رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اس کے بعدتین سال تک ڈان اسلام آباد بیورو آفس میں کام کیا اور ان تین برسوں میں ضیاصاحب جب بھی میری کسی خبر پر ناراض ہوتے تو وہ مجھے کہتے: طاہر مرزا نے تو مجھے خبردار کیا تھا کہ آپ اس سے تنگ ہوں گے۔ یوں ضیا صاحب نے مجھے طاہر مرزا کی آنکھ سے ہی دیکھا ‘اگرچہ جب میں تین سال بعد چھوڑنے لگا تو مجھے دفتر بلا کر کہا کہ آپ نہ جائیں‘ میں آپ کو یہیں گریڈ دلوا کر مستقل کروا دیتا ہوں‘ تنخواہ بڑھوا دیتا ہوں۔
یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ ضیاالدین مجھے اپنی بیوروٹیم کا اہم فرد سمجھنے لگے تھے اور ان کا خیال تھا کہ میرے جانے سے ٹیم کمزور ہوگی خصوصا ًجب ایک نیا انگریزی روزنامہ اسلام آباد سے شروع ہورہا تھا اور اس نے ایک بڑے صحافی شاہین صہبائی کواپنا گروپ ایڈیٹر بنا لیا تھا۔ شاہین صہبائی نے ڈان کی کمر توڑنے کے لیے اسلام آباد بیورو سے تین صحافیوں کو نئے اخبار میں آنے کی آفر کی اور ہم تینوں نے یہ آفر قبول کر لی۔ میرے علاوہ انصار عباسی اور اکرام ہوتی کو الگ سے ایک بیوروآفس بنا کر دیا جس کا کام صرف ایکسکلوسیو اور سکینڈلز فائل کرنا تھا۔ ہم تینوں کو وہ پیکیج دیا گیا جس پر پورے اسلام آباد میں شور مچ گیا اور ہمیں ”لیموزین رپورٹرز ‘‘کا خطاب ملا۔ شاہین صہبائی کا خیال تھا کہ ہم تینوں اہم رپورٹرز تھے اور اگر ہمیں اپنے اخبار میں لے جائیں تو جہاں وہ اخبار اوپر جائے گا وہیں ڈان اپنی اشاعت کو کامیاب نہیں کر سکے گا۔ ہماری کمی پوری کرنے کے لیے ضیاالدین صاحب دی نیوز سے ارشد شریف اور خلیق کیانی کو ڈان میں لے آئے۔ دونوں بڑے تگڑے اور جاندار رپورٹرز تھے۔ یوں دونوں انگریزی اخبارات میں اب بڑا میچ پڑ چکا تھا۔ خیر یہ کہانی پھر سہی۔
اس صبح ضیاصاحب مجھے بریف کرنے لگے کہ اسلام آباد میں کس قسم کی رپورٹنگ کی جا سکتی ہے۔ وہ مجھے ڈان اخبار اور اسلام آباد کا رپورٹنگ کلچر سمجھاتے رہے۔ کہنے لگے: ڈان میں آپ کام کریں گے تو آپ کا نام ہوگا‘ نہیں کریں گے تو بھی کوئی کچھ نہیں کہتا نہ نوکری سے نکالتا ہے۔ مجھے کہا: آپ کی خبریں پڑھتا رہا ہوں‘ آپ کے لیے زراعت کی رپورٹنگ ٹھیک رہے گی۔ ان دنوں نواز شریف کی دوسری حکومت تھی تو سرائیکی علاقوں کے کچھ وزیر بھی کابینہ میں شامل تھے‘ کہنے لگے: اگر ان سے اپنے ورکنگ ریلیشن شپ استعمال کر سکتے ہو تو کابینہ کی خبریں بھی نکال سکتے ہو۔ضیا الدین صاحب نے بڑی محبت سے مجھے سب کچھ سمجھایا کہ اسلام آباد کا جرنلزم کا ماحول کیا ہے اور میں کیسے خود کو ایڈجسٹ کرسکتا ہوں۔ اتنی دیر میں دفتر میں دیگر رپورٹرز بھی پہنچ چکے تھے۔ ضیاالدین صاحب مجھے لے کر رپورٹنگ روم گئے‘ وہاں سب سے تعارف کرایا اور انہیں بتایا کہ رئوف کو خان صاحب نے اسلام آباد بھیجا ہے۔ان دوستوں میں احمد حسن علوی‘ محمد یٰسین‘ محمد الیاس‘ سب سینئر تھے جبکہ باقی دوستوں میں احتشام الحق‘ فراز ہاشمی‘ رفاقت علی‘ انصار عباسی‘اکرام ہوتی جیسے بڑے رپورٹرز بھی تھے۔ احتشام الحق کا بڑا نام تھا کہ انہوں نے پاکستان کے اعلیٰ صحافتی ایوارڈ اے پی این ایس جیتنے کے علاوہ متعدد عالمی ایوارڈ بھی جیتے جن میں یورپی یونین‘ اقوام متحدہ اور بھارت تک کے ایوارڈز شامل تھے۔احمد حسن علوی نے ہم جونیئرز کو جو محبت دی وہ کبھی نہ بھلائی جا سکے گی۔ ماموں شاہ نواز‘ جو ڈان کے فوٹوگرافر تھے ‘ بھی اپنی جگہ ایک خوبصورت انسان تھے۔
ضیا صاحب کو اندازہ تھا کہ میں نیا نیا آیا ہوں لہٰذا مجھے یہاں رپورٹنگ میں مشکلات ہوں گی۔ انہوں نے روز آتے جاتے مجھے صحافت پر کچھ نہ کچھ سمجھانا شروع کر دیا۔ وہ میری ہر خبر کو خود چیک کرتے بلکہ کئی دفعہ انہیں محسوس ہوا کہ خبر بڑی تھی لیکن شاید میں نے اس کا انٹرو ٹھیک نہیں بنایا۔ وہ میری کرسی پر بیٹھ کر کمپیوٹر پر وہیں خبر ایڈٹ کرنے لگتے تھے اور میں ساتھ کھڑا دیکھتا رہتا کہ انہوں نے کہاں کیا درستی کی ہے۔ ضیاصاحب ہم رپورٹرز کی اس بات سے چڑتے تھے کہ خبر میں adjectives کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ یوں لگے کہ کوئی بڑی دھانسو قسم کی خبر فائل کی گئی ہے۔ وہ ہمیشہ ہم رپورٹرز کو سمجھاتے کہ خبر کا مطلب ہوتا ہے سیدھی سیدھی انفارمیشن شیئر کرنا۔ اپنی خواہش کو ایک طرف رکھ کر صرف خبر بنائیں۔ وہ خبر میں کوئی چھوٹا سا کمنٹ یا تبصرہ برداشت نہ کرتے۔ مجھ سے انہیں یہ شکایت رہتی جو میں نے ان کی مسلسل ڈانٹ ڈپٹ کے بعد دور کی۔ ضیاصاحب کو چیک کرانے سے پہلے اکثر میں اپنے ساتھی رپورٹرز سے اپنا انٹرو چیک کرا لیتا تاکہ میری یہ عادت ختم ہو۔
بہت جلد ڈان کے ساتھی رپورٹرز کے تعاون سے ایڈجسٹمنٹ ہوچکی تھی۔ میں نے زراعت کی بیٹ پر کام شروع کر دیا تھا۔ ایک دن ضیاالدین صاحب نے بتایا کہ کراچی بزنس سیکشن کے انچارج جاوید بخاری صاحب نے میری کچھ خبریں دیکھیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں ان کے ویکلی پنک پیجز کے علاوہ ان کے اکانومی پر چار صفحات کے لیے بھی خبریں فائل کیا کروں۔ مجھے ضیاالدین صاحب نے ساتھ میں ایجوکیشن بیٹ بھی دے دی۔ کچھ عرصے بعد کراچی سے زبیدہ مصطفی‘ جو اسسٹنٹ ایڈیٹر تھیں‘ نے بھی سراہا کہ اچھا ہے کچھ ایجوکیشن سیکٹر کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ یوں ضیاالدین صاحب کا جہاں مجھ پر کچھ اعتبار بڑھا وہیں حکومتی حلقوں میں بھی کچھ جان پہچان شروع ہوگئی۔ میری خوش قسمتی کہ ان دنوں جب میں اسلام آباد آیا اور مجھے زراعت کی بیٹ ملی تو وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ ایک باکمال انسان‘ بیوروکریٹ اور سابق کرکٹر۔ ان جیسا افسر پھر نہ ملا۔ ایک بہادر آدمی‘ جو نہ کسی وزیراعظم سے ڈرتا تھا نہ کسی وزیر سے۔ ہر دفعہ ان کا پھڈا وزیراعظم سے ہوتا۔ وجہ کسان تھے۔ وہ غریب کسانوں پر کوئی کمپرومائز نہ کرتے تھے۔ان سے ملاقات ہوئی تو میرے لیے زراعت کی رپورٹنگ کرنا آسان ہوگیا۔ مجھے لگا کہ زراعت سے کوئی اہم بیٹ تو ہے ہی نہیں۔ وہیں مجھے بڑی بڑی خبریں ملنا شروع ہوگئیں۔ ڈان میں رپورٹر کا نام چھپنا ایک نا ممکن سی بات تھی اور وہ بھی کسی جونیئر رپورٹر کا۔ جوں جوں میری خبریں زیادہ ہونے لگیں میری خبروں کی وضاحتیں آنا شروع ہوگئیں۔ میں کچھ پریشان ہوا کہ ضیاالدین صاحب سمجھیں گے میری خبریں درست نہیں ہیں جبکہ میرے پاس تو سب خبروں کے دستاویزی ثبوت تھے۔ ایک دن وضاحت آئی تو میں ضیاالدین صاحب کے پاس گیا اور کہا‘ سر میں نے سوچا آپ کو بتا دوں کہ میرے پاس سب دستاویزی ثبوت ہیں‘ آپ یہ نہ سمجھیں۔ ضیاصاحب مسکرائے اور کہا: مجھے سب پتہ ہے‘ تم فکر نہ کرو‘ رپورٹنگ جاری رکھو‘ وضاحت بھی اسی رپورٹر کی خبر کی آتی ہے جو کام کرتا ہے۔ مجھے تمہاری خبروں کی شکایتیں آنا شروع ہو گئی ہیں لیکن مجھے پتہ ہے جو کام کرتا ہے اس کی شکایت ہوتی ہے۔ تم کام جاری رکھو۔یہ فرق تھا ضیاالدین صاحب اور طاہر مر زا میں۔ ضیاالدین بھی رپورٹنگ سے اوپر آئے اور ابھی بھی رپورٹنگ کرتے تھے لہٰذا وہ سمجھتے تھے جبکہ طاہر مرزا ڈیسک کے بندے تھے ‘کسی بھی بڑے بندے کا فون سن کر فوراً رپورٹر پر چڑھ دوڑتے ۔
مجھے ڈان میں کام کرتے تین ماہ گزر چکے تھے کہ ایک دن ضیاالدین صاحب نے اپنے دفتر میں بلایا اور میرے ہاتھ میں ایک لفافہ دے کر کہا: احمد علی خان صاحب نے تمہارے لیے کراچی سے بھیجا ہے۔ پڑھ لو۔ ضیا صاحب کی سنجیدگی دیکھ کر میں پھر ڈر گیا کہ خان صاحب نے کیا لکھ کر بھیجا ہوگا‘ لگتا ہے پھر کہیں کوئی بلنڈر مار بیٹھا ہوں ورنہ خان صاحب میرے نام کیوں کر کچھ لکھ کر بھیجتے۔ ایک چیف ایڈیٹر کیونکر ایک عام رپورٹر کو کچھ لکھ کر بھیجے گا۔ یقینا کوئی اہم اور سنگین بات ہی ہوگی۔میں نے ڈرتے ڈرتے لفافہ کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔(جاری )
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر