رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرکامریڈلال خاں زندہ ہوتے تویقیناًسانحہ سیالکوٹ پر ایک لمباچوڑا تجزیاتی مضمون لکھتے اوردنیاجہان کے دلائل ڈھونڈکراس کو بھی طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ قراردیتے جیساکہ وہ افغانستان میں طالبان کے خودکش حملوں کو بھی سرمایہ دارانہ (امریکی) سامراج کیخلاف جدوجہدکاحصہ قرار دیتے ہوۓ اس میں بھی طبقاتی کشمکش کاپہلو نکال لیا کرتے تھے۔ یہ الگ بات کہ کامریڈلال خاں اب ہم میں نہیں اور ان سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ امریکی تو سامراج افغانستان سے چلاگیاہے اب افغانستان میں سرمایہ داری ہے یاسوشلزم!!
ٹھیک اسی طرح ہم کارل مارکس سے بھی نہیں پوچھ سکتے کہ جس کوآپ نے باشعور پرولتاریہ قراردیاتھا انہی صنعتی مزدوروں کے جمِ غفیرنے آج ایک صنعتی شہرمیں مذہبی انتہاپسندی کابدترین مظاہرہ کرتے ہوۓ بنام مذہب ایک پڑھے لکھے باشعور فیکٹری منیجرکوبدترین طریقے سے قتل کرکے لاش کونذرآتش کردیاہے, حالانکہ بقول آپکے محنت کش طبقہ توترقی پسندہوتاہے اورصنعتی مزدور (پرولتاریہ) محنت کشوں کی سب سے باشعورپرت ہے, جوکسی بھی ملک میں میں سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کرتاہے۔ آپ کے یہ افکارپڑھ سن کردنیا بھرسےہم جیسے لاکھوں درمیانے طبقے کے لوگ جو خود تومزدورنہیں تھے,وہ امیربننے نام پیداکرنے کی مڈل کلاسیائی خواہشات کوتج کر پرولتاریہ (صنعتی مزدوروں) کودنیاکانجات دہندہ سمجھنے لگے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ لاکھوں مڈل کلاسیے وکیل, تاجر, پروفیسر, دانشور, لکھاری, صحافی, درمیانے درجے کے سرکاری آفیسر, شاعر, فنکاروں, گلوکاروں اور زمینداروں نے زندگی میں آگے بڑھنے کی نجی جدوجہدبھلاکرفیکٹریوں, کارخانوں اور مِلوں کارخ کرلیاتاکہ سٹڈی سرکل چلاکر آپ کا انقلابی نظریہ جلدازجلدصنعتی مزدوروں کے اندر انڈیل سکیں جودراصل سوشلسٹ انقلاب کاہراول دستہ ہے۔ جب بھی کسی کارخانے, فیکٹری یا مِل کی انتظامیہ کسی بدعنوان ٹریڈیڈیونین لیڈریاکام چورمزدورکیخلاف کوئی ایکشن لیتی تویہی مڈل کلاسیے کامریڈ, مزدوروں کے شانہ بشانہ تحریک چلاتے, راتوں کوجاگ جاگ کرپمفلٹ لکھتے اوردن کوبھاگ بھاگ کراخبارات کے دفاتر میں پریس ریلیزیں پہنچاتے تاکہ انقلاب کی جدوجہد کو مہمیزدی جاۓ!!
کیونکہ یہ مڈل کلاسیے کامریڈ دل وجان سے سمجھتے تھے کہ یہی وہ طبقہ ہے جوانسان کو طبقاتی جبرواستبدادسے نجات دلاسکتاہے اوراس دنیاکوانسانوں کے رہنے کے لائق بناسکتاہے, جہاں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کااستحصال نہ کرسکے جہاں انسانی رشتے لالچ سے پاک ہوں اور دوستی مفادکے بغیر۔۔۔۔اس لیے ہمیشہ مزدوروں اور ان کے کرپٹ وموقع پرست یونین لیڈروں کے ناز نخرےاٹھاتے, ان کے سٹڈی سرکل منعقدکرتے, سالانہ جلسوں کے سٹیج تیارکرتے, انہیں معاشرے کے سامنے بطورہیروپیش کرتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جوبھی ٹریڈیونین لیڈرشپ یامزدوروں پربراۓ نام تنقیدبھی کرتاتواس سے بِھڑجاتے تھے۔ ان میں بہت سوں نے مزدورطبقے کاساتھ ساتھ دیتے دیتے اپنا طبقہ بھی گنوادیا اور براہ راست نچلے طبقے میں چلے گئے, وہ خود تو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے مگراپنے بچوں کو پڑھانہیں سکے کیونکہ انہوں نے تو سوشلسٹ انقلاب کو ہی اپنا اوڑھنابچھونا بنالیاتھا, بچوں کی بچاۓ مزدوروں کے بچوں میں اپنا مستقبل دیکھنے لگے اوردنیابھرکے محنت کشوں کو اک مُٹھ کرنے میں ایسے جُٹے کہ اپنی زندگیاں ہی برباد کرڈالیں۔ شایدانہی کامریڈسیاسی کارکنوں کیلئے مہان سرائیکی شاعر ارشاد تونسوی نے کہاتھا۔۔۔
تن تے چاٹاں ہاڑدیاں اکھیں وچ بسنت
جناب کارل مارکس صیب, آپ نے توکہاتھاکہ دنیاصرف اورصرف پرولتاریہ کی قیادت میں ہی انسانی ترقی کے اگلے مرحلے کاسفرجاری رکھ سکتی ہے اوروہ بھی پرولتاری آمریت کے ذریعے۔۔۔مگریہ, یہ ہم کیادیکھ رہے ہیں کہ آپ کاپرولتاریہ پاکستان کے پیٹروگراڈ (سیالکوٹ) میں دھڑادھڑ ہجوم کی شکل اختیارکرتاجارہاہے, راجکوانڈسٹریزسمیت اردگردکی تمام فیکٹریوں کے مزدوربھاگتے ہوۓ آرہے ہیں, کسی کے ہاتھ میں سریا توکسی کے پاس لاٹھی ہے, مزدوروں کے چہرے غصے اورجوش سے تمتمارہے ہیں, ان کی زباں پر نعرے ہیں,مگرسوشلسٹ انقلاب,ایشیاسرخ ہے کے نہیں بلکہ نعرہ تکبیر,اللہ اکبر۔۔۔کے نعرے!
اِدھر انقلاب کی جدوجہدسے تھک ہارکے مایوسی کے اندھیروں میں پناہ لینے والاکامریڈاپنی کُٹیامیں پڑا سستارہاہے, ذیابیطس اوربلند فشارِخون کے مرض نے اسےادھ مُوا کررکھاہے۔ وہ اب جدوجہدکے اُن دنوں کویادکرکے جیتاہے جب وہ بھی ایک پڑھالکھا فیشن ایبل نوجوان تھا, یونیورسٹی میں لڑکیاں اسے دیکھ کرآہیں بھرتی تھیں, مگروہ ترچھی نگاہوں کی طرف متوجہ ہونے کی بجاۓ کارل مارکس کی پرولتاریہ تھیوری اور قدرِزائد جیسے پیچیدہ موضوعات میں الجھارہتاتھا۔ اپنے جنم دن پروالد سے تحفے میں ملنے والی سفیدکار گھرمیں کھڑی کرکے اس لیے بس میں یونیورسٹی پہنچتا تاکہ لوئرمڈل کلاس پسِ منظر رکھنے والے طلبہ وطالبات کوطبقاتی تفریق کااحساس نہ ہو, یونیورسٹی ٹائم کے بعداپنے طبقے کے دوسرے لڑکے لڑکیوں کی طرح جِم خانہ اور نائٹ پارٹیوں میں جانے کی بجاۓ سیدھامزدوروں کی بستیوں میں پہنچتااوران کے سٹڈی سرکل اٹینڈ کرتا۔ پھریہ سلسلہ بڑھتاچلاگیا راتوں کوجاگ کرسرخ کتابوں کی سٹڈی کرتاتودن میں کبھی طلبہ یونین سرگرمیوں توکبھی مزدوروں کی میٹنگوں, سٹڈی سرکلز, ایگری گیٹس, مظاہروں اور ریلیوں میں ہوتا۔ حتٰی کہ یونیورسٹی کی کلاسزبھی چھوٹنے لگیں, فیملی کے ایونٹس یعنی سالگرہ, منگنی اورشادیوں کی تقریبات سے بھی غیرحاضر رہنے لگا, اب اس کے پہناوے میں بھی فرق آگیاتھا وہ سوٹ بوٹ کی بجاۓ مزدوروں کے کپڑےپہننے لگاتھا, لمبے لمبے بال شیوبڑھی ہوئی, بات کرنے کااندازبھی مزدوروں والا, شہرکے برلبِ سڑک چاۓ خانوں اور چھوٹے چھوٹے ریستوران میں,فٹ پاتھوں پربیٹھ کرمزدوروں کے سٹڈی سکل کرنااور وہیں چاۓ پینا کھاناکھانا اب اس کامعمول بن چکا تھا ۔۔۔۔کیونکہ وہ اب سرتاپا بائیں بازوکا سیاسی کارکن بن چکاتھا, ایک ایساکامریڈجو سچے دل سے مزدوروں کوانسانیت کانجات دہندہ سمجھتا تھا۔۔۔مگراس کاپہلا امتحان سامنے کھڑاتھا, یومِ مئی قریب آگیا اورپارٹی کے پاس یومِ مئی کا جلسہ کرنے کیلئے فنڈزنہیں تھے, پھراس نے پہلی بڑی قربانی دی اور جنم دن پرتحفے میں ملنے والی کارماں باپ کو بتاۓ بغیرشوروم پر بیچ دی۔ ابھی عشق کے کئی امتحان سامنے تھے اوراس کاحوصلہ کسی چٹان کی مانندبلندتھا, یہ آمر ضیالحق کادورتھا اوریومِ مئی کے جلسے پرپولیس کا کریک ڈاؤن ہواجس کے نتیجے میں اس کوپہلی مرتبہ اپنے لہوکاذائقہ چکھناپڑا, مگریہیں پربس نہیں ہوئی بلکہ حوالات کی ہوابھی کھانی پڑی۔ باپ نے اپنی سرکاری حیثیت کافائدہ اٹھاتے ہوۓ ضمانت پررہاتوکروالیا مگر وہ ساتھی کامریڈوں اورمزدوروں رہاکروانے میں جُٹ گیا۔۔۔۔پھراندرباہر کا سلسلہ شروع ہوگیا اورنوبت ملٹری کورٹ سےایک سال قیداوردس کوڑوں تک جاپہنچی, اب اس کاباپ بھی کچھ نہیں کرسکتاتھا۔ بالآخریونیورسٹی چھوٹ گئی, پھر گھرچھوٹا۔۔۔اوریہ سلسلہ درازہوتاچلاگیا ملک میں آمریت کااندھیراختم ہونے تک, پھر ارض پاکستان پرجمہوریت کاسورج نمودورا ہواتوکامریڈنے کسی قسم کی مراعات لینے سے انکارکردیا بلکہ جمہوری سمجھوتے بازی کیخلاف خم ٹھونک کرمیدان میں آگیا۔ ابھی کامریڈکو ایک اوربڑادھچکا لگنے والاتھا اور وہ تھا مرکزِ انقلاب سوویت یونین کاانہدام۔۔۔یہ دھچکابہت بڑاتھا, جدوجہدکے ساتھی ایک ایک کرکے این جی اوزمیں سرچھپانے لگے اوروہ سب کچھ بنانے لگ گئے جو اُن سے چِھن چکاتھا, مگر کامریڈ این جی اوزکی چکاچوندسے ٹس سے مس نہیں ہوا نہ ہی طبقاتی جدوجہدکو چھوڑکر انسانی حقوق یا دانشوری کا چولاپہنا۔ وہ آجکل پاکستان کے صنعتی شہر (پیٹروگراڈ) سیالکوٹ میں مقیم ہے, قبرنما ایک کوٹھڑی میں کراۓ پررہتاہے جہاں اب بھی ہرطرف سرخ کتابیں اوررسالے بکھرے پڑے ہیں, زندگی بھرکی جدوجہداوربدپرہیزی کی وجہ سے اس کاجسم بیماریوں کاگھربن چکاہے, اس لیے آدھاوقت سرکاری ہسپتالوں کے چکرلگاتے گزرتاہے اور جووقت بچتاہے وہ لیبرکورٹ میں مزدوروں کے مقدمے لڑتے گزرتاہے, اب یہی اس کااوڑھنا بچھونا ہے۔
آج بھی وہ سرکاری ہسپتال جانے کی تیاری کررہا تھا, کئی دنوں سے شوگرلیول بڑھا ہواتھا اور بلڈپریشربھی تھمنے کانام نہیں لے رہاتھا۔۔۔۔اچانک انڈسٹریل ایریاسے شوروغوغابلندہوا مزدور نعرے لگارہے تھے, کامریڈنے جلدی جلدی کھونٹی پرٹنگی پینٹ شرٹ پہنی, پھرالماری کے نچلے خانے میں داس کیپٹل کی پرانی جِلد تلاش کرنے لگا, دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں, دل میں جوش بھرچکا تھا۔۔۔۔شایدانقلاب کی وہ گھڑی آگئی ہے, سرخ سویرے کی وہ کرن نمودار ہوچکی, جس کے بارے فیض احمدفیض نے کہاتھا۔۔۔
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
مگریہ کیا, یہ تو۔۔۔فیکٹری کے بڑے گیٹ کے سامنے جمع ہزاروں مزدور انقلاب زندہ باد نہیں بلکہ نعرہ تکبیر لگارہے ہیں, وہ ایک کافرمنیجرکو توہینِ مذہب کی سزادینے کیلئے جذبہ ایمانی سے سرشارتھے۔ اتنے میں کچھ مزدور کافرمنیجرکوگھسیٹتے ہوۓ باہرلاۓ اورزمین پرپٹخ دیا, پھر ہاہا کار شروع ہوگئی, جذبہ ایمانی سے ارشارمزدور کافر پر پل پڑے کسی نے لات دی توکسی نے مُکااورکسی نے گھونسامارا۔۔۔چندنوجوان انسانیت کے جذبے کے تحت ہاتھ جوڑکر ہجوم کی منتیں کرتے رہے مگر کسی نے ان کی نہیں سنی, کارل مارکس کے پرولتاریہ کاجذبہ جہاد یہاں پربھی ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ کافرمنجرکی لاش کو عبرتناک سزادیناضروری قراردیاگیا, اچانک موقع پرپٹرول بھی پہنچ گیااور ماچس بھی۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے کافرمنیجرکی لاش کو رزقِ آگ کرکے دیدہ عبرت نگاہ بنادیاگیا۔۔۔اس کے ساتھ ہی بلند ہوانعرہ تکبیر۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔مزدور کافرمنیجرکی جلتی ہوئی لاش کے ساتھ سلفیاں بنارہے تھے۔۔اورکامریڈکے آگے بڑھتے ہوۓ انقلابی قدم وہیں پر رُک گئے, داس کیپٹل کی پرانی جِلدہاتھوں میں ہی رہ گئی!!!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ