حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 کا ضمنی الیکشن سول سپر میسی کے کامریڈوں، میڈیا منیجروں، جاتی امرا نیوز اور خود سول سپر میسی کے مالکان کے گلے پڑ گیا لگتا ہے۔ ہفتہ بھر سے سارے چیخ رہے تھے کہ انتظامیہ پیپلزپارٹی سے تعاون کررہی ہے ’’راولپنڈی‘‘ نے بلاول کےسر پر دست شفقت رکھ دیا ہے۔ گزشتہ روز (ن) لیگ نے الیکشن کمیشن اور پولیس کے سہارے این اے 133میں پی پی پی کے مرکزی انتخابی دفتر پر جو تماشے لگوائے اس سے یہی لگتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر۔ سعید مہدی کے داماد نہیں بلکہ (ن) لیگ کے ’’دولہا بھائی‘‘ ہیں۔
الیکشن کمیشن کی تاریخ میں پہلی بار اس کے نمائندوں نے انتخابی دفتر پہنچ کر نوٹس سرو کیا۔ روایت اس کے برعکس ہے۔ لاہور پولیس نے پی پی پی کے مرکزی انتخابی دفتر پر کس کی شکایت پر ریڈ کیا اور یہ کہ جب دفتر میں موجود رہنمائوں اور کارکنوں نے تحریری شکایت کی کاپی اور ریڈ کرنے کا اجازت نامہ طلب کیا تو چالیس اہلکاروں کی نفری افسروں کی قیادت میں بھاگ کیوں کھڑی ہوئی؟
حالانکہ غیرقانونی طور پر انتخابی دفتر میں داخلی ہونے والے پولیس افسروں کا موقف تھا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ یہاں (پی پی پی کے انتخابی دفتر میں) ووٹ خریدنے کے لئے دو دو ہزار روپے دے کر شناختی کارڈ رکھے جارہے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ کہ سول سپر میسی میڈیا نے ان اطلاعات پر پیپلزپارٹی کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کردیا۔
ہمارے قابل احترام دوست مظہر برلاس کی شاگردہ نے (یہ (ن) لیگ کی مخصوص نشستوں پر ایم پی اے ہیں) تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرڈالا۔
اس طوفان میں لیگی متوالوں نے اپنی قدیم تربیت کے "حسبِ ذوق” خوب چھلانگیں لگائیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ سندھ کے چند اندرونی اضلاع کے جاگیرداروں کی پیپلزپارٹی سے (ن) لیگ کے پایہ تخت لاہور میں سول سپر میسی کے کامریڈوں کو خوف لاحق ہوگیا ہے۔
وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ لاہور میں ان کے علاوہ بھی کسی جماعت کا سیاسی وجود ہوسکتا ہے۔
پیپلزپارٹی نے طویل عرصہ بعد ایک منظم عوامی رابطہ مہم کے ذریعے لاہور کے ضمنی انتخابات میں جو گرما گرمی پیدا کی ہے اس کی دو وجوہات ہیں اولاً متوسط طبقے کے سیاسی کارکن اسلم گل کا امیدوار کے طور پر میدان میں اترنا، ثانیاً پی پی پی وسطی پنجاب کی قیادت کا حلقہ انتخاب میں متحرک کردار ادا کرنے کے ساتھ گھر گھر جاکر ووٹ مانگنا۔
ہفتہ دس دن قبل تک لاہور کی مالک (ن) لیگ آرام سے بیٹھی تھی ان کے خیال میں اس نشست پر پولنگ کا عمل بس تکلف ہے مگر جس طرح عوامی انداز میں پی پی پی کے کارکنوں نے انتخابی عمل میں جان ڈالی متوالے ہڑبڑاکر اٹھے اور الزاماتی توپوں کا رخ پیپلزپارٹی کی طرف کردیا۔
سیاست بہرطور یہی ہے اور انتخابی سیاست میں ہتھکنڈوں سے ہی جان ڈالی جاتی ہے۔ 27نومبر کو لیکن ہوا یہ ہے کہ صبح گیارہ بجے سے شام تک سول سپر میسی میڈیا اور متوالے پیپلزپارٹی کے خلاف مہم چلاتے رہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی دولہا بھائی کا کردار ادا کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تو لاہور پولیس نے بھی حق نمک ادا کیا لیکن جونہی (ن) لیگ کے انتخابی دفتر میں دو ہزار روپے پر ووٹ خریدنے اور اس کے لئے قرآن مجید پر حلف لئے جانے کی مبینہ ویڈیوز وائرل ہوئیں سارے چی گویروں کو سانپ سونگھ گیا۔
جاتی امرا نیوز کے تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے پہلے اس خریداری پر ٹیوٹ کی اور سوال کیا ’’یہ ووٹ کو عزت دی جارہی ہے یا نوٹ کو؟‘‘
پھر کچھ دیر بعد وہ ٹیوئٹ ڈیلیٹ کرکے انقلاب کے کوچے کی پتلی گلی میں غائب ہوگئے۔
لندن میں بیٹھے ایک چی گویرے یوٹیوبر نے ویڈیوز دیکھے بغیر دو ویڈیوز اپنے اکائونٹ پر اپ لوڈ کرکے پیپلزپارٹی کو صلواتیں سنائیں کچھ دیر بعد کسی نے انہیں کہا ’’بڈھیا مریں ویڈیو ویخ تاں لے اپنے ای مورچے تے حملہ کردتا او‘‘ تو انہوں نے ویڈیو ڈیلیٹ کردیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ کم از کم میں یہ نہیں سمجھتا کہ پیپلزپارٹی کی کامیابی کے کچھ چانسز ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس نے جاتی امراء کے پایہ تخت لہور میں الیکشن بنادیا ہے برسوں سے مایوسی کا شکار پرانے جیالے آپ کو حلقہ 133کے انتخابی میدان میں سرگرم دیکھائی دیں گے۔
اس حلقے کی خصوصی اہمیت اس میں شامل متوسط طبقوں اور محنت کشوں کی آبادیاں ہیں۔ فیصلہ کن ووٹ ان آبادیوں کا ہے۔ پیپلزپارٹی نے رویاتی طور پر اپنی انتخابی مہم میں ان آبادیوں کو اہمیت دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چی گویروں کی گردنوں سے سریا نکل گیا۔
اب ہفتہ دس دن سے وہ بھی گلی گلی ووٹ مانگ رہے ہیں۔ البتہ لاہور کا میڈیا حسب دستور جاتی امراء کے ساتھ ہے۔ سول سپرمیسی کا سوشل میڈیا گروپ بھی فعال ہے۔ الزاماتی توپوں کا رخ پی پی پی کی طرف ہے۔
تحریک انصاف کے امیدوار اور متبادل امیدوار (دونوں میاں بیوی تھے) کے کاغذات مسترد ہوئے اور اپیلیں بھی خارج ہوگئیں۔اسلم گل پرانے سیاسی کارکن ہیں جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں انہوں نے ریاستی تشدد اور قیدوبند کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ 1979ء کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا 1984ء کے دونوں مرتبہ انہوں نے ضیاء سرکار کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔
پی پی پی نے ضمنی الیکشن میں اسلم گل کو امیدوار بنایا۔ بنیادی طور پر یہ اقدام الیکشن جیتنے سے زیادہ لاہور میں پیپلزپارٹی کو پھر سے منظم کرنے کی سوچ کا نتیجہ (یہ میری رائے ہے) لگتا ہے مگراسلم گل اور پیپلزپارٹی نے حالات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ اس حلقہ کی محنت کش آبادیوں میں جس طح انتخابی مہم چلائی اس سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو نئی زندگی مل گئی۔ سیاسی کارکن ہمیشہ زمین اور زمین زادوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تخت لہور کی مالک (ن) لیگ کو سندھ کے اندرونی اضلاع کی بچہ پارٹی (ان کا سوشل میڈیا اس کے علاوہ بھی کچھ لکھ رہا ہے وہ یہاں نقل کرنے سے اخلاقیات مانع ہیں) سے خوفزدہ کیوں ہے؟
یہ تو پنجاب میں چند ووٹ لینے والی پارٹی ہے۔
مکرر عرض این اے 133کا انتخابی نتیجہ کچھ بھی ہو پی پی پی نے اس انتخابی دنگل کے میدان کو سجاسنوار دیا ہے۔ بدترین بلکہ غلیظ ترین پروپیگنڈے کے باوجود اس کے کارکنوں نے ہمت نہیں ہاری یہی وجہ ہے کہ 27نومبر کو (ن) لیگ کے انتخابی دفاتر میں دو دو ہزار روپے کے عوض ووٹ کو قرآن پر حلف کے ذریعے عزت دینے کا مبینہ پروگرام ہوا اور اس کی "ویڈیوز” وائرل ہوگئیں۔ (ن) لیگ کے دولہا بھائی چیف الیکشن کمشنر کا مقامی عملہ انتخابی عمل میں ایک فریق ہے اور پولیس اس فریق کی پشت پر کھڑی دیکھائی دے رہی ہے۔
یہی پیپلزپارٹی کی کامیابی ہے اس کے سیاسی اور ادارہ جاتی مخالف این اے 133میں ایک پیج پر ہیں۔
الیکشن کمیشن کی تاریخ میں پہلی بار اس کے نمائندوں نے انتخابی دفتر پہنچ کر نوٹس سرو کیا۔ روایت اس کے برعکس ہے۔ لاہور پولیس نے پی پی پی کے مرکزی انتخابی دفتر پر کس کی شکایت پر ریڈ کیا اور یہ کہ جب دفتر میں موجود رہنمائوں اور کارکنوں نے تحریری شکایت کی کاپی اور ریڈ کرنے کا اجازت نامہ طلب کیا تو چالیس اہلکاروں کی نفری افسروں کی قیادت میں بھاگ کیوں کھڑی ہوئی؟
حالانکہ غیرقانونی طور پر انتخابی دفتر میں داخلی ہونے والے پولیس افسروں کا موقف تھا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ یہاں (پی پی پی کے انتخابی دفتر میں) ووٹ خریدنے کے لئے دو دو ہزار روپے دے کر شناختی کارڈ رکھے جارہے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ کہ سول سپر میسی میڈیا نے ان اطلاعات پر پیپلزپارٹی کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کردیا۔
ہمارے قابل احترام دوست مظہر برلاس کی شاگردہ نے (یہ (ن) لیگ کی مخصوص نشستوں پر ایم پی اے ہیں) تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرڈالا۔
اس طوفان میں لیگی متوالوں نے اپنی قدیم تربیت کے "حسبِ ذوق” خوب چھلانگیں لگائیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ سندھ کے چند اندرونی اضلاع کے جاگیرداروں کی پیپلزپارٹی سے (ن) لیگ کے پایہ تخت لاہور میں سول سپر میسی کے کامریڈوں کو خوف لاحق ہوگیا ہے۔
وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ لاہور میں ان کے علاوہ بھی کسی جماعت کا سیاسی وجود ہوسکتا ہے۔
پیپلزپارٹی نے طویل عرصہ بعد ایک منظم عوامی رابطہ مہم کے ذریعے لاہور کے ضمنی انتخابات میں جو گرما گرمی پیدا کی ہے اس کی دو وجوہات ہیں اولاً متوسط طبقے کے سیاسی کارکن اسلم گل کا امیدوار کے طور پر میدان میں اترنا، ثانیاً پی پی پی وسطی پنجاب کی قیادت کا حلقہ انتخاب میں متحرک کردار ادا کرنے کے ساتھ گھر گھر جاکر ووٹ مانگنا۔
ہفتہ دس دن قبل تک لاہور کی مالک (ن) لیگ آرام سے بیٹھی تھی ان کے خیال میں اس نشست پر پولنگ کا عمل بس تکلف ہے مگر جس طرح عوامی انداز میں پی پی پی کے کارکنوں نے انتخابی عمل میں جان ڈالی متوالے ہڑبڑاکر اٹھے اور الزاماتی توپوں کا رخ پیپلزپارٹی کی طرف کردیا۔
سیاست بہرطور یہی ہے اور انتخابی سیاست میں ہتھکنڈوں سے ہی جان ڈالی جاتی ہے۔ 27نومبر کو لیکن ہوا یہ ہے کہ صبح گیارہ بجے سے شام تک سول سپر میسی میڈیا اور متوالے پیپلزپارٹی کے خلاف مہم چلاتے رہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی دولہا بھائی کا کردار ادا کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تو لاہور پولیس نے بھی حق نمک ادا کیا لیکن جونہی (ن) لیگ کے انتخابی دفتر میں دو ہزار روپے پر ووٹ خریدنے اور اس کے لئے قرآن مجید پر حلف لئے جانے کی مبینہ ویڈیوز وائرل ہوئیں سارے چی گویروں کو سانپ سونگھ گیا۔
جاتی امرا نیوز کے تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے پہلے اس خریداری پر ٹیوٹ کی اور سوال کیا ’’یہ ووٹ کو عزت دی جارہی ہے یا نوٹ کو؟‘‘
پھر کچھ دیر بعد وہ ٹیوئٹ ڈیلیٹ کرکے انقلاب کے کوچے کی پتلی گلی میں غائب ہوگئے۔
لندن میں بیٹھے ایک چی گویرے یوٹیوبر نے ویڈیوز دیکھے بغیر دو ویڈیوز اپنے اکائونٹ پر اپ لوڈ کرکے پیپلزپارٹی کو صلواتیں سنائیں کچھ دیر بعد کسی نے انہیں کہا ’’بڈھیا مریں ویڈیو ویخ تاں لے اپنے ای مورچے تے حملہ کردتا او‘‘ تو انہوں نے ویڈیو ڈیلیٹ کردیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ کم از کم میں یہ نہیں سمجھتا کہ پیپلزپارٹی کی کامیابی کے کچھ چانسز ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس نے جاتی امراء کے پایہ تخت لہور میں الیکشن بنادیا ہے برسوں سے مایوسی کا شکار پرانے جیالے آپ کو حلقہ 133کے انتخابی میدان میں سرگرم دیکھائی دیں گے۔
اس حلقے کی خصوصی اہمیت اس میں شامل متوسط طبقوں اور محنت کشوں کی آبادیاں ہیں۔ فیصلہ کن ووٹ ان آبادیوں کا ہے۔ پیپلزپارٹی نے رویاتی طور پر اپنی انتخابی مہم میں ان آبادیوں کو اہمیت دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چی گویروں کی گردنوں سے سریا نکل گیا۔
اب ہفتہ دس دن سے وہ بھی گلی گلی ووٹ مانگ رہے ہیں۔ البتہ لاہور کا میڈیا حسب دستور جاتی امراء کے ساتھ ہے۔ سول سپرمیسی کا سوشل میڈیا گروپ بھی فعال ہے۔ الزاماتی توپوں کا رخ پی پی پی کی طرف ہے۔
تحریک انصاف کے امیدوار اور متبادل امیدوار (دونوں میاں بیوی تھے) کے کاغذات مسترد ہوئے اور اپیلیں بھی خارج ہوگئیں۔اسلم گل پرانے سیاسی کارکن ہیں جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں انہوں نے ریاستی تشدد اور قیدوبند کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ 1979ء کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا 1984ء کے دونوں مرتبہ انہوں نے ضیاء سرکار کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔
پی پی پی نے ضمنی الیکشن میں اسلم گل کو امیدوار بنایا۔ بنیادی طور پر یہ اقدام الیکشن جیتنے سے زیادہ لاہور میں پیپلزپارٹی کو پھر سے منظم کرنے کی سوچ کا نتیجہ (یہ میری رائے ہے) لگتا ہے مگراسلم گل اور پیپلزپارٹی نے حالات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ اس حلقہ کی محنت کش آبادیوں میں جس طح انتخابی مہم چلائی اس سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو نئی زندگی مل گئی۔ سیاسی کارکن ہمیشہ زمین اور زمین زادوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تخت لہور کی مالک (ن) لیگ کو سندھ کے اندرونی اضلاع کی بچہ پارٹی (ان کا سوشل میڈیا اس کے علاوہ بھی کچھ لکھ رہا ہے وہ یہاں نقل کرنے سے اخلاقیات مانع ہیں) سے خوفزدہ کیوں ہے؟
یہ تو پنجاب میں چند ووٹ لینے والی پارٹی ہے۔
مکرر عرض این اے 133کا انتخابی نتیجہ کچھ بھی ہو پی پی پی نے اس انتخابی دنگل کے میدان کو سجاسنوار دیا ہے۔ بدترین بلکہ غلیظ ترین پروپیگنڈے کے باوجود اس کے کارکنوں نے ہمت نہیں ہاری یہی وجہ ہے کہ 27نومبر کو (ن) لیگ کے انتخابی دفاتر میں دو دو ہزار روپے کے عوض ووٹ کو قرآن پر حلف کے ذریعے عزت دینے کا مبینہ پروگرام ہوا اور اس کی "ویڈیوز” وائرل ہوگئیں۔ (ن) لیگ کے دولہا بھائی چیف الیکشن کمشنر کا مقامی عملہ انتخابی عمل میں ایک فریق ہے اور پولیس اس فریق کی پشت پر کھڑی دیکھائی دے رہی ہے۔
یہی پیپلزپارٹی کی کامیابی ہے اس کے سیاسی اور ادارہ جاتی مخالف این اے 133میں ایک پیج پر ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ