اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہر داغ ہے اس دل پہ بجز داغ ندامت||شکیل نتکانی

میری خبروں سے بہت سے لوگوں (جن سے متعلق وہ خبریں ہوتیں تھیں بشمول سرکاری ملازمین و افسران، صنعت کار وغیرہ) کو بہت شکایتیں رہیں، ناراضگیاں مول لیں، جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں، لالچ، آفرز دیں گئیں۔

شکیل نتکانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2006 میں ڈان کو جوائن کیا، پندرہ سال سے زیادہ اس ادارے سے وابستہ رہا۔ ملتان میں رہائش اختیار کی۔ بطور صحافی بہت سے لوگوں سے واسطہ رہا۔ اچھے اور برے دونوں طرح کے حالات رہے۔ میری خبروں سے بہت سے لوگوں (جن سے متعلق وہ خبریں ہوتیں تھیں بشمول سرکاری ملازمین و افسران، صنعت کار وغیرہ) کو بہت شکایتیں رہیں، ناراضگیاں مول لیں، جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں، لالچ، آفرز دیں گئیں۔ ان سب لوگوں کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے میرے مؤقف پر ڈٹے رہنے پر اکسایا اور مجھے مضبوط کیا ہمہ قسم کے خطروں کا سامنا کرنے کے لئے۔ ناراض لوگوں کی تعداد تھوڑی اور محبت کرنے، خیر خواہی کرنے اور دعائیں دینے والے ان گنت۔ ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کرنا بھی چاہوں تو شاید نہ کر سکوں۔ میرا نوکری سے termination کا یہ خط متوقع تو کئی مہینوں سے تھا لیکن مجھے اس کا پتہ پرسوں چلا اور موصول کل ہوا۔ زرا برابر پریشانی، دکھ اور ملال نہیں ہے۔ کچھ مہینے پہلے اپنی مستقل پوزیشن senior staff correspondent سے استعفیٰ دیکر نیا آگریمنٹ سائن کرنے کے لئے یہ کہہ کر دباؤ ڈالا گیا کہ اگر آپ استعفیٰ نہیں دو گے تو پوسٹ abolish کر دی جائے گی۔ میرے کئی خیرخواہ، محبت کرنے والے، میرے اپنے جن سے میں نے مشورہ مانگا کہ اس صورت میں کیا کرنا چاہیے تو ان کا کہنا تھا میڈیا انڈسٹری کے حالات بہت خراب جا رہے ہیں جیسے ادارے والے کہہ رہے ہیں ویسا کر لو ہر سال کنٹریکٹ renew ہوتا رہے گا اور بیروزگار ہونے سے بچ جاؤ گے۔ لیکن اپنے سارے صحافتی کیرئیر میں جو بات میں نے سیکھی اور اس پر عمل پیرا رہا وہ تھا کہ جس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اس کے ساتھ کھڑا ہونا اور پھر اس سلسلے میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ جب میں لوگوں کے حق کے لئے کسی حد تک جا سکتا ہوں تو اپنا حق کیوں چھوڑ دوں۔ ڈان بطور ادارہ میرے حق پر ڈاکا ڈالنا چاہتا تھا جو میرے لئے کسی صورت بھی قابلِ قبول نہ تھا اس لئے میں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈان بطور ادارہ بہت بڑی چیز ہو گا۔ پچھلے پندرہ سالوں میں ملتان میں ڈان کے اچھے یا برے ذکر کا باعث میں تھا اور میرا کام تھا۔ میرا کام ڈان کی پہچان بنا میرا کام میری پہچان بنا۔ ابھی میں نے ڈان سے قانونی طور پر اپنا حق لینا ہے جس کے لئے میں آخری حد تک لڑوں گا۔ مجھے نکالنے کا ڈان کے پاس اس کے سوا کوئی اور حل نہیں تھا کہ وہ پوسٹ abolish کر دیں یعنی مجھے نکالنے کے لیے انہوں نے ملتان کو خصوصی اور اس پورے ریجن کو عمومی طور پر کوریج کے حوالے سے تقریباً بلیک آؤٹ کر دیا ہے۔ کیونکہ اگر کسی اور صحافی کی خدمات لیتے ہیں تو سیٹ abolish کرنے کی justification باقی نہیں رہتی۔ آخر میں ایک بار پھر سب محبت کرنے والوں اور نفرت کرنے والوں کا شکریہ کہ ان کی محبت اور نفرت نے مجھے تقویت بخشی، پرعظم رکھا اور مجھے اپنی صحافتی ذمہ داریاں پیشہ ورانہ انداز میں ادا کرنے میں مدد فراہم کی۔
نوٹ: ڈان دو سال پہلے تک ستر، پچھتر کروڑ تک سالانہ منافع بھی شو کرتا رہا ہے اب اگر کوئی اصل منافع کا اندازہ لگانا چاہتا ہے تو خود لگا لے
یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: