گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج براڈکاسٹنگ ہاوس ڈیرہ اسماعیل خان کافی دنوں کے بعد جانا ہوا تو ماضی کا نقشہ ذھن میں ایک فلم کی طرح گھومنے لگا۔ یہی وہ سٹیشن ہے جہاں سے میں نے ریڈیو پاکستان میں سب ایڈیٹر نیوز کی پوسٹ پر اپنے براڈکاسٹنگ کیریر کا آغاذ کیا اور پھر ملک بھر اور بیرون ملک گھومتا رہا۔ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان نے 15 جنوری 1981 سے اپنی نشریات کا آغاذ کیا اور ہر سال 15 جنوری کو اس کی سالگرہ منائی جاتی ہے ۔ سٹیشن ڈائرکٹر ڈاکٹر الطاف احمد شاہ صاحب ہمیشہ اس یوم کو شایان شان طریقے سے منانے کے لیے بہت تگ و دو کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
چونکہ ملک کے کافی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں اس لیے ریڈیو پاکستان بھی کئی سالوں سے مالی بحران کا شکار ہے۔
ہمارے بعض مالی پنڈتوں پر تو نجکاری کا بھوت ایسا سوار ہے کہ وہ ہر ادارے کو انڈسٹری سمجھتے ہیں حالانکہ ریڈیو پاکستان تو قوم کی آواز ہے اور قوم کی آواز کو نہ بیچا جا سکتا ہے نہ اس آواز کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔ پہلے ہمارے سیاسی رہنما اپنی عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے ریڈیو سٹیشن قائم کرتے رہے۔ ایک روایت کے مطابق خیبر پختونخواہ کے سیاسی رہنما صاحبزادہ عبدالقیوم خان 1930ء کے عشرے میں راونڈٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گیے تو ان دنوں ریڈیو کی نشریات سے بہت متاثر ہوۓ کیونکہ ریڈیو کو ایجاد ہوۓ کئی سال ہو چکے تھے۔ وہ اس کے موجد مارکونی سے ذاتی طور پر ملے اور اس سے درخواست کی کہ وہ ایک ٹرانسمیٹر اس وقت کے صوبہ سرحد کو عطیہ دیں۔ چنانچہ مارکونی نے خود آ کر یا اس کی کمپنی کے کارندوں نے 1935ء میں پشاور ریڈیو سٹیشن قایم کر دیا جو شاید برصغیر کا پہلا سٹیشن تھا۔ مارکونی نے تیس ریڈیو سیٹ بھی دیے جو پشاور کے خوانین کے ہجروں میں رکھے گیے اور عام لوگ نشریات سنتے تھے۔بات دور چلی گئی
ریڈیو پاکستان ڈیرہ ہر سال جنوری کے مہینے میں اپنی سالگرہ منایا کرتا ہے اور انہی دنوں میں سردی اپنے زوروں پر ہوتی ہے ۔پچھلی دفعہ تو میں الطاف شاہ صاحب کو شاکر شجاع آبادی کا یہ شعر سنا کر؎
میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کردے۔۔
جو روٹی رات دی پوری کریندیاں شام تھی ویندی۔
درخواست دے آیا کہ وہ سالگرہ مارچ میں منایا کریں تاکہ ہم پھولوں کی بہار میں شرکت کر سکیں۔ ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان ڈیرہ کی سالگرہ کے موقع پر اپنے سبزہ زار میں بہت بڑی محفل موسیقی کا اہتمام کیا کرتا تھا۔ جس میں سارے ملک کے گائیک حصہ لینے آیا کرتے اور ایک دوسرے کے گانے کے رنگ‘ انگ اور ڈھنگ سے آشنائی حاصل کرتے۔ اکٹھے رہتے دعوتیں ہوتیں میل میلاپ سے محبت اور خوشیاں بانٹتے‘ اپنے اپنے ہاں آنے جانے کی ایک دوسرے کو تاکیدیں کرتے اور یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اسطرح سالگرہ کی تقریب میں ملک کے نامور شعر و نغمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کو دعوت نامے ارسال کئے جاتے اور اس جشن کی دھوم سارا سال مختلف طبقہ ہائے زندگی میں سنائی دیتی رہتی۔ مگر اب مالی وسائل کے محدود ہونے اور حکومت کی ریڈیو پر توجہ کم ہونے کی وجہ سے ایسی تقاریب کم کم نظر آتی ہیں۔ ریڈیو پاکستان کا قوم میں شعور و آگاہی پیدا کرنے میں ہمیشہ مثبت کردار رہا ہے اور موجودہ حالات میں جہاں ریڈیو عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کا بڑا موثر ذریعہ ابلاغ ہے وہاں اس کے پروگراموں میں وطن سے محبت امن و امان‘ بھائی چارے اور اس کے استحکام کی فضا کو بحال رکھنے میں بڑا اہم رول دکھائی دے رہاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سماجی ، معاشرتی اور سیاسی شعور کی بیداری ، تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے میں ریڈیو پاکستان کا اہم کردار رہا ہے ۔سن 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایک طرف جہاں ہماری بہادر افواج کے شیر جوانوں نے پاک سر زمین کے دفاع کیلئے اپنے لہو سے جرات و بہادری کی نئی داستانیں رقم کیں۔ وہاں دوسری طرف وطن کی محبت سے سرشار ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہنر مندوں، گلوگاروں،موسیقاروں، شاعروں اور عملے نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسے ایسے انمول اور شاہکارملی نغمے اور ترانے تیار کیے جو آج بھی سننے والوں میں وطن کی حفاظت کیلئے مرمٹنے کا جوش اور ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی ملک اور قوم کیلئے ریڈیو پاکستان کی بے شمار خدمات ہیں جن میں اقتصادی، زرعی، سماجی، سیاسی، تعلیمی،ادبی،دینی اور ثقافتی شعبوں میں مباحثوں، ڈراموں، فیچرز، دستاویزی، پروگراموں، مذاکروں، عام بات چیت، موسیقی اور خبروں کے ذریعے لگاتار پاکستانی قومیت اور ثقافت کو اس بھرپور انداز میں اجاگر کرنا شامل ہے جس کی ہمارے ہاں کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ ہماری دعا ہے کہ ریڈیو اس طرح پھلتا پھولتا رہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ