نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دُعا کے رَتھ پر ۔۔۔||گلزار احمد

ان اشعار میں روایت کو فکری پرواز کے اندر محبوس کر کے صائمہ قمر نے الفاظ میں ایسا ڈھالا ہے کہ پڑھنے والا سوچوں کے سمندر میں ڈوب جاتاہے ۔ ایک اعلی تخیل کو لفظوں کا لباس پہنا دینا اور ان کو زبان عطا کرنا ایک جادوگری ہے اور یہ ہنر صائمہ بہتر جانتی ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صائمہ قمر کی نظموں کی کتاب ۔۔دعا کے رتھ پر ۔حال ہی میں شائع ہوئی ہے اور انہوں نے مجھے یہ کتاب دعاوں کے ساتھ بھجوا دی ۔صائمہ قمر ادب کی دنیا کی معروف شخصیت ہیں اور ان کے تین مجموعے ۔۔۔ مجھے بارش میں جانا ہے ۔۔۔قرض مٹی کا ۔۔۔اور ۔۔حسین ؓ کی کہکشاں ہے کربل ۔۔
شائع ہو چکے ہیں۔ ڈیرہ میں مختلف تقاریب میں وہ شامل ہوتی رہتی ہیں اور ادبی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ زیر نظر کتاب ۔۔دعاوں کے رتھ پر ۔۔ میں زیادہ نظمیں اہل بیت سے عقیدت اور ان کی شان سے متعلق ہیں اور اہل بیت اطہار پر عقیدت کے پھول نچھاور کیے گیے ہیں جو ان کے روحانی تخیل کی غمازی کرتی ہیں ۔
کچھ نظمیں ان کے فکری ارتقا کی ترجمان ہیں ۔
کتاب کے صفحہ 58 پر دعا کے عنوان سے جو نظم لکھی وہی کتاب کا ٹائیٹل بن گئی۔؎
دعا کے رتھ پر سوار لڑکی
تمھاری آنکھوں کو
معجزوں پر یقین کیوں ہے۔
زمین ہے بنجر
فلک مقفل
نوائیں بے بس
تمنا بے کل
دعا کے رتھ پر سوار لڑکی
گماں یقین میں بدل سکے گی؟
کسی بھی معجز نما گھڑی کو
وہ اپنی مٹھی میں بھر سکے گی؟
*
اس نظم کو پڑھ کر میں خود بھی اس نتیجے پر پہنچا ہوں کی اسی کو کتاب کا ٹائیٹل ہونا ہوناچاہیے تھا مگر صائیمہ قمر نے کسی مصلحت کے تحت ٹائیٹل سے ۔۔لڑکی ۔۔کا لفظ حذف کر دیا اورصرف۔ دعا کے رتھ پر ۔رہنے دیا۔
کتاب کے صفحہ 25 پر ۔لفظوں کی کماری ۔کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس کے چند اشعار یہ ہیں ؎
اس نے تو مجھے مجھ سے ملایا ہے مگر میں ۔۔۔
خود سے بھی کبھی مل نہ سکی ہجر کی ماری ۔۔
لب تک نہ گیا حرف تمنا میری قسمت ۔
معنی سے تہی رہ گئی لفظوں کی کماری ۔۔۔
*
May be art
ان اشعار میں روایت کو فکری پرواز کے اندر محبوس کر کے صائمہ قمر نے الفاظ میں ایسا ڈھالا ہے کہ پڑھنے والا سوچوں کے سمندر میں ڈوب جاتاہے ۔ ایک اعلی تخیل کو لفظوں کا لباس پہنا دینا اور ان کو زبان عطا کرنا ایک جادوگری ہے اور یہ ہنر صائمہ بہتر جانتی ہے۔
وہ ارد گرد کے ماحول سے بھی بہت متاثر ہوئی اور اس کے حساس قلم نے ۔۔۔صفحہ 47 پر ۔۔مسافر خوابوں ۔۔کے عنوان سے ایک نظم لکھی ۔اس نظم میں ایک جگہ کہا؎
جس دیس کا حاکم تاجر ہو ۔۔
اس دیس کے باسی چھریوں سے۔
کٹ مرتے ہیں کٹ مرتے ہیں۔
خوابوں کے سفر میں رہنا تم ۔
سب خوابوں ہی میں بستے ہیں۔
*
صفحہ 106 پر خوبصورت الفاظ کو غزل میں ڈھال دیا؎
ہم نے کب تم سے بغاوت کی ہے۔
سر اٹھانے کی جسارت کی ہے۔
آج وہ ہنس کے ملا ہے مجھ سے۔
ہائے! یہ کیسی عنایت کی ہے۔
ایسی خوش بختی کہ اک دن اس نے۔
میرے گھر آ کے عیادت کی ہے۔
*
صفحہ 109 پر نذرِ فیض پر جو اشعار لکھے وہ بھی کمال کے ہیں۔؎
آشنا تک بھی نہیں اتنی ملاقاتوں کے بعد۔
قدر کیا جانیں گے پھر خاطر مداراتوں کے بعد۔
آنکھ میں اُترا ہے موسم اشک ہائے درد کا۔
ہوگئی جل تھل زمین دل کی جو برساتوں کے بعد۔
خواب کیا دیکھا کہ ہم پر جاگنا واجب ہوا۔
عمر بھر جاگا کیے ہم شوق کی گھاتوں کے بعد۔

About The Author