دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خبریں ہیں اور سوال ہیں||حیدر جاوید سید

یہ غوروفکر اصل میں آئی ایم ایف کے حکم پر ہے اور اسی طرح سوئی گیس کی قیمتیں بڑھانے کی دو درخواستوں کی سماعت 6دسمبر کو ہوگی۔ آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خبریں ہی خبریں ہیں، مثلاً وزیراعظم نے اب بتایا ہے کہ
’’مہنگائی کی وجہ چینی، آٹے اور پٹرول وغیرہ کی سمگلنگ ہے‘‘۔ ایف بی آر کے سربراہ ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں ’’منی بجٹ تیار ہے حکومت کی اجازت کے منتظر ہیں، منی بجٹ سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا والا لطیفہ انہوں نے بھی سنایا ہے‘‘
بجلی کے اکتوبر کے بلوں کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز 4روپے 74پیسے اب صارفین سے وصول کئے جائیں گے۔ پٹرولیم لیوی میں 4روپے کا اضافہ ہونے سے یہ 13روپے سے بڑھ گئی ہے۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر پھڈا شروع ہوچکا، فواد چودھری کہتے تھے کہ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیاہے کہ الیکشن کمیشن مشینوں کے ذریعے انتخابات کرانے کا پابند ہے ورنہ فنڈز نہیں دیں گے۔ شبلی فراز کا موقف ہے وفاقی کابینہ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
کابینہ کے اجلاس میں اسوقت وزراء کے درمیان اس بات پر تبادلہ خیال ضرور ہوا جب وزیراعظم نماز کے لئے اٹھ کر گئے تھے۔ تبادلہ خیال کو فیصلہ نہیں کہتے لیکن فواد چودھری کے اعلان نے جنگ کا سماں بنادیا۔
(ن) لیگ نے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی طرح کی تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔
قومی اتحاد نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جو تحریک چلائی تھی اسے امریکہ کے ساتھ مقامی اسٹیبلشمنٹ اور ایک برادر ملک کی بھرپور حمایت حاصل تھی اسی لئے عوام الناس کے ایک بڑے طبقے نے اس تحریک کا نام ڈالروں والی تحریک رکھا تھا۔
اب کیا امریکہ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ویسی تحریک چل پائے گی یا کوئی ’’اشارے‘‘ بھی ملے ہیں؟ یہ سوال اہم ہے ،

پنجاب میں آئندہ دنوں میں لاہور میں قومی اسمبلی اور خانیوال میں صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ لاہور میں پرانے حریف (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی مدمقابل ہیں۔ پی ٹی آئی کا امیدوار بیگم سمیت نااہل ہوگیا تھا۔ خانیوال میں تینوں جماعتیں (ن) لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی میدان میں ہیں۔
حیران کن طور پر (ن) لیگ کے کارکنان بلدیہ کے اہلکاروں کے تعاون سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کے بینر اور جھنڈے اتروارہے ہیں۔
لاہور میں الزامات اور ویڈیوز نے خوب تماشا لگارکھا ہے۔
اسی دوران پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) سے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھڈے کا نیا دروازہ کھولنے کی ضرورت اس لئے پڑ رہی ہے کہ پنجاب حکومت بلدیاتی الیکشن نہیں چاہتی۔
بلدیاتی الیکشن کے معاملے پر سندھ میں بھی جھگڑا جاری ہے۔ چار خون کے پیاسے، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پی ایس پی اور پی ٹی آئی متحد ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
پی ایس پی کے مصطفی کمال نے گزشتہ روز کہا ’’پیپلزپارٹی کے وزراء اور لوگوں کو اغوا کرو ماردو سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ اس گفتگو کی ویڈیو موجود ہے۔
کیا سندھ میں لسانی فسادات کا دروازہ کھولنے کی تیاریاں ہورہی ہیں؟
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کراچی کو وفاق کے زیرانتظام شہر بنوانے کے لئے ایک قانونی مسودے پر کام کررہے ہیں۔
چار خون کے پیاسوں کا راتوں رات فعال ہونا، مصطفی کمال کا اغوا کرو ماردو کی دھمکی دینا اور سندھ بار کونسل کے سیکرٹری کا کراچی میں قتل ہونا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے معاملات ہیں۔ خدا کرے یہ اطلاع درست نہ ہو اور سندھ کا امن و امان برقرار رہے۔
اختلافات طے کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اغوا کرو قتل کرو جان چھڑائو جیسی باتیں کیوں ہورہی ہیں ضرورت کیا ہے ؟
ادھر صورت یہ ہے کہ ماہ نومبر میں پچھلے 21 ماہ کے دوران سب سےزیادہ مہنگائی رہی، 11فیصد سے زیادہ۔لیکن سیکرٹری خزانہ نے بدھ کو ہونے والے پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس میں جو اعدادوشمار پیش کئے وہ انہوں نے کہاں سے لئے ؟
ان کا دعویٰ تھاکہ قیمتوں میں کمی ہوئی ہے ان کا موقف تو ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ سے بھی نہیں ملتا۔

اگر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وفاقی سیکرٹری خزانہ نے اجلاس میں ادارہ شماریات کی رپورٹ کے ایک حصے کو پیش کیا جس میں اشیاء کی قیمتیں کم ہونے کا ذکر کیا گیا تھا _ جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان کا ذکر گول کرگئے۔
حالت یہ ہے کہ درجہ دوئم کے گھی کی فی کلو قیمت میں 10روپے کا اضافہ ہوا۔ دالیں، چاول، کوکنگ آئل، ٹماٹر، دودھ، دہی وغیرہ مہنگے ہوئے۔ سوئی گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے لکڑی کی فی من قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
دلچسپ بلکہ عبرت حاصل کرنے والی خبر یہ ہے کہ ایک سو پاکستانی روپے کے بدلے 54.71 افغان روپے ملتے ہیں اور 42.74 بھاتی روپے۔
چلیں آگے بڑھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کے لئے 10دسمبر کو یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے۔ بلاول کہتے ہیں جلسے کریں گے، جلوس نکالیں گے، دھرنے دیں گے۔ شاہراہیں بند کریں گے۔

ہمارے دوست استاد مشتاق احمد نے پیپلزپارٹی کے اس اعلان پر پھبتی کستے ہوئے کہا ’’(ن) لیگ کے خلاف پیپلزپارٹی کو تیار کیا جارہا ہے‘‘۔ استاد جی بھول گئے کہ (ن) لیگ کا خمیر پیپلزپارٹی اور بھٹو دشمنی سے گندھا اور اٹھا ہے۔
خیر چھوڑیں استاد سادہ آدمی ہے ان کے نزدیک پھانسی چڑھنے سے زیادہ اہم اور مردانہ کام سمجھوتہ کرکے پتلی گلی سے نکل جانا ہے اور ’’انتظام‘‘ کرکے لندن روانہ ہوجانا ہے۔
چلیں جانے دیجئے یہ ہم کس بحث میں پڑگئے۔
پچھلے کالم پر دوست تو ناراض ہیں ہی قارئین کی بڑی تعداد نے بھی مختلف ذرائع سے ناراضگی بھرے پیغامات بھجوائے ہیں۔ ان سب کی خدمت میں عرض ہے کہ
"ہم بھی انسان ہی ہیں گوشت پوست کے انسان، موسم بھی محسوس ہوتے ہیں اور حالات کا اثر بھی احساس دلاتا ہے”۔
امید ہی ہے کہ مایوسی وقتی ہوگی اور اس کا دورانیہ طویل نہیں ہوگا۔
ادھر لندن سے خبر آئی ہے کہ بھائی الطاف حسین نے اپنے خلاف دہشت گردی کے مقدمہ کی سماعت رکوانے کے لئے جو درخواست دی تھی وہ مسترد کردی گئی ہے۔
الطاف بھائی نے اپنی درخواست میں لکھا تھا ’’میں ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ نہیں ہوں‘‘ کرائون پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم نہیں سمجھتے آپ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ نہیں اور ٹرائل کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اس لئے ٹرائل اگلے سال مقررہ وقت پر شروع ہوگا۔
بھائی نے ابھی چار دن قبل روایتی جوش و خروش سے ویڈیو بیان جاری کیا اور سندھ کے تمام باسیوں کو اتحادواتفاق کے ساتھ رہنے کی ہدایت کی تھی ، ان کے عاق شدہ گروپ کا البتہ موڈ کچھ الگ رہا ہے اور ناخلف قرار دیئے گئے شخص کا بھی۔
یکم دسمبر کو حکومت نے پٹرولیم کی 15نومبر والی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت جب عالمی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمت 67ڈالر سے بھی کم ہوگئی ہے،حکومت ملکی صارفین کو دوچار ٹھنڈے سانس لینے کا موقع کیوں نہیں دینا چاہتی۔
کہا جارہا ہے کہ جنوری میں قیمتیں کم کریں گے چلیں خوش رہیں بھول نہ جایئے گا۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے کریاکرم کی تیاریاں ہورہی ہیں بس آخری رسومات کیسے کرنی ہیں ادارہ ختم کرنا ہے یا نجکاری کرنی ہے اس پر غور ہورہا ہے۔
یہ غوروفکر اصل میں آئی ایم ایف کے حکم پر ہے اور اسی طرح سوئی گیس کی قیمتیں بڑھانے کی دو درخواستوں کی سماعت 6دسمبر کو ہوگی۔ آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author