یکم جنوری 2022 کو حملہ کر دے گا۔ روس اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مغرب پہ الزام لگاتا ہے کہ وہ نیٹو کو اس کی سرحد تک پھیلا دینا چاہتا ہے۔ پہلے ہی مغرب یعنی امریکہ، پولینڈ اور رومانیہ میں اپنے میزائل مخالف نظام کی تنصیبات کر چکا ہے۔
ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا مغرب کوئی مناسب جواب نہیں دیتا۔ روس نے روسی النسل آبادی کی معاونت سے یوکرین اور روس کی سرحدوں کے درمیان ”حفاظتی ریاستیں“ یعنی بفر سٹیٹس کھڑی کر لی ہیں لیکن اسے ہرگز منظور نہ ہو گا کہ نیٹو یوکرین میں آ بیٹھے اور یوکرین کو خود میں ضم کر لے۔ دوسری طرف بائیڈن نے دھمکی دی ہے کہ اگر روس یوکرین کی سرحدوں سے فوجیں نہیں ہٹاتا اور ساتھ ہی خود آزاد شدہ نام نہاد ریاستوں کی سرپرستی سے باز نہیں آتا تو ہم روس کی اقتصادیات برباد کر کے رکھ دیں گے اور اس کے علاوہ جو بھی اقدام لینے ضروری سمجھے وہ لیں گے۔ وہائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے تو یہاں تک کہا کہ ضرورت پڑنے پر ہم جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو خارج از امکان نہیں سمجھیں گے۔ یہ بہت بڑی دھمکی ہے۔ اس کے مقابلے میں روس بھی ڈٹا ہوا ہے کہ نیٹو کا روس کی سرحدوں تک در آنا ہمیں ہرگز قبول نہیں ہو گا۔
روس کی معیشت پر امریکہ اور مغرب کے دوسرے ملکوں کی پابندیوں کے بڑے اثرات ہوئے ہیں۔ ڈالر اور یورو کے مقابل شرح مبادلہ دوگنی بلکہ اڑھائی گنا گر چکی ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ غربت کی لکیر تلے گرتے جا رہے ہیں مگر روسی قوم بلا کی محب وطن ہے وہ ایسی باتوں کو اپنی حمیت اور عصبیت کے مقابلے میں کبھی ہبہ بھر اہمیت نہیں دیتی۔
تاہم روس امریکہ اور یورپ کے ملکوں کے اہلکاروں کے اجلاس ہو رہے ہیں تاکہ معاملات کو سلجھایا جائے۔ الجھ جانا اگر روس کے لیے اقتصادی طور پر دشوار ہے تو یورپ کے لیے گیس نہ ملنے سے سرد موسموں سے نمٹنا اور صنعت کے پہیے کو شد و مد سے چلائے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ لگتا ہے کہ ہاتھی کے پیر سے باقیوں کو اپنے پیر نکالتے ہی بن پڑے گی۔ 2022 کے پہلے چھ ماہ بہت اہم ہیں، یاد رکھیے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر