گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کی سیر کرتے ہم دیکھتے ہیں 1880-90ء ڈیرہ شھر کے وسط میں ایک اہم شخصیت جو پتھر فقیر کے نام سے مشھور ہے ایک محل تعمیر کرتی ہے جو پتھر محل کے نام سے موسوم ہے ۔یہ تین بڑے ہال چار بیڈ رومز پر مشتمل کشادہ عمارت ہے۔ پتھر فقیر موسیقی اور راگ و رنگ کا بے حد شوقین تھا اور اچھے گلوکاروں کو سننے اور ڈیرہ لانے کے لیے دہلی تک سفر کرتا۔ پتھر محل میں محفل موسیقی منعقدہوتی جس میں شرکت کے لیے ہندوستان کے کونے کونے سے بڑے گلوکار آتے تھے۔پتھر فقیر خود بھی موسیقی کا ماہر تھا اور اگر کسی گلوکار کے سر تال میں فرق پڑتا تو اسے گانا گانے سے روک دیتا۔دوسری طرف ڈیرہ میں بڑے بڑے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے برابر آتے تھے کیونکہ یہاں کے لوگ کافی ذوق اور شوق رکھتے تھے۔
عظیم ستار نواز استاد حسین بخش سہرودی، استاد شانڑیں خان، استاد عبداللہ عالی والے جوکہ باقاعدہ طور پر برصغیر کے سب سے بڑے مو سیقار گھرانے کپور تھلویاں والے کے شکری شاگرد تھے۔ ایسے گھرانے سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنیوالے پھر دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کے اؤل نمبر کے موسیقاروں اور کلاسیکل گائکوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ انہی فنکار اساتزہ کے ناموں کو زندہ رکھنے کے لیئے تقسیم سے پہلے باقاعدہ طور پر استاد چھوٹے کوڈو خان، استاد بہادر خان کلاسیکل سُرناء نواز کی شکل میں ابھرے جو کہ انڈیا پنجاب کے مہا سُرنا نواز استاد گودڑ سنگھ کے شاگرد تھے۔ یہ عظیم اساتذہ کلاسیکل اور راگ رنگ میں اتنے ماہر تھے کہ ان کے آگے برصغیر کے دور دراز کے لوگ ڈیرہ اسماعیل خان آ کے باقاعدہ شاگردی اختیار کرتے۔ کئی ایک نے تو ماضی کی بمبئے ٹاکیز کمپنی کے توسط سے بالی ووڈ کی فلموں میں ستار و سُرنا بجا کر اپنے آپ کو منوایا۔ ڈیرہ کے عظیم شہنائی نواز استاد بڑے حاکم خان، استاد کوڑو خان، استاد بڑے حق نواز، استاد چھوٹے حاکم خان، استاد صادق خان۔ استاد الہی بخش دامانی، استاد حقنواز خان، استاد گُل محمد خان جیسے عظیم کلاسیکل گائک اور شہنائی نوازوں نے دھوم مچا رکھی تھی۔ صرف انکو ہی نہیں بلکہ سر زمین ڈیرہ سے تعلق رکھنے والے عظیم قوال اور کلاسیکل گائک استاد سلطان علی تانہ، استاد لطیف عرفانہ، استاد رمضان عرف رَمے خان، استاد حسو خان (طبلہ نواز)، استاد بیکی خان، استاد کوڑو خان اور بین باجا (مشک) بجانے والے ماہر استاد غلام علی خان، اک تارا بجانے میں اپنی مثال آپ استاد اللہ داد خان، استاد چمن خان، استاد معشوق علی خان کو بھی موجود تھے۔ اب تو ان کے فن کو زندہ رکھنے اور ہمارے لیئے خوشیوں کا سماں بنانے والے چند ایک ہی اساتذہ بچے ہوئے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ، کلاسیکل اور نیم کلاسیکل گائک جو ہمارے شہر کا جھومر ہے اور اپنے فن کی خوشبوئیں بکھیرنے والا ریڈیو، ٹی وی کا مایہ ناز گلوکار استاد غلام عباس گل ڈیروی اور دوسرے عظیم شہنائی نواز، کلانٹ نواز بلکہ موسیقی کے ہر شعبے میں کمال مہارت رکھنے اور درجنوں ایوارڈ حاصل کرنے والی شخصیت استاد اللہ نواز جو کہ باقاعدہ طور پر پاک و ہند کے مشہور کلاسیکل شام چوراسی گھرانے کے عظیم استاد سلامت علی خان کے شاگرد ہیں اور انکے بیٹے قربان عباس خان، غلام عباس بجلی، امانت علی خان، استاد اقبال حسین ہی رہ گئے ہیں جو شہنائی، سُرناء اور منگل وادیا کی سریلی دھنیں بکھیر رہے ہیں۔ مایہ ناز طبلہ نواز استاد قیوم علی خان کے ساتھ ساتھ استاد صفدر عباس سوئی، زبیر عباس ہی ہیں جو کلاسیکل طبلہ کو فروغ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ استاد صادق، استاد اقبال حسین، استاد جمشید خان اور ان جیسے کئی ایک عظیم فنکاروں کو تو ہم نے فراموش کر دیا۔ میرا سب سے سوال ہے۔۔ کیا ہم نے انکو تاریخ کی کتب میں جگہ دی؟ کیا ہم نے انکے علم پہ تحقیق کی؟ کیا کبھی کسی لکھاری نے انکے لیئے قلم اٹھایا؟ کیا ہم نے انکی موجودہ نسلوں کی حوصلہ افزائی کی؟۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے، سب یہی جواب دیں گے۔۔ چھوڑو یار کن چکروں میں پڑ گئے ہو، ہمیں کیا کوئی جئے کوئی مرے۔۔۔ انکی تاریخ لکھنے پے، ان پہ تحقیق کرنے سے۔ انکو خراجِ عقیدت پیش کرنے سے، کیا انکے موجودہ نسلیں کوڑ کوڑی کے محتاج ٹھوکریں نہیں کھا رہے؟
ترقی کے عروج پر کھڑے ہمیں ماضی کو بھی کھنگالنے اور اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تشدد اور ظلم و تعدی سے سیکھا تو کیا سیکھا۔ سیکھنا تو اسے کہتے ہیں جو ماں کی آغوش سے سیکھ کر آیا جائے۔ یہ ڈھول، شہنائی، مشک، مقامی گیت اگرچہ معدوم ہو رہے ہیں لیکن ہمارا ثقافتی ورثہ تو تھے۔ تو ان کو کتابوں میں محفوظ کرنا ضروری تھا تاکہ آئندہ نسلیں جان سکیں ہم کن راہوں سے گزرتے رہے ۔۔ انہی میر عالموں، مقامی گائکوں اور استادوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے مسحور کُن مناظر اور بدلتی رُتوں نے یہاں کے لوگوں کے ”ذوقِ جمال”کو جِلا بخشی ہے اور فطرت سے محبت یہاں کی مقامی لوک شاعری، موسیقی، رسم ورواج، ادب اور رقص میں بھی جھلکتی ہے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ ثقافت، روایت اور ورثے کی سنہری تاریخ سے مُزین اس کتاب کے صفحات اب رفتہ رفتہ پھیکے پڑتے جا رہے ہیں۔ مقامی ڈھول، شرناء، اک تارا، مشک، تنبورا، بین باجا، ڈھولک بھی ڈیرہ کی طرح اپنے اندر وُسعت، دل کشی اور فطرت کے اسرار و رموز لیے ہوئے ہے۔آجکل شہنائی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ ڈھول کا چمڑا جگہ جگہ سے ہماری بے توقیری سے زخم خوردہ ہے۔ بین باجا (مشک) تو کب کی ہم نے دفنا دی، کلانٹ تو ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، اک تارا کو تو ماضی کا حصہ بنا دیا۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اِن سازوں، دھنوں اور آلات کو محفوظ رکھنے کے لیے سرکاری سطح پر کوششیں ہونی چاہیں مگر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب اِس علاقے کے عوام کو ہی اپنے اس خوب صورت ثقافت و روایت کا تحفظ کرنا ہوگا، ورنہ کل کو یہ ساز بھی عجائب گھروں کی زینت بن جائیں گے۔ خدا جانے ہم یہ بات کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ معاشرے کو فنکار پیار محبت اتحاد یگانگت کی لڑی سے پرو کے رکھتے ہیں اور ڈیپریشن سے جو بیماریاں جنم لے رہی ہیں ان کا علاج ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ