۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ایک ایسا شخص (پریانتھا کمار) ہجوم کی بھینٹ چڑھ گیا جو غریب الدیار تھا اور وہ ایک ایسے شہر میں ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا جو صنعتی شہر کا درجہ رکھتا ہے۔
پاکستان کا المیہ ہے کہ اس کے صنعتی و نیم صنعتی، زرعی و نیم زرعی شہر، دیہات، قصبے، میٹروپولیٹن شہر اور شہروں کے پوش علاقوں کے مکینوں کے روّیے یکساں ہیں، سوچ میں مماثلت ہے اور طرزِ زیست ایک جیسا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہجوم کی پیدائش کیسے ہوئی؟ کس نے اور کیوں کی؟ سوال یہ بھی ہے کہ فرد اور ہجوم کو ملزم یا مجرم کو سزا دینے کا اختیار کیسے ملا، یا اُن کی طرف سے اس اختیار پر قبضہ کیسے کیا گیا؟ مزید براں ریاست کا اس کشمکش میں کیا کردار رہا ہے؟ ان سوالات کے جوابات تفصیل طلب ہیں۔
قراردادِ مقاصد: مذہبی حساسیت کی پہلی اینٹ
قیامِ پاکستان کے بعد ہجوم کی پیدائش، انفرادی سطح پر فیصلوں پر قبضے اور اختیار کی تاریخ کا آغاز مارچ 1949 میں قراردادِ مقاصد سے ہوتا ہے۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب پاکستان میں مذہبی حساسیت کی پہلی اینٹ رکھی گئی۔
پھر مرحلہ وار اینٹ سے اینٹ جڑتی گئی اور عمارت کھڑی ہوتی چلی گئی۔ قراردادِ مقاصد کے ذریعے ریاست کو مذہبی بنیادوں پر شناخت اور تشخص کا حق تفویض ہوا، گویا آنے والے وقت میں ریاست کو فرد، افراد کے گروہوں کی زندگیوں کا معاملہ طے کرنا تھا۔
یوں ریاست ہر دَور میں فرد، افراد کے گروہوں کو اپنی ضرورت کے تحت اور مرضی کے مطابق شناخت دے کر زندگیوں کا رُخ متعین کرکے اُنھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی مگر ریاست کو اُس اندیشے کا شاید گمان تک بھی نہ تھا جو امرتیا سین نے اپنی کتاب (Identity And Violence) میں ظاہر کیا: ’یہ سوال اہم نہیں کہ مذہب چاہے اسلام ہو ،عیسائیت یا ہندومت، اَمن پسند ہوتا ہے یا اَمن پسند نہیں ہوتا؟ اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی شخص ،مسلم، ہندو اور عیسائی، اپنے مذہبی عقائد اور اعمال کو اپنے ذاتی تشخص کے دوسرے حوالوں کے ساتھ ہم آہنگ کرسکتا ہے یا نہیں؟ کسی بھی شخص، مسلم، ہندو، عیسائی کی مذہبی یا ثقافتی وابستگی کو محض اجتماعی تشخص کے طورپر دیکھنا بہت زیادہ مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔‘
قیامِ پاکستان کے ابتدائی عرصے میں ریاست کو نظریاتی شناخت دینے کا جزوی ردِعمل بھی سامنے آتا رہا۔
جوگندر ناتھ منڈل دلت تھے جو پاکستان کے پہلے وزیرِ قانون اور انصاف تھے۔ وہ یہ انڈین نیشنل کانگریس کی اس وجہ سے مخالفت کرتے تھے کہ اُن کے نزدیک کانگریس پر اُونچی ذات کے ہندوؤں کا قبضہ اورتسلط ہے اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب ریاست میں مذہب کا کردار بڑھنے لگا تو لیاقت علی خان کو اپنا استعفیٰ دے کر انڈیا لوٹ گئے۔
‘اسلام کو خطرہ ہے’ کا نعرہ
یہاں ہم قیامِ پاکستان سے اکیسویں صدی تک اس ملک کی تاریخ کے اجمالی جائزے کے ذریعہ یہ جاننے کی سعی کرتے ہیں کہ قراردادِ مقاصد کے ذریعے جس مذہبی حساسیت کی بنیاد رکھی گئی تھی اُس میں مُرورِ ایام کے ساتھ شدت کیسے آئی اور ہجوم کیونکر فیصلوں اور اختیارات پر قبضے کی جانب مائل ہوا؟
قراردادِ مقاصد سے 1958 تک مذہب کے نام پر ریاست کو نظریاتی شناخت دینے کا جتن ہوتا رہا۔ یہ جو نظریاتی شناخت دی جانے کی کوشش ہورہی تھی اس کے اندر سماجی سطح پر کامیاب زندگی گزارنے کا کوئی لائحہ عمل نہیں تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1952 میں پہلی مرتبہ ‘اسلام کو خطرہ ہے’ کا نعرہ لگا۔
حمزہ علوی اپنی کتاب ’تشکیل پاکستان، مذہب اور سیکولرازم‘ میں لکھتے ہیں: ‘اسلامی نظریے اور اسلامی شناخت کے نعرے تو بنگالی غصے کا توڑ (Counter) کرنے کے لیے بلند کیے گئے تھے۔ بنگالیوں کی اصل بے چینی کی وجوہات کو سمجھنے کے بجائے یہ دلائل دئیے گئے کہ ہم سب مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں ،اس لیے ہم بنگالی ،سندھی ،بلوچ یا پٹھان نہیں ہوسکتے’۔
اصل میں ہوا یہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد مذہبی علما نے پاکستان کا رُخ کیا۔ اسی طرح مدارس بھی ملک کے مختلف شہروں میں منتقل ہوئے۔ اِن علما کا خیال تھا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہو گی۔
مذہبی علما اور اُس دَور کی سماجی، سیاسی و مذہبی صورتِ حال کا اندازہ اس پہلو سے لگایا جائے کہ قراردادِ مقاصد قیامِ پاکستان کے دو سال کے اندر اندر منظور کر لی گئی تھی۔ یوں ابتدائی عرصہ میں ہی علما کا ریاستی اُمور پر واضح اثر محسوس ہونا شروع ہوا۔ یہ اثر اُس وقت زیادہ پنپ اُٹھا جب 1953 میں احمدیوں کے خلاف باضابطہ تحریک چلی۔
احمدی کمیونٹی کے خلاف مشتعل ہجوم کی جانب سے پرتشدد واقعات پیش آئے۔ تحقیقاتی کمیشن بنایاگیا تاکہ فسادات کے محرکات کا کھوج لگایا جائے۔ ایک رپورٹ تیار ہوئی جو "منیر انکوائری رپورٹ”کا عنوان رکھتی ہے۔ اس رپورٹ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کس طرح مذہبی طبقہ مذہب کو سیاسی اقتدار کے لیے استعمال کررہا تھا۔
اسی مُدت میں باربار اس پہلو کو بھی پروپیگنڈا کی سطح پر اُجاگر کیا جاتا رہا کہ اس ریاست کا حصول مذہب کے نام پر ہوا تھا، لہٰذا ریاست کو مذہبی ہونا چاہیے۔
اس پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ نکلنے لگا کہ غیر مسلم طبقے کے اندر بے چینی پیدا ہونے لگی اور وہ خود کو ریاست سے لاتعلق محسوس کرتا پایا گیا، اُس کے سیاسی، سماجی و مذہبی حقوق چھینے جارہے تھے اور اُس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا۔
(یہاں واضح کرتے چلیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پھیلے احمدی کمیونٹی، ہزارہ کمیونٹی، شیعہ سنی معرکہ آرائیاں، اقلیتوں پر ہجوم کے دھاوے جیسے بڑے واقعات کا بیان اورتجزیہ اس تحریر کا مقصود نہیں۔)
ایوب، بھٹو اور ضیا
سنہ 1958 میں پہلے فوجی آمر ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ یہ فوجی آفسر مذہبی نہیں تھا۔ انھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے’ اسلامی’ کا لفظ بھی نکال دیا تھا۔ مگر جب اُن کا اقتدار کمزور پڑنے لگا تو مذہب کے سیاسی کردار میں پناہ لینا پڑی، اگرچہ اُس وقت تک پانی سر سےگزرچکا تھا۔
اقبال احمد لکھتے ہیں: ‘1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کا ستارہ گردش میں آ گیا ،چنانچہ دین اور حکومت کے تعلق پر اُنھوں نے جو روشن دلانہ نقطہ نظر اختیار کیا تھا، وہ اب ختم ہو گیا۔۔۔ جب شورش بڑھتی گئی اور پریشانی کی آخری ساعتیں آگئیں تو خود ایوب خان نے مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی نحیف سی کوششیں کی تھیں۔’
اقتدار جب ذوالفقار علی بھٹو کے پاس پہنچا تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو عام انتخابات میں کثیر تعداد میں ووٹ پڑے تھے جو کسی مذہبی نعرے کی بنیاد پر نہیں، عوامی نعروں کی بنیاد پر ملے تھے۔
مگر تھوڑے ہی عرصہ بعد ذوالفقارعلی بھٹو کے اندازِ سیاست پر بھی قراردادِ مقاصد کے اثرات پڑنا شروع ہوگئے۔ اقبال احمد کے مطابق: ‘اسلام ازم کے خلاف آخری بار اُنھوں نے اس وقت سر تسلیم خم کر دیا جب 1977 کے موسمِ گرما میں برسرِاقتدار رہنے کی آخری کوشش کر رہے تھے۔’
ضیا الحق کو اسلام کے نام پر اپنے ظالمانہ اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کی صورت میں ایک نہایت موثر راستہ نظر آ گیا تھا۔ انھوں نے مطالعہ پاکستان کی تدریس کو لازمی قرار دیا جس کے بعد تاریخ کو دوبارہ لکھنے کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست نے فرقہ واریت کو سماج کا حصہ بنا ڈالا اور ریاست کے اندر تشدّد اور نفرت کی بنیاد پر لشکر بننے کی تاریخ شروع ہوئی۔
ریاست کے اندر لشکروں کی اِجارہ داری قائم ہوتی گئی اور ریاست کے اندر کئی ریاستیں بنتی گئیں۔ ضیا الحق نے دیوبندی مکتبہ فکر کی سرپرستی کی۔ طاقتور فوجی آمر کی جانب سے دیوبندی مکتبہ فکر کی سرپرستی سے دیگر مسالک بالخصوص شیعہ کمیونٹی کے اندر خوف اور اندیشے جنم لے اُٹھے۔ دیوبندی علما کو زیادہ توجہ ملی تو سنی مکتبہ فکر کے دوسرے گروہ بھی تشویش میں مبتلا ہو اُٹھے۔
ضیا الحق کے سابق ملٹری سیکرٹری نے راقم کو اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ بریلوی مکتبہ فکر کے ایک بڑے عالم (جو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اسلام آباد میں دھرنوں کی بابت شہرت کے حامل ٹھہرے) ضیاالحق سے ملاقات کے لیے آتے رہتے تھے۔
چونکہ ضیا دیوبندی مسلک کو اہمیت دیتے تھے یوں وہ مذہبی عالم ضیا کی توجہ سے محروم رہے۔ ضیا کے دورِ حکومت میں سنی، شیعہ مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ اسی دور سے فرقہ واریت کو فروغ ملا۔ پھر اگلی دہائی فرقہ واریت کے حوالے سے خون ریز تاریخ رکھتی ہے ۔
شیعہ، سنی تکرار اور مشرف کا دور
شیعہ، سنی تنازعہ پاکستان کے شہر ضلع جھنگ میں زیادہ شدت کا حامل رہا۔ اُس زمانے میں سخت فسادات ہونے لگے۔ جھنگ شہر دوحصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ دونوں مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے علاقے میں نہیں جاتے تھے۔ اُس وقت سرائیکی بیلٹ میں شیعہ گدیوں کی بڑی اہمیت تھی۔ ایسے علاقوں میں جب کوئی عام طالب علم لڑکا سفر کر رہا ہوتا اور کوئی دوسرا لڑکا بس پر سوار ہوتا تو بس کا کنڈیکٹر کہتا ‘سیٹ چھوڑ دو، سید لڑکا آ گیا ہے’۔
اُس زمانے میں مخصوص مذہبی گروہ طاقتور ہوتا چلا گیا۔ اُس مذہبی گروہ کے رہنما کا ایک واقعہ ایک مذہبی سکالر نے مجھے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ جھنگ کی ایک مسجد پر اُس مذہبی گروہ کا قبضہ ہوگیا۔
ایک روزنمازِ جمعہ کے بعد جب چند لوگ مسجد میں رہ گئے تو وہاں پر موجود ایک نمازی نے اُس رہنما سے پوچھا کہ پچھلا جلسہ کامیاب کیوں نہیں ہوا، تو انھوں نے آگے سے جواب دیا کہ’جب تک کسی جلسے میں لاشیں نہ گریں، لوگ مارے نہ جائیں تو وہ جلسہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔’
ضیا کے بعد جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضہ تک سیاسی جماعتیں استحکام نہ پاسکیں۔ نوے کی دہائی میں بےنظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں اپنے طرزِ حکمرانی میں زیادہ مختلف نوعیت کی نہیں تھیں۔
پھر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور اپنے دَور میں بلند آہنگ فیصلے کیے۔ لال مسجد آپریشن کروایا، مگر اس سب کے باوجود مذہبی گروہوں کو بھی ساتھ رکھا۔
مشرف نے 2002 میں انتخابات کروائے جن کی اہم بات مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جس کو متحدہ مجلسِ عمل کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد میں چھ مذہبی جماعتیں اتحاد بنا کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں جن میں جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ف بھی شامل تھیں۔
اس جماعت نے الیکشن میں کافی حد تک نمایاں کامیابی سمیٹی۔ خیبر پختونخوا میں اس اتحاد نے، جس کو ‘ملا، ملٹری الائنس’ کہا جاتا تھا، حکومت سازی کی تھی۔ اسی طرح انھوں نے بلوچستان میں بھی ق لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی گئی۔
مشرف نے نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کیں۔ اسلام آباد کی ایک جامعہ کے اُس وقت کے صدرِ شعبہ نے راقم کو بتایا کہ پرویز مشرف نصاب میں تبدیلیاں لانا چاہتا تھا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتا تھا مگر وہ بھی مذہبی ردِعمل کے خوف سے ایسا نہ کرسکا تھا۔
فرد اور ہجوم کا وہی چہرہ رہا، جو ریاست کو پسند ہوتا
قراردادِ مقاصد کے بعد ریاست کی جانب سے دی جانے والی ہر دَور کی شناخت کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرد، ہجوم اور سماج کا وہی چہرہ رہا جو ریاست کو پسند ہوتا۔ اپنی مرضی کی شناخت کی صورت گری کے لیے ریاست کے پاس کئی ہتھیار تھے جن کا وہ استعمال کرتی رہی۔ یہ قومی سلامتی، حُب الوطنی، قومی شناخت، غداری، مذہب، خوف، تشدّد اور سچ مچ کے ہتھیاروں کی صورت میں تھے۔
پاکستانی سماج، سماج نہ بن سکا۔ یہ محض لسانی، علاقائی، ثقافتی، مذہبی ومسلکی، معاشی و دیگر مختلف گروہوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔ اس گروہوں کے مجموعے کو ہجوم کہا جاسکتا ہے، سماج نہیں۔ اگرچہ ہجوم کے مختلف گروہوں کو اپنی مرضی کی شناخت بھی نہ مل سکی تاہم جب اِن گروہوں کو شناخت سے محروم رکھا گیا اور ریاست نے اپنی مرضی کی شناخت دی تو ردِعمل میں اِن میں انتہاپسندی کا عنصر پیدا ہونا شروع ہوا۔
چونکہ قراردادِ مقاصد کے بعد ریاست نے فرد اور سماج کی شناخت اورتشخص کے فیصلے جاری رکھے،لہٰذا ایک وقت میں پاکستانی مسلمانوں کے اندر صحابہ کی حُب انگڑائی لے اُٹھی۔ نتیجے میں سپاہ قائم ہوئی۔
گھرگھر سپاہ کے پرچم لہرا اُٹھے، مخالف فرقے کی جانب سے ردِعمل آیا، یوں مذہب کے اندر مسلکی شناختوں کے مابین ایسے خوف ناک تعصبات پیدا ہوئے کہ سرتن سے جُداکیے گئے۔ پھر وقت کروٹ لیتا ہے۔ جو صحابہ ؓ کی حُب کے علمبردارتھے، مبینہ طورپر چُن کر مارے گئے اور ضرورت کے تحت جزوی طور پر اس حُب کو زندہ رکھنے کا پس پردہ انتظام بھی ہوتا رہا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ صحابہ کی حُب جس دہائی میں بیدار ہوئی، اُس سے قبل جو دہائی تھی اُس میں صحابہ کی حُب ایک سپاہ کی شکل تحریک کیوں نہ بنی یا بعد کی تاریخ میں یہ حُب ویسی شدت کی حامل کیوں نہ رہی؟
کیونکہ ریاست اپنی ضرورت کے تحت شناخت دیتی اور چھینتی رہی۔ ریاست کا یہی وطیرہ فرد اور ہجوم کو فیصلوں اور اختیارات کی طرف اُکسانے کا سبب بنتا رہا۔ پھر ایک وقت آتا ہے اور مذکورہ مسلک کے بجائے ایک دوسرے مسلک کی ضرورت پڑجاتی ہے اور ناموسِ رسالت کی محبت جاگ اُٹھتی ہے۔ وقت کروٹ لیتا ہے،ضرورت پوری ہوچکی ہوتی ہے تو ناموسِ رسالت کا عَلم اُٹھانے والوں کو توبہ کروائی جاتی ہے۔
پھر تھوڑے ہی عرصہ بعد اس گروہ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اُن کو سیاسی بندوبست کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں ریاست کی جانب سے دو طرح کے روّیے کا اظہار ملتا ہے۔ ایک تو ضرورت کے مطابق گروہوں کی تشکیل اور گروہوں کا خاتمہ۔
ملک اسحاق، جو ایک وقت میں دہشت کی علامت تھے اور 50 سے زائد دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث تھے ،مظفرگڑھ کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں ماردیے گئے۔ ملک اسحاق شیعہ کمیونٹی کے درجنوں قتل کے مقدمات میں جیل بھی کاٹتا رہا تھا مگر 2018 کے انتخابات سے قبل فیض آباد کے مقام پر دھرنا دینے والے گروہ کو سیاسی بندوبست میں شامل کیا جاتا ہے ۔
ریاست کون ؟عام آدمی ‘پراکسی’ کیسے بن گیا؟
یہاں ہمیں ریاست کی تعریف کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہیے کہ عام آدمی ‘پراکسی’ کیوں بنتا رہا اور اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتارہا؟ سیاسی اشرافیہ ،مذہبی علما ،گدی نشین، جاگیردار، بیوروکریسی، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور نائین الیون کے بعد میڈیا مالکان اور بڑے سرمایہ دار۔۔۔پاکستان کی قسمت کا فیصلہ یہی طبقے کرتے چلے آئے ۔طبقات کے اِنھی مجموعہ کا نام ریاست ہے۔
ریاست کے طاقت وَر طبقات نے اپنی لڑائیوں کو عام آدمی کی لڑائی بنا کر پیش کیا۔ مقتدر طبقات کی آپس کی لڑائیاں، عوام کی لڑائیاں بنا کر پیش کی جاتی رہیں۔ یہاں عام آدمی طاقتور طبقات کی اقتدار کے حصول کی لڑائی میں’ پراکسی’ بن جاتا ہے۔افغان یا کشمیر ‘جہاد’یا داخلی مفاداتی لڑائیوں کے ‘محاذ’ہوں، عام آدمی سپاہی بن کر ہر طرح کی جنگ لڑتا رہاہے۔ اب ہم اکیسویں صدی کے پاکستان کی طرف بڑھتے ہیں۔
اکیسویں صدی کا پاکستان ہجوم کے مکمل نرغے میں
اکیسویں صدی کا پاکستان مکمل طورپر فرد اور ہجوم کے فیصلوں اور اختیارات کے نرغے میں آگیا۔ ریاست نے جن فیصلوں کا اختیار قیامِ پاکستان سے اکیسویں صدی تک اپنے پاس رکھا تھا، اُن میں سے کچھ اختیارات فرد اور ہجوم نے چھین کر اپنے قبضہ میں کر لیے۔ نائین الیون کے بعد متعدد ایسے واقعات ہوئے جن میں فرد اور ہجوم نے اپنی مرضی کے فیصلے کیے۔ ان فیصلوں کے سامنے ریاست بے بس تماشائی کے طور پر رہی۔
اس ضمن میں وفاقی وزیر پرویز خٹک کا سیالکوٹ واقعہ پر موقف ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم کی جانب سے سیالکوٹ واقعہ پر سخت بیان سامنے آیا ،مگر ایسے بیانات سے مزید ایسے واقعات کی روک تھام نہیں کی جاسکتی کیونکہ ریاست لمحہ موجود میں بھی ماضی کی حکومتوں کی پالیسی کو آگے لے کر چل رہی ہے۔ اب یہاں چند ایسے واقعات پیش ہیں جو اکیسویں صدی کے پاکستان میں فرد اور ہجوم کے فیصلوں اور اختیارات کے قبضہ کو واضح کریں گے ۔
صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں جون 2009ء میں ایک واقعہ پیش آیاتھا جس میں کھیت میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا تھا۔ جون 2009 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت الزام لگایا گیا کہ آسیہ بی بی نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ’تین توہین آمیز‘ کلمات کہے تھے۔ اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام تھے۔
اُس وقت پیپلز پارٹی رہنما اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی سے جیل میں جا کر ملاقات کی اور اس کے حق میں بات کی جس کے بدلے میں ان کے اپنے محافظ پولیس اہلکار ممتاز قادری نے چار جنوری 2011 کو انہیں اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ ممتاز قادری کے نزدیک سلمان تاثیر نے گستاخی کی ،جس کی وجہ سے وہ اِن کو قتل کرنے پر مجبور ہوئے۔
29 فروری 2016 کو ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی۔ پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج پھوٹ پڑا۔ مظاہرین نے راولپنڈی کو دارالحکومت اسلام آباد سے ملانے والی شاہرہ اسلام آباد ایکسپریس وے اور فیض آباد پل کے علاوہ بارہ کہو اور روات سے شہر میں آنے والے راستے بند کر دیے تھے اور گاڑیوں پر پتھرائو کیا تھا۔
لاہور میں احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس معطل کر دی گئی تھی جبکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ لاہور کے داخلی و خارجی راستوں پر مذہبی تنظیموں کی جانب سے دھرنے دیے گئے تھے۔ ممتاز قادری کی نمازِ جنازہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ادا کی گئی تھی جس میں اسلام آباد راولپنڈی سمیت ملک کے کئی شہروں سے لوگوں نے شمولیت کی تھی۔ جنازے میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ جنازے کے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے قبل ہی لوگوں کی بڑی تعداد اس علاقے میں جمع ہوگئی تھی ،جمع ہونے والے افراد حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے تھے۔
31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالتﷺ کیس میں سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کو بری کردیا تھا۔ اس واقعہ نے جس نے جون 2009 کو جنم لیا تھا۔ جنوری 2011 میں (سلمان تاثیر قتل کے وقت) ایک اہم موڑ لیا تھا اور پاکستانی سماج میں واضح تقسیم پیدا کردی تھی۔ یہ ملک دوحصوں میں منقسم ہو کر رہ گیا۔
یہ واقعہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں رونما ہوا تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا گورنر قتل ہوا مگر حکومت اور پارٹی کی جانب سے سخت اور دوٹوک موقف سامنے نہیں آیا تھا۔ اُس زمانے میں ایسی باتیں اور آرا بھی پائی جاتی تھیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس معاملے کی مذہبی حساسیت سے ایک لحاظ سے خوفزدہ ہے۔
ممتاز قادری کو پھانسی پاکستان مسلم لیگ ن کے دورِ اقتدار میں دی گئی۔ اس اَمر کا نتیجہ یہ نکلا کہ میاں نواز شریف نے مذہبی حمایت لینے کی کوشش کی تو اُن پر جوتا پھینکا گیا۔ بعدازاں پی ایم ایل این کو انتخابات 2018 میں مذہبی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
بعض رہنما اِن کو چھوڑ گئے۔ بعض پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔ علاوہ ازیں بریلوی مکتبہ فکر نے منظم تحریک کی صورت اختیار کر لی اورانتخابات 2018سے قبل پی ایم ایل این کی حکومت کے خلاف دھرنے بھی دیے اور انتخابات سے چند ماہ قبل سیاسی پارٹی کے طورپر رجسٹرڈ ہوکر پی ایم ایل این کے ووٹ بینک کو شدید طورپر متاثر بھی کیا۔
نومبر 2014 میں قصور کے قصبہ کوٹ رادھاکشن میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں مشتعل ہجوم نے شہزاد اور اُس کی بیوی شمع کو قتل کیا اور پھر جلا دیا تھا۔ اسی طرح مشال خان کو13 اپریل2017کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبااور دیگر افراد پر مشتمل ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگانے کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا۔
اس واقعہ کا شدید ردعمل سامنے آیا اور سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے واقعہ کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ اُس وقت کے آئی جی پولیس صلاح الدین محسود نے کہا تھا کہ تحقیقات کے دوران مردان میں مشتعل طلباکے ہاتھوں قتل ہونے والے مشال خان اور اُس کے دوستوں کی جانب سے نازیبا کلمات کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
مشال خان پر توہین یا نازیبا گفتگو ثابت نہ ہوسکی تھی اوروہ ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ قبل ازیں مارچ 2013میں بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرر جنید حفیظ پر توہین مذہب کا کیس کیا گیا تھا۔ اس کیس میں جنید حفیظ کے وکیل راشد رحمان کو مئی 2014میں قتل کردیا گیاتھا۔
پھر مارچ 2019 کو بہاولپور میں انگریزی کے ایسوسی ایٹ پروفیسرخالد حمید کو کالج کے اندر ایک طالب علم خطیب حسین نے چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا تھا۔ طالب علم نے پروفیسر خالد حمید پر اسلام مخالف ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
نومبر 2020 میں خوشاب میں بینک کے سیکیورٹی گارڈ نے بینک منیجر عمران حنیف کو توہین مذہب کے الزام پر قتل کردیا۔ جب قاتل تھانے پہنچا تو راستے میں اُس کے حق میں نعرے بازی کرتا ایک ہجوم ہمراہ ہولیا۔ ہجوم میں سے بعض افراد اُس کا بوسہ لیتے بھی پائے گئے۔
سیالکوٹ کے حالیہ واقعے نے ہجوم اور فرد کے فیصلوں اور اختیارات کے قبضے پر مہر ثبت کر دی ہے۔
ریاست نے طویل مُدت جو پالیسی اختیار کیے رکھی، یہ اُس کا نتیجہ تھا کہ اکیسویں صدی میں کئی گروہ اور جتھے اُس کے کنٹرول سے باہر نکل کر متوازی طاقت کا رُوپ دھارکر ملکی سماجی و سیاسی نظام کو متاثر کرتے چلے گئے۔ یہ سلسلہ رُکنے والا نہیں، کیونکہ اس کے لیے ریاست کو اپنی پالیسی کو یکسر تبدیل کرنا پڑے گا مگر یہ طاقت ور طبقات کے مفاد میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ