نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چوہدری سرور حکومت سے ناراض!!||سارہ شمشاد

ہماری بات چونکہ چوہدری سرور سے شروع ہوئی تھی کہ وہ پارٹی سے نالاں ہیں اگرچہ وہ اس کی نفی اپنے تازہ بیان میں کرچکے ہیں لیکن حکومتی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھارہے ہیں ایسے میں خان صاحب جو بیک وقت کئی محاذوں پر لڑرہے ہیں ان کو اپنے چاروں طرف نگاہ رکھنی چاہیے۔ ا
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کا کہنا ہے کہ انہیں گورنر بننے کی خواہش نہیں تھی، پارٹی نے رسمی عہدہ دے کر سائیڈ لائن کردیا۔ گورنر پنجاب کی جانب سے پارٹی کے خلاف ببانگ دہل بیان اپنے اندر ایک طوفان کا پیغام تحریک انصاف کیلئے لئے ہوئے ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کے بہت سے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی خبر کے بریک تھرو کے سیاسی بھونچال سے عوام نہیں سنبھلے تھے کہ اب گورنر پنجاب نے پارٹی کے خلاف سیدھا بیان داغ دیا۔ اگرچہ جمہوری ملک کا یہ خاصا ہوا کرتا ہے کہ یہاں پر ہر کسی کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہوتی ہے لیکن دوسری طرف اسے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی بھی قرار دیا جارہا ہے تاہم ایک طرف حکومت سے معیشت سنبھل نہیں رہی تو دوسری طرف تحریک انصاف کے لوٹوں اور دوسری جماعتوں سے اکٹھے کئے گئے پنچھیوں کے اڑنے کے ساتھ خود تحریک انصاف کے اپنے لوگ بھی حکومت کی کارکردگی سے قطعاً مطمئن نہیں اسی لئے تو پچھلے دنوں ایک نوجوان نے عمران خان سے سٹیج پر کھڑے ہوکر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ اور اب چوہدری سرور جو کچھ اکھڑے اکھڑے نظر آتے ہیں، کے بارے میں انہی سطور کے ذریعے عرض کیا تھا کہ وہ ایم این اے کا الیکشن لڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں اور اس سلسلے میں کافی جوڑتوڑ بھی عروج پر تھی جبکہ بعض اطلاعات ایسی بھی سامنے آئیں کہ وہ ایک علیحدہ جماعت کے لئے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے بندے اکٹھے کرکے پریشر گروپ بنائیں لیکن چوہدری سرور نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ اپنی علیحدہ پارٹی بناکر طاقت کے مرکز کو اپنی اہمیت باور کروانا چاہتے تھے۔ اب جبکہ چوہدری سرور کھل کر پارٹی کے خلاف سامنے آگئے ہیں تو یہ تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کے لئے باعث تشویش ہونا چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جب ان کی حکومت عوام کو ڈلیور کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور اس سارے مسئلہ کا حل اب کپتان نے اپنے وزراء کے 3ماہ کے لئے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کرکے نکالا ہے۔ اگرچہ اس بارے کہا جارہا ہے کہ اگلے 3ماہ چونکہ انتہائی اہم ہیں اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف اگر اسے ملک کے موجودہ خستہ معاشی صورتحال کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کوئی غلط فیصلہ نہیں ہے کہ چلو خزانے کوکچھ تو بچت ہوگی لیکن اگروجہ زرتاج گل اور چوہدری اسلم کے مابین بین الاقوامی کانفرنس کا جھگڑا ہے تو یہ انتہائی شرمناک ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے بیرون ملک جاکر بھی اپنی ناک سے آگے دیکھنا نہیں چاہتے اسی لئے تو وہاں جاکر اپنا پرچم روشن کرنے کی بجائے ذاتی اختلافات میں ہی الجھے رہتے ہیں جس سے وطن عزیز کی عالمی سطح پر بڑی سبکی ہوئی ہے۔
ادھر کورونا ویکسین میں بھی بڑے پیمانے پر گھپلوں کی خبروں نے عوام کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو کوروناکے قہر کا سامنا ہے اور ایک کے بعد دوسری لہر آرہی ہے تو ایسے میں منافع خوروں کی جانب سے کورونا ویکسین میں کرپشن انتہائی شرمناک فعل ہے۔ تاہم یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ مصیبت کے وقت میں لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا درحقیقت ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے اسی لئے تو ہم دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ اب ذرا ڈینگی کے معاملے کو ہی لے لیں کہ یہاں ہمارے ملک میں پیناڈول جیسی بنیادی گولی کی ہی قلت جان بوجھ کر پیدا کردی گئی۔ اسی طرح کورونا میں بخار اور فلو والی ادویات بھی یکسر غائب کردی گئیں اور اگر یہاں پر چینی چوروں اور منافع خوروں کی بات کی جائے تو وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کرنا بھی منافع خوروں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں۔ اگر یہاں عام منافع خوروں کے خلاف رونا رویا جائے تو یہ صفحات کم پڑجائیں مگر ان کے خلاف چارج شیٹ ختم نہ ہو اس لئے اگر کورونا فنڈز میں کوئی کرپشن رپورٹ ہوتی ہے تو اس پر کوئی خاص ناک منہ چڑھانے کی ضرورت کسی کو نہیں۔ کرپشن تو شاید اب ہمارا خاصا بن گیا ہے جس کے باعث ہونا تو ایسا چاہیے کہ کرپشن کو ہمارے معاشرے میں جائز تسلیم کرلیا جائے یا کرپشن کرنے والا گناہ گار نہ تصور کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جب اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن ہوگی اور بحیثیت قوم ہمارا مزاج بھی کچھ اسی قسم کا بن گیا ہے کہ ہمیں کرپشن میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تو اس کو قبول کرلینا چاہیے۔ یوں بھی وزیراعظم عمران خان جس دھڑلے کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کی باتیں 2018ء کے الیکشن میں کیا کرتے تھے اب تو ان کی ناک کے نیچے ایسی ایسی کرپشن کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ اقتدار کی کرسی سے اترتے ہی ایسے ایسے سکینڈلز منظرعام پر آئیں گے کہ جس کے بعد عمران خان کی باقی ماندہ زندگی تحقیقات میں ہی صرف ہوجائے گی۔
ایک طرف وزیراعظم عمران خان عوام کو اچھے دنوں کی نوید سناتے ہیں تو دوسری طرف بدترین مہنگائی کی شرح سے حسب روایت چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ہفتے بدترین مہنگائی ریکارڈ کی گئی جبکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں فی یونٹ بجلی 5روپے 75پیسے مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ادھر پٹرول کو 200روپے لٹر تک لے کر جانے کی بھی حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروادی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بڑے دنوں کے بعد بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے آزاد کروانے کو بڑا چیلنج قرار دیاگیا ہے اب کوئی شاہ صاحب سے پوچھے کہ عوام کو صبح شام آئی ایم ایف پروگرام کی من چاہی شرائط کو پوراکرنے کا فرمائشی پروگرام پیش کیا جاتا ہے کہ حکومت جس کے پاس قرضے لے کر ملک چلانے کے سوا کوئی دوسرا آپشن سرے سے موجود نہیں اسی لئے تو وہ اپنی سمت کا کسی طرح طے بھی تعین آج تک نہیں کرسکی اور یوں اپنے عوام پر عرصہ حیات تیزی سے تنگ ہورہا ہے، عوام کے اس غیض و غضب کاحکومت کو آئندہ الیکشن میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ہماری بات چونکہ چوہدری سرور سے شروع ہوئی تھی کہ وہ پارٹی سے نالاں ہیں اگرچہ وہ اس کی نفی اپنے تازہ بیان میں کرچکے ہیں لیکن حکومتی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھارہے ہیں ایسے میں خان صاحب جو بیک وقت کئی محاذوں پر لڑرہے ہیں ان کو اپنے چاروں طرف نگاہ رکھنی چاہیے۔ ان کو اپوزیشن شاید اتنا ٹف ٹائم آئندہ الیکشن میں نہ دے بلکہ اس کے اپنے اراکین دغا دینے کے لئے بھرپور تیاری کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ جہانگیر ترین بھی 30سے 40 نمبر شو کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جو پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں، کو ایسے بیانات قطعاً زیب نہیں دیتے کہ سندھ میں زیادہ مہنگائی ہے۔ ہمارے وزیراعظم آپ کسی ایک صوبے کے لئے نہیں پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ سیاسی مخالفت میں اس قدر آگے نہ جایئے کہ یہ فاصلے کبھی نہ مٹ سکیں۔ آپ اپنے حریفوں کو ضرور لتاڑیئے۔ خدارا عوام کو تو بخش دیں جن کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ ادھر شہباز شریف ہر دوسرے دن ایک بیان داغ کر ’’اپنے‘‘ اہم ترین کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ویسے اب کی بار انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا ہے کہ آئندہ برس تنخواہوں، پنشن اور حکومت چلانے کے لئے قرض لینا پڑے گا لیکن اپوزیشن لیڈر کے خالی خولی بیانات سے حکومت پہلے کون سا ڈرتی ہے جو اب کوئی غم کرے گی۔ تاہم وزیراعظم کا آئندہ 3ماہ کے لئے وزراء کو ملک سے باہر جانے پر پابندی لگانے اور اپنی ہی وزارتوں میں رہنے کی ہدایت سے یہ بھی سوال پیدا ہورہا ہے کہ وہ وزراء جنہوں نے 3برس میں پہلے کچھ نہیں کیا وہ اب ایسا کون سا تیر مارلیں گے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جائیں گی۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ وزیراعظم اپنی پارٹی میں پیدا ہونے والی توڑپھوڑ پر نظر رکھیں وگرنہ ان کے ہاتھ سوائے ناکامی کے کچھ نہیں آئے گا۔ اس سے پہلے کہ معاملات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ حکومت کے پاس کچھ باقی نہ رہے، معاملات کو اس نہتج تک پہنچنے سے روکنے کے لئے اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author