رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاترا اور سفر میں فرق ہے۔ سفر تمام ہوتا ہے۔ یاترا ، خواہش _ ناتمام ہے ۔ عشق _ حقیقی کے سالک کی طرح یاتری کی تقدیر تشنگی ہے۔مسافر کی مراد منزل ہے۔یاتری کی منزل قلب و نظر کی روشنی ہے۔ دیشوں ، شہروں ، بستیوں اور ان میں آباد لوگوں تک رسائی کے بہت سے راستے ہوتے ہیں۔ سب سے معتبر راستہ مگر محبت کا ہے۔ محبت کے بغیر یاترا، پر خطر سفر ہے۔ یاتری ، حیرت کے جہان کے سالک ہوتے ہیں۔ بے قرار زائر ، زیارت سے قرار پاتے ہیں ۔شاعر، علامت اور استعارے سے حسن کے بیان کو گدلا کرتے ہیں۔ ولی اپنی کرامتوں کے باوجود زبان کے کوہ_ نور کے سامنے چندھیا جاتے ہیں۔ یاتری کا بیان بس مقتول کے بیان _ حلفی کی طرح "کٹا پھٹا” سچ ہوتا ہے۔ ہماری وسیب یاترا کئی قرنوں پر محیط ہے۔ ہند سندھ کی داستان ہے۔بر صغیر کی کہانی کیلاش سے سندھو دریا کے ساتھ سندھ وادی تک چلتی ہے۔ مان سروور سے موئن جو دڑو تک سندھو کا دھارا تہذیب و تمدن کا امرت دھارا ہے۔ سمبارا سے سسسی تک محبت کی ایک لا مختتم داستان ہے۔ مونجھ کی کہانی ہے۔مزاحمت کا رزمیہ ہے۔ روح کی مونجھ عورت کا جسم بن کر لوک شاعری میں وسیب کی داستان کہتی ہے۔ کہانی اور داستان میں فرق یہ ہے ۔کہانی ختم ہو جاتی ہے ، داستان ناتمام اور جاری رہتی ہے۔قصہ در قصہ چلتی ہے۔ وسیب کی طولانی داستان اساطیر کی چنڑی اوڑھے کسی حسینہ کی طرح ہمارے ساتھ چلتی ہے۔
وسیب یاترا ، لوکائی سے ملنا ہے۔ افتادگان_ خاک کی زیارت ہے۔ دشت پیمائی ہے۔ تاریخ اور تہذیب سے مصافحہ ہے۔ کسی مزار پر منوتی کے چراغ کی لو کے ساتھ جلنا ہے۔ دھمال ڈالنے والوں کی محرومیوں اور غربت کی تفہیم ہے ۔آثار _ قدیمہ کی مدد سے تاریخ کی تعمیر_ نو ہے۔تھر کے موروں کے ساتھ ناچنا ہے۔ چولستان کے ہرن کے ساتھ بھاگنا ہے ۔ سندھ کے ملاحوں اور موروں کے ساتھ دریا کی لہروں پر چلنا ہے ۔ شاہ رکن _ عالم کے مزار کے جنوبی راستے سے مزار کے تعمیراتی معجزے میں ولایت کے جلووں کا نظارہ ہے۔ گڑھی خدا بخش کے گنج _ شہیداں میں سوئے زمیں زادوں کے خون کے رنگ کی سرخی ہے:
عشق از مشت_ خاک آدم ریخت
آں قدر خوں کہ رنگ_ عالم ریخت
(عشق نے آدمی کی خاک سے اتنا خون نچوڑا ہے کہ دنیا رنگین ہو گئی ہے)
یاترا میں سماجی ضمیر کی معطلی کے بعد وہ ابدی، لامتناہی، تکثیری اور متنوع جہان دکھائی دیتا ہے جسے سندھ وادی کہتے ہیں۔ یہ ثقافتی پاکستان ہے جو کلچرل فیڈرل ازم کا مظہر ہے۔ سندھ وادی جس کے مور اور موہانے ، بابل و نینوا تک تجارت کرتے تھے اور جس کے دونوں کناروں پر آباد وسیب کے سورما عام لوگ ہیں۔ ایسے جہان کی سیر محبت کی داستان ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ پوسٹ کولونیل دنیا میں جدیدیت پر استوار استعمار نے عقل سے زیادہ عقیدت کی سرپرستی کی ہے۔ مذہبی تفریق کو فرقوں اور نفرت میں بدلا ہے۔ پوسٹ ماڈرن عہد میں سندھ وادی مگر تاریخ کی سامراجی کتاب کو مشال فوکو، ایڈورڈ سعید، گیاتری سپوک، ہومی بھابھا اور ناصر عباس نیر کی مابعد نوآبادیاتی فکر کی روشنی میں پڑھ رہی ہے ۔ آہستہ آہستہ سامراجی پیراڈائیم کی تفہیم ہو رہی ہے۔ مقامی آدمی کی مونجھ کو اسلم جاوید، عاشق بزدار، اشو لال اور رفعت عباس نے مزاحمت آشنا کیا ہے۔ کبیری بیانیوں کے بعد ہمارا بیانیہ ہماری تاریخ بن رہا ہے۔ پوسٹ ماڈرن تفہیم کی بھٹی سے کندن ہو کر ہماری عقیدت ، اندھے اعتقاد کی دشمن ہے اور دلیل کی برہان_ قاطع کے علاوہ ہماری ہمارے پاس کوئی ذوالفقار نہیں ہے۔
سرائیکی وسیب دریائے سندھ کی سلطنتوں کا حصہ ہے اور وسیب کا قصہ راوی اور چناب کے کناروں پر آباد وسیب کے مرکزی شہر ملتان سے جڑا ہوا ہے۔ ایک پر امن ، کثیر المذہب اور کثیر اللسان شہر جہاں موحد پرہلاد،سہروردی بہاؤالدین ذکریا اور نزاری اسماعیلی، پیر شمس سبزواری ، پرامن ہمسائے ہیں۔ ایک قدیم اور عظیم شہر، جہاں ڈاکٹر اسلم انصاری ، ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹر اسد اریب اور ڈاکٹر انوار احمد ، علم و ادب کی آبرو ہیں۔ جہاں فیروز پور کے پنجابی گھرانے کا ایک راجپوت، سرائیکی شاعری کا امام ہے ۔شمیم عارف ملوہے کا مدح سرا ہے اور رفعت عباس ملتان اور مقامیت کا سفیر ہے :
سنڑدے ہائیں جو پہلے تاں خود ان ملتان بنایس
وت کتھاہیں نیل جو بچیا ایہ اسمان بنایس
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ